سنن نسائي
كتاب الأشربة
کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
50. بَابُ : الْحَثِّ عَلَى تَرْكِ الشُّبُهَاتِ
باب: شبہ والی چیزیں چھوڑنے کی ترغیب کا بیان۔
حدیث نمبر: 5713
أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ , عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ , عَنْ ابْنِ عَوْنٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ , وَإِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَاتٍ" , وَرُبَّمَا قَالَ:" وَإِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَةً , وَسَأَضْرِبُ فِي ذَلِكَ مَثَلًا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَمَى حِمًى , وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَا حَرَّمَ , وَإِنَّهُ مَنْ يَرْعَ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُخَالِطَ الْحِمَى" , وَرُبَّمَا قَالَ:" يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ وَإِنَّ مَنْ خَالَطَ الرِّيبَةَ يُوشِكُ أَنْ يَجْسُرَ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”حلال واضح ہے، اور حرام (بھی) واضح ہے، ان کے درمیان شبہ والی کچھ چیزیں ہیں ۱؎، میں تم سے ایک مثال بیان کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ کی باڑھ لگائی ہے (اور اللہ کی چراگاہ محرمات ہیں) جو بھی اس باڑھ کے اردگرد چرائے گا، عین ممکن ہے کہ وہ چراگاہ میں بھی چرا ڈالے۔ (کبھی «يوشك أن يخالط الحمى» کے بجائے «يوشك أن يرتع» کہا) (معنی ایک ہے الفاظ کا فرق ہے)، اسی طرح جو شبہ کا کام کرے گا ممکن ہے وہ آگے (حرام کام کرنے کی) جرات کر بیٹھے۔ ۱؎: کبھی «إن بين ذلك أمور مشتبهات» کے بجائے یوں کہا: «إن بين ذلك أمورا مشتبهة» مفہوم ایک ہی ہے بس لفظ کے واحد و جمع ہونے کا فرق ہے، گویا دنیاوی چیزیں تین طرح کی ہیں: حلال، حرام اور مشتبہ، پس حلال چیزیں وہ ہیں جو کتاب و سنت میں بالکل واضح ہیں جیسے دودھ، شہد، میوہ، گائے اور بکری وغیرہ، اسی طرح حرام چیزیں بھی کتاب و سنت میں واضح ہیں، جیسے شراب، زنا، قتل اور جھوٹ وغیرہ، اور مشتبہ وہ ہے جو کسی حد تک حلال سے اور کسی حد تک حرام سے یعنی دونوں سے مشابہت رکھتی ہو، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں ایک کھجور پڑا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کا ہو سکتا ہے تو میں اسے کھا لیتا۔ اس لیے مشتبہ امر سے اپنے آپ کو بچا لینا ضروری ہے۔ کیونکہ اسے اپنانے کی صورت میں حرام میں پڑنے کا خطرہ ہے، نیز شبہ والی چیز میں پڑتے پڑتے حرام میں پڑنے اور اسے اپنانے کی جسارت کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4458 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 5713 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5713
اردو حاشہ:
یہ روایت اور اس سے متعلقہ مسائل پیچھے(حدیث: 4458 میں) گزرچکے ہیں۔ اس جگہ اس حدیث کو ذکر کرنے سے امام ؒ کا مقصود یہ ہے کہ خمر تو قطعاً حرام ہے اور اس پر سب متفق ہیں۔عام نشہ آور مشروب بھی جمہور اہل علم کے نزدیک شراب کی طرح حرام ہے۔ کچھ لوگ اسے تھوڑی مقدار میں جائز سمجھتے ہیں۔ اسی طرح صحیح اور مشہور احادیث تواس کو حرام قراردیتی ہے البتہ بعض ضعیف اور غیر معروف روایات سے اس کی حلت کشید کی جاتی ہے لہٰذا یہ اگر حرام نہ بھی ہو تو مشتبہ ضرور ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مشتبہ کے ترک کو بھی ضروری قراردیا ہے تاکہ حرام سے بچا جا سکے۔ عام نشہ آور مشروب کا استعمال خمر تک لے جائے گا اور قلیل و کثیر کی دعوت دے گا اس لیے اس لحاظ سے بھی اس کا ترک ضروری ہے اور اس کی حلت کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ مشتبہ چیز حلال نہیں ہوتی بلکہ حلال اور حرام کے بین بین ہوتی ہے۔ اہل فتوٰ ی اور تقوٰی کا اس پر اتفاق ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5713
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 52
´ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے`
«. . . يَقُولُ:" الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 52]
� تشریح:
باب کے منعقد کرنے سے حضرت امام کا مقصد یہ ہے کہ ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بنا پر ہمارا مذہب یہی ہے کہ قلب ہی عقل کا مقام ہے اور فرماتے ہیں:
«قد اجمع العلماءعلي عظم موقع هذاالحديث وانه احدالاحاديت الاربعة التى عليهامدارالاسلام المنظومة فى قوله:»
«عمدة الدين عندنا كلمات . . . مسندات من قول خير البرية»
«اتق الشبه و ازهدن و دع ما . . . ليس يعينك واعملن بنية»
یعنی اس حدیث کی عظمت پر علماء کا اتفاق ہے اور یہ ان چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا مدار ہے جیسا کہ اس رباعی میں ہے کہ دین سے متعلق ارشادات نبوی کے یہ چند کلمات ہمارے نزدیک دین کی بنیاد ہیں۔ شبہ کی چیزوں سے بچو، دنیا سے بے رغبتی اختیا کرو، فضولیات سے بچو اور نیت کے مطابق عمل کرو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 52
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2051
2051. حضرت نعمان بن بشیر ؓسے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ جس شخص نے اس چیز کو ترک کردیا جس میں گناہ کا شبہ ہوتو وہ اس چیز کو بدرجہ اولی چھوڑ دے گا جس کا گناہ ہونا ظاہر ہو اور جس نے شبہ کی چیز پر جرات کی تو وہ جلد ہی ایسی بات میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کاگناہ ہونا ظاہر ہے۔ گناہ (گویا) اللہ کی چراگاہ ہیں، جوانسان اپنے جانور چراگاہ کے اردگرد چرائے گا جلد ہی اس کا چراگاہ میں پہنچنا ممکن ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2051]
حدیث حاشیہ:
عہد جاہلیت میں عربی شیوخ و امراء اپنی چراگاہیں مخصوص رکھا کرتے تھے ان میں کوئی غیر آدمی اپنے جانوروں کو نہیں داخل کرسکتا تھا۔
اس لیے غریب لوگ ان چراگاہوں کے قریب بھی نہ جاتے کہ مبادا ان کے جانور اس میں داخل ہو جائیں اور وہ سخت ترین سزاؤں کے مستحق گردانے جائیں۔
حدود اللہ کو بھی ایسی ہی چراگاہوں سے تشبیہ دی گئی اور قرآن مجید کی متعدد آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ حدود اللہ کے قریب بھی نہ جاؤ کہ کہیں ان کے توڑنے کے مرتکب ہو کر عنداللہ مجرم ٹھہرو۔
حدیث ہذا میں معاصی کو اللہ کی چراگاہ بتلایا گیا ہے۔
جو معاصی سے دور رہنے کے لیے ایک انتہائی تنبیہ ہے۔
ان سے بچنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حلال اورحرام کے درمیان جو امور مشتبہات ہیں ان سے بھی پرہیز کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ ان کے ارتکاب سے فعل حرام ہی کا ارتکاب ہو جائے، اس لیے جو مشتبہات سے بچ گیا وہ سلامت رہا۔
حرمات اللہ کی چراگاہوں سے تشبیہ زجر وتوبیخ کے لیے ہے کہ جس طرح امراء و زمیندار لوگوں کی مخصوص چراگاہوں میں داخل ہوجانے والے اور اپنے جانوروں کو وہاں چگانے والوں کو انتہائی سنگین سزا دی جاسکتی ہے۔
ایسے ہی جو لوگ حدود اللہ کو توڑنے اور اللہ کی چراگاہ یعنی امور حرام میں واقع ہوجاتے ہیں۔
وہ آخرت میں سخت ترین سزا کے مستحق ہوں گے۔
اور افعال مشتبہات سے پرہیز بھی اسی بنا پر ضروری ہے کہ مبادا کوئی شخص امورحرام کا مرتکب ہو کر عذاب الیم کا مستحق نہ ہو جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2051
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1266
مشتبہ امور سے بچنے کا حکم
«عن النعمان بن بشير رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول:- واهوى النعمان بإصبعيه إلى اذنيه - إن الحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات فقد استبرا لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات وقع فى الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك ان يقع فيه الا وإن لكل ملك حمى إلا وإن حمى الله محارمه الا وإن فى الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله الا وهى القلب . متفق عليه»
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ نعمان نے یہ بات اپنی انگلیاں کانوں کی طرف لے جاتے ہوئے کہی۔ ”یقیناً حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے تو جو شخص شبہوں سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی اور جو شبہ کی چیزوں میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا جیسا کہ وہ شخص جو ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد مویشی چرانے والا ہے قریب ہے کہ اس میں جا پڑے یاد رکھو ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے خبردار اللہ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار اور جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے یاد رکھو وہ دل ہے۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1266]
دنیا سے بےرغبتی اور پرہیزگاری کا بیان
«الزهد» ”کسی چیز کی رغبت کم ہونا۔“ مراد دنیا سے بےرغبتی اور آخرت کی طرف ساری توجہ رکھنا ہے۔
نووی نے اربعین کی شرح میں فرمایا زہد یہ ہے کہ دنیا کی غیر ضروری چیزیں چھوڑ دے خواہ حلال ہی ہوں اور انہیں چیزوں پر گزارہ کرے جن کے بغیر چارہ نہیں۔ [مسك الختام]
ترمذی اور ابن ماجہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں زہد حلال کو حرام کر لینے اور مال کو ضائع کر دینے کا نام نہیں بلکہ دنیا میں زہد یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس پر تمہیں ان چیزوں سے زیادہ بھروسہ ہو جو تمہارے ہاتھ میں ہیں اور تمہیں کوئی مصیبت اگر پہنچے تو اس کے ثواب کی رغبت اس سے زیادہ ہو کہ وہ مصیبت تمہیں نہ پہنچتی۔ صاحب سبل نے فرمایا یہ نبوی تفسیر دوسری تفسیروں سے مقدم ہے۔
مگر یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے۔ ترمذی نے فرمایا: اس میں عمرہ بن واقد منکر الحدیث ہے۔ البانی نے بھی اسے ضعیف جدا قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [ضعيف الترمذي حديث 405]
«الورع» ”بچنا“ مراد حرام سے بچنا بلکہ حرام سے بچنے کے لئے شبہ کی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا ہے۔
تخریج:
[بخاري 52]،
[مسلم المساقاة/107]
فوائد:
➊ حلال ظاہر ہے۔ کسی کو اس کے حلال ہونے میں شک نہیں، مثلاً پھل، روٹی، شہد، دودھ اور کھانے پینے کی عام چیزیں، اسی طرح خرید و فروخت اور دوسرے معاملات جو سب جانتے ہیں کہ حلال ہیں۔ حرام ظاہر ہے مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، زنا، غیبت، چغلی اور جھوٹ وغیرہ ان دونوں کا حکم واضح ہے جس کی حرمت صاف قرآن و حدیث میں آ گئی وہ حرام ہے جس کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا وہ حلال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار فرمائی وہ بھی حلال ہے اور اسی طرح جس چیز کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بطور احسان فرمایا وہ بھی حلال ہے۔
➋ ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ ان کی مشابہت حلال سے بھی ہے اور حرام سے بھی، ان کا حکم بہت سے لوگ نہیں جانتے صرف پختہ عالم ہی جانتے ہیں، اگر کوئی شخص حرام سے بچنا چاہے تو وہ ان مشتبہ چیزوں سے بھی بچے کیوں کے اگر ان چیزوں کا استعمال شروع کر دے گا تو حرام سے صحیح نفرت باقی نہیں رہے گی آہستہ آہستہ واضح حرام چیزوں کا استعمال بھی شروع کر دے گا۔
➌ جو شبہات میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قریب ہے کہ وہ حرام میں جا پڑے کیونکہ اگر یہ مطلب نہ ہو تو پھر مشتبہات صاف ہی حرام کی قسم بن جائیں گی جبکہ یہ بات درست نہیں۔
➍ جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی۔ کیوں کے شبہات سے بچے گا تو صریح حرام سے بد درجہ اولی بچے گا اس سے اس کا دین محفوظ ہو گیا عزت اس لئے کہ اگر شبہ والی چیزیں استعمال کرے گا تو عام لوگ بدگمان ہو جائیں گے جس سے اس کی عزت پر حرف آئے گا۔
➎ اس کی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں گری ہوئی ایک کھجور دیکھی تو فرمایا: اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کے مال سے ہو گی تو میں اسے کھا لیتا۔ [متفق عليه]
➏ تمام مکروہ چیزوں سے بچنا بھی اس میں شامل ہے کیونکہ مکروہ سے نفرت ختم ہوتی ہے تو آدمی حرام تک جا پہنچتا ہے۔ اگر مکروہ چیزوں سے نفرت قائم رہے تو حرام کی ارتکاب کی دلیری نہیں ہوتی۔
➐ جسم کے درست یا خراب ہونے کا اصل مرکز دل ہے۔ کیونکہ سارے اعضاء دل ہی کی بات مانتے ہیں، دل کہتا ہے تو ہاتھ اٹھ جاتا ہے آنکھ کھل جاتی ہے پاؤں چل پڑتے ہیں اور اگر وہ کہتا ہے تو آنکھ بند ہو جاتی ہے ہاتھ نیچے ہو جاتا ہے اور پاؤں رک جاتے ہیں۔ دل کسی چیز کی خواہش کرتا ہے تو عقل اس کے جواز کے دلائل کا انبار لگا دیتی ہے اگر نفرت کرتا ہے تو دوسری جانب کی دلیلیں نکال لاتی ہے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 101
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1266
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان`
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور نعمان اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے کانوں کی طرف لے گئے ” حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ان دونوں کے درمیان شبہات ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ان کو نہیں جانتی۔ پس جو کوئی شبہات سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پھنس گیا۔ جیسے چرواہا کہ چراگاہ کے گرد مویشی چراتا ہو تو کبھی نہ کبھی مویشی چراگاہ میں چلے جاتے ہیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! حرام چیزیں اللہ کی چراگاہ ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ سن لو! وہ ٹکڑا دل ہے۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1266»
تخریج: «أخرجه البخاري، الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه، حديث:52، ومسلم، المساقاة، باب أخذ الحلال وترك الشبهات، حديث:1599.»
تشریح:
1. یہ حدیث اصول اسلام میں سے شمار کی گئی ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ حلال اور حرام چیزیں تو واضح ہیں ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں ہے‘ البتہ مشتبہات ایسی چیزیں ہیں جن کی حرمت واضح نہیں یا جن کے بارے میں دلائل دونوں جانب تقریباًمساوی ہیں۔
اس قسم کے مسائل سے بچنا چاہیے اور ظن و تخمین سے کام نہیں لینا چاہیے۔
2.اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بدن کی اصلاح اور اس کے بگاڑ کا انحصار دل پر ہے۔
پورے جسم میں اس کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کی ہے۔
تمام اعضائے بدن اس کی رعیت اور عوام ہیں۔
اگر بادشاہ نیک ہو تو رعایا بھی نیک ہوگی اور اگر وہ برا ہو تو رعایا بھی بری ہوگی۔
3. ائمہ کا اس پر اجماع ہے کہ یہ ان احادیث میں سے ہے جن پر قواعد اسلام کا دار و مدار ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1266
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4458
´کمائی میں شکوک و شبہات سے دور رہنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا (اللہ کی قسم، میں آپ سے سن لینے کے بعد کسی سے نہیں سنوں گا) آپ فرما رہے تھے: ”حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے، ان دونوں کے بیچ کچھ شبہ والی چیزیں ہیں“ (یا آپ نے «مشتبہات» کے بجائے «مشتبھۃً» کہا ۱؎) - اور فرمایا: ”میں تم سے اس سلسلے میں ایک مثال بیان کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ بنائی تو اللہ کی چراگاہ یہ محرمات ہیں، جو جانور بھی اس چرا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4458]
اردو حاشہ:
(1) کسب معاش میں شبہات سے بچنا چاہیے، یعنی انسان کی کمائی بالکل صاف ستھری اور حلال طیب ہونی چاہیے نہ کہ مشکوک و مشتبہ۔
(2) حلال اور حرام، دونوں واضح ہیں لیکن اس شخص کے لیے جسے شرعی نصوص کا علم ہو۔ ہر کسی کو یہ فضیلت حاصل نہیں۔ یہ مرتبہ اور بصیرت راسخ فی العلم اہل علم کو حاصل ہو سکتا ہے۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ۔
(3) یہ حدیث بہت زیادہ قدر و منزلت والی ہے۔ اکثر محدثین کرام نے اسے ”کتاب البیوع“ میں بیان فرمایا ہے کیونکہ زیادہ تر شکوک و شبہات معاملات بیوع ہی میں ہوتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ اس حدیث کا تعلق نکاح و طلاق، مطعومات و مشروبات اور شکار وغیرہ کے ساتھ بھی ہے۔ جو شخص غور و فکر کرے گا، اسے یہ سب کچھ بخوبی معلوم ہو جائے گا۔
(4) حلال و حرام کے درمیان ایک ایسا درجہ ہے جس کی معرفت اور پہنچان ضروری ہے اور اس سے بچنا بھی۔ اور وہ ایسے شبہات اور ایسی مشکوک و مشتبہ اشیاء کا درجہ ہے جن کی حلت و حرمت دونوں غیر واضح ہیں، اس لیے ایک عقل مند شخص کے لیے اس درجے کی معرفت بہت ضروری ہے۔
(5) کسی مسئلے اور شرعی حکم کی وضاحت کے لیے مثال بیان کی جا سکتی ہے تاکہ وہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مثال بیان فرمائی۔
(6) جو شخص شبہات کا شکار ہوتا ہے، اس کا دین اور اس کی عزت داغ دار ہو جاتے ہیں۔
(7) احکام کی تین قسمیں ہیں: ایک قسم ایسے احکام کی ہے کہ قرآن و حدیث میں انہیں بجا لانے کا تقاضا ہے اور نہ کرنے پر وعید ہے۔ دوسری قسم ایسے احکام کی ہے کہ ان کے نہ کرنے کی نص ہو اور کرنے پر وعید ہو۔ اور تیسری قسم ایسے احکام کی ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کوئی نص نہ ہو۔ پہلی قسم کے احکام واضح طور پر حلال ہیں اور دوسری قسم کے احکام واضح طور پر حرام جبکہ تیسری قسم کے احکام واضح طور پر حلال ہیں نہ واضح طور پر حرام بلکہ وہ مشتبہ ہیں۔ جن احکام کی صورت حال اس طرح ہو ان سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ انسان حرام کا مرتکب نہ ہو۔
(8) ”ممنوعہ علاقہ“ عرب میں عام رواج تھا کہ بادشاہ اور سردار کچھ علاقہ اپنے جانوروں کے چرنے کے لیے مخصوص قرار دے دیتے تھے۔ عام لوگ وہاں جانور نہیں چرا سکتے تھے۔ بلکہ لوگ ڈرتے ہوئے اس علاقے کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے کہ کہیں غلطی ہی سے جانور اس علاقے میں داخل نہ ہو جائیں اور بادشاہ کے کارندوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہی مثال حرام، حلال اور مشتبہ چیزوں کے لیے بیان فرمائی۔ مخصوص علاقہ ”حرام ہے“ قریبی علاقہ ”مشتبہ“ ہے۔ اور دور کا علاقہ ”حلال“ ہے۔ محفوظ وہی شخص ہے جو صرف حلال علاقے میں رہے۔ مشتبہ علاقے میں جانے والے کے لیے خطرہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی حرام کے علاقے میں داخل ہو سکتا ہے۔ عموماً مشتبہ کام کرنے والا حرام سے نہیں بچ سکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4458
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3984
´شکوک و شبہات سے دور رہنے کا بیان۔`
شعبی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو منبر پر یہ کہتے سنا، اور انہوں نے اپنی دو انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”حلال واضح ہے، اور حرام بھی، ان کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جان پاتے (کہ حلال ہے یا حرام) جو ان مشتبہ چیزوں سے بچے، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا، اور جو شبہات میں پڑ گیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑ جائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3984]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا روز مرہ کے اعمال ان میں کچھ واضح طور پر حلال ہیں جن میں کوئی شک نہیں مثلاً:
روٹی، شہد، اللہ کا نام لے کر ذبح کیے ہوئے حلال جانور کا گوشت، جائز ضرورت کے لیے کہیں آنا جانا اور کسی سے بات چیت کرنا وغیرہ۔
کچھ چیزیں اور کا م واضح طور پر حرام ہیں مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، مردار، جھوٹ بولنا، چوری کرنا اور زنا کرنا وغیرہ۔
بعض چیزیں اور کام ایسے ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا واضح نہیں۔
عام لوگ ان مسائل سے واقف نہیں ہوتے۔
علماء ان کا حکم قرآن وحدیث کے الفاظ کے اشارات واقتضاء سے یا قیاس وغیرہ سے معلوم کرتے ہیں۔
(2)
جس چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو مسئلہ پوچھنے سے پہلے بھی اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے معاملے کی ایک صورت جائز اور ایک ناجائز ہو، مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد صحیح اور راجح موقف کے مطابق عمل کیا جائے۔
(3)
مشکوک چیز پر عمل کرنے سے گناہ کا اندیشہ تو ہوتا ہی ہے عوام بھی بد ظن ہوتے ہیں۔
انسان کو بلاوجہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے وہ بدنام ہوجائے۔
(4)
جس کام سے ممنوع کام تک نوبت پہنچنے کا خطرہ ہواس سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے جیسے غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں ملنا اگرچہ پردہ کی پابندی کے ساتھ ہو اس سے خطرہ ہے کہ شیطان گناہ کی خواہش پیدا کردے اور دونوں افراد کبیرہ گناہ میں ملوث ہوجائیں۔
(5)
مثال دے کر سمجھانے سے مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اور سننے والا اس پر اطمینان اور دل کی آمادگی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے۔
(6)
دل کی اصلاح بہت ضروری ہے تاکہ اخلاص یقین اور اللہ کی محبت وغیرہ جیسی صفات حاصل ہوں۔
ان کی وجہ سے نیکی پر عمل کرنا اور اور گناہ سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3984
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1205
´مشتبہ چیزوں کو ترک کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑ گیا یعنی انہیں اختیار کر لیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہو جائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1205]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مرادایسے امورومعاملات ہیں جن کی حلت وحرمت سے اکثرلوگ ناواقف ہو تے ہیں،
تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریزکرے،
اور جوشخص حلت وحرمت کی پرواہ کئے بغیران میں ملوث ہوگیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلاہوگیا،
اس میں تجارت اورکاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیارکریں جو واضح طورپر حلال ہوں اورمشتبہ امورومعاملات سے اجتناب کریں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1205
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:943
943- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے منبر پر یہ بات ارشاد فرمائی: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”حلال واضح ہے، حرام بھی واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں، تو جو شخص ایسی چیز کو ترک کردے جس کے گناہ ہونے کا شبہ ہو، تو وہ اس چیز کو بدرجہ اولیٰ ترک کرے گا، واضح طور پر گناہ ہے۔ اور جو شخص مشکوک معاملے کے بارے میں جرأت کا مظاہرہ کرے، تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ آگے چل کر حرام میں مبتلا ہوجائے۔ ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ چراگاہ وہ امور ہیں، جنہیں اس نے گناہ قرار دیا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:943]
فائدہ:
اس حدیث میں ذکر ہے کہ حلال اور حرام چیز میں بالکل واضح ہیں، ان میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں ہے، ہمیں حلال چیزوں کو لازم پکڑنا چاہیے، اور حرام سے دور رہنا چاہیے، اور مشتبہ چیزوں کو بالکل ترک کر دینا چا ہیے، اس میں سلامتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 942
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:944
944- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے منبر پر یہ بات بیان کی: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اہل ایمان کے باہمی تعلق ان کی ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے پر رحم کرنے کی مثال اس انسان کی طرح ہے، جس کے اعضاء میں سے کوئی ایک عضو بیمار ہوجائے، تو پورا جسم بخاراور تجگے کا شکار ہوجاتا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:944]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیے، کسی کو اس تکلیف میں دیکھیں تو اس کو حل کرنا چاہیے، اسلام اتفاق و اتحاد کا درس دیتا ہے۔ اس میں امت مسلمہ کی عزت و عظمت اور کامیابی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 943
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:945
945- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح و سالم رہے، تو سارا جسم صحیح و سالم رہتا ہے۔ اگر وہ بیمار ہوجائے، تو سارا جسم بیمار اور خراب ہوجاتا ہے۔ وہ دل ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:945]
فائدہ:
اس حدیث میں دل کی اصلاح کی اہمیت واضح کی گئی ہے، زہد و رقائق کا مطالعہ کرتا رہنا چاہیے، امام غزالی کی احیاء علوم الدین میں اور شیخ امین اللہ پشاور ی کی الفوائد میں دل کی اصلاح پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، ان کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے، اللہ نے توفیق دی تو راقم بھی دل پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہے، آج کل کے انسان نے اپنے ظاہر کے درست کرنے پر توجہ کر رکھی ہے، دل کو خوبصورت کوئی بھی نہیں کرتا، افسوس کے اوپر سے انسان نظر آتے ہیں اور اندر سے انسانیت نہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 944
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4094
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”حلال واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان کے درمیان کچھ شبہ والی چیزیں ہیں، جن کو بہت لوگ نہیں (یعنی ان کے حکم کو) جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) تو جو انسان مشتبہ یا شبہ والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے دپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا، اور جو شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا، وہ حرام میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4094]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَهوَي بِاِصبَعَيهِ إِلي أُذنيه:
اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا کہ میں نے پورے اہتمام اور توجہ سے سنا ہے،
اس لیے پورے وثوق اور اعتماد سے بیان کرتا ہوں۔
(2)
إِسْتَبْرَا لِدِيْنِهِ وِ عرضِهِ:
اس نے اپنے دین کو شرعی مذمت سے اور اپنی عزت کو لوگوں کی طعن و تشنیع سے محفوظ کر لیا،
اس کے دین اور عزت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا،
نہ ان پر کوئی حرف آئے گا۔
(3)
حمي:
چراگاہ،
جس میں کسی انسان کو اپنے مویشی چرانے کی اجازت نہیں ہوتی،
یعنی ممنوعہ علاقہ،
کہ اگر اس کے اندر کوئی گھس جائے تو حکومت کی طرف سے وہ سزا کا حقدار ٹھہرتا ہے،
اس لیے محتاط لوگ اس علاقہ کے قریب ہی نہیں جاتے،
اس طرح اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء ممنوعہ علاقہ ہیں،
جو ان کا ارتکاب کرے گا،
وہ سزا کا سزاوار ہو گا،
اور جو مشتبہ اشیاء سے احتراز نہیں کرے گا،
اور ان میں گرفتار ہونے سے اپنے آپ کو نہیں بچائے گا،
وہ چراگاہ کے آس پاس چرانے والے کی طرف،
محرمات کا بھی مرتکب ہو گا،
اس لیے جس طرح محتاط لوگ چراگاہ کے پاس اپنے جانور نہیں چراتے کہ کہیں وہ بھاگ کر چراگاہ میں نہ گھس جائیں،
محتاط اور پرہیزگار لوگ گناہوں میں گرفتار کرنے والی چیزوں سے دور رہتے ہیں اور انسان کی پرہیزگاری اور احتیاط کا دارومدار،
اس کے دل کی اصلاح و درستگی پر ہے،
کیونکہ تمام جسم پر اس کی حکمرانی ہے،
باقی تمام اعضاء و جوارح اس کے حکم کے پابند ہیں،
عزم و حوصلہ اور جراءت و ہمت کا محل اور مرکز بھی دل ہے،
اگر وہی عزم و حوصلہ اور جراءت و ہمت سے محرم ہو تو کوئی کام نہیں ہو سکتا،
اگر دل کے جذبات و احساسات درست ہوں گے،
تو اعضاء صحیح کام کریں گے،
لیکن اگر اس کے جذبات و احساسات ہی میں بگاڑ اور فساد پیدا ہو جائے،
تو اعضاء،
خود بخود غلط راستہ پر چلیں گے۔
فوائد ومسائل:
نظری و فکری اور عملی و اخلاقی اعتبار سے یہ حدیث،
دین میں بہت اہمیت اور عظمت کی حامل ہے،
جس پر انسان کی سیرت و کردار کی استواری کا انحصار ہے،
اس لیے بعض علماء نے اس کو دین کا ایک تہائی حصہ قرار دیا ہے،
اور باقی دو حصے،
(إِنَّمَا الأَعْمَالً بِالنِّيَّات)
”عملوں کا مدار نیتوں پر ہے۔
“ (مِنْ حُسنِ الإِسلَام المَرءِ تَركه مَالَا يَعْنِيه)
”انسان کے اسلام کی خوبی اور حسن غیر متعلقہ یا غیر مطلوب اشیاء سے پرہیز کرنا ہے۔
“ اور اس اہمیت و عظمت کا سبب یہ ہے کہ اس میں ایک مسلمان کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ تمام معاملات میں جائز اور حلال اشیاء کو قبول اور اختیار کرے،
جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ ان تمام معاملات سے بچے،
جن کی حلت و حرمت کے بارے میں شک و شبہ ہو۔
یا ان کی حلت و حرمت واضح نہ ہو،
اور اس لیے دل کی اصلاح و درستگی ضروری ہے،
اگر اس میں خشیت الٰہی اور فکر آخرت موجود ہے،
تو ہر کام آسان ہے،
اگر دل اللہ کے خوف اور آخرت کی جواب دہی سے خالی ہے،
تو جسم کے اعمال و احوال بھی صحیح نہیں ہوں گے۔
(2)
الحَلَالُ بَيِّنٌ،
وَالحَرَامُ بَيِّنٌ،
یعنی حلال کا حکم بھی واضح ہے،
اور حرام کا حکم بھی واضح ہے،
جو حلال ہے اس کو کرو اور جو حرام ہے اس کو چھوڑ دو،
جن کی حلت و حرمت کی صراحت موجود ہے،
ان کا معاملہ بالکل صاف ہے،
عمل میں کوئی شک و تردد نہیں ہے،
جیسا کہ سنن ابی داؤد کی روایت ہے،
ما احل فهو حلال،
جس کو شریعت نے حلال کر دیا،
حلال اور ما حرم فهو حرام،
جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا وہ حرام ہیں،
لیکن حلال بین اور حرام بین کے درمیان دو چیزیں ہیں۔
(1)
جن کی حلت و حرمت میں اشتباہ ہے،
کیونکہ دلائل میں تعارض ہے،
یا دلائل کے فہم میں یا ان کے درمیان ترجیح و تطبیق دینے میں علماء کا اختلاف ہے،
اس لیے ان کی حلت و حرمت کا قابل اطمینان فیصلہ نہیں ہو سکتا،
عوام شک و شبہ میں پڑ جاتے ہیں،
یا ایک چیز ایک اعتبار و حیثیت سے قابل قبول ہے،
اور دوسری حیثیت و جہت سے قابل ترک ہے،
یا ایک چیز ہمارے نظریہ کے مطابق درست ہے،
لیکن بعد میں کوئی ایسی چیز سامنے آ گئی جس سے حرمت ثابت ہوئی ہے جیسا کہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی بیوی کا واقعہ ہے کہ نکاح کے بعد ایک عورت نے بتایا،
میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے،
یا عبد بن زمعہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا ایک بچے کے بارے میں جھگڑا ہے،
کہ آپ نے اس کا زمعہ سے نسب بھی ثابت کیا،
لیکن حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کا حکم بھی دیا،
اس طرح بعض دفعہ ایک کام بالکل جائز ہے،
لیکن دوسروں کے لیے شبہ کا باعث بنتا ہے،
اور فظنہ تہمت ہونے کی بنا پر،
اس سے بچنے کی ضرورت ہے،
جیسا کہ آپ نے پاس سے گزرنے والوں کو فرمایا تھا،
هذه صفية،
یہ میری بیوی صفیہ ہے،
اس طرح اس قسم کے معاملات میں جب تک قابل اطمینان بات سامنے نہ آئے،
ان امور سے پرہیز کرنا چاہیے اور اگر قابل اطمینان بات سامنے آ جائے،
تو پھر اس پر عمل کرنا چاہیے،
اس لیے آپ نے فرمایا،
مشتبہ امور کو بہت لوگ نہیں جانتے،
یہ نہیں فرمایا،
کوئی بھی نہیں جانتا۔
(2)
وہ چیزیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے،
جن کو سنن ابی داود کی روایت میں ما سبكت عنه فهو معفو،
جن سے شریعت خاموش ہے،
قابل مواخذہ نہیں ہیں،
اس لیے ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاں کسی دلیل یا قرینہ کی بنا پر،
کسی چیز کی حرمت کا شبہ پیدا ہوتا ہو،
اس سے بچنا چاہیے،
لیکن بغیر کسی بنیاد کے محض وسوسہ کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے،
جس کو کہتے ہیں،
اليقين لا يزول بالشك،
یقینی چیز کو محض شبہ اور شک کی بنیاد پر ترک نہیں کیا جا سکتا کہ ایک آدمی وضو کر کے کھڑا ہوا ہے،
پھر ہوا نکلنے کی آواز نہیں سنتا اور نہ ہی بدبو محسوس کرتا ہے،
محض وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو اس پر نماز نہیں توڑی جائے گی،
کیونکہ بے وضوء ہونے کا کوئی قرینہ یا دلیل نہیں ہے،
یا ایک مسلمان کے گھر سے گوشت آتا ہے،
تو انسان اس شبہ میں پڑ جائے کہ شاید انہوں نے بسم اللہ نہ پڑھی ہو،
ہاں،
اگر دلیل یا قرینہ موجود ہو،
تو پھر یہ وسوسہ نہیں ہو گا کہ اس کو نظر انداز کر دیا جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4094
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:52
52. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، چنانچہ جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا اور جو کوئی ان مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہو گیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو شاہی چراگاہ کے آس پاس (اپنے جانوروں کو) چرائے، قریب ہے کہ چراگاہ کے اندر اس کا جانور گھس جائے۔ آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سن لو! بدن میں ایک ٹکڑا (گوشت کا) ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو! وہ ٹکڑا دل ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:52]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس سے پہلے ابواب میں معاصی پر اصرار اورحبط اعمال سے ڈرایا گیا ہے۔
اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے طریقے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جس کے اختیار کرنے سے انسان حبط اعمال سے محفوظ رہ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے تقویٰ اختیار کرنا اورمشتبہات سے اجتناب کرنا۔
اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ اور ورع بھی ایمان کا حصہ ہیں۔
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حلت وحرمت کا فیصلہ دشوارہوتاہے۔
یہ مشتبہات میں داخل ہیں۔
ان سے اجتناب کرنے میں دین اورآبرو کی حفاظت ہے۔
اہل تقویٰ مشتبہات کو محرمات کا زینہ خیال کرتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مشتبہ چیزوں سے مراد وہ پچیدہ معاملات ہیں کہ ان پر یقینی طور پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
اگرچہ اہل علم کسی حد تک ان سے باخبر ہوتے ہیں، تاہم یہ شکوک وشبہات سے خالی نہیں ہوتے۔
2۔
علماء کااتفاق ہے کہ اسلام کا دارومدار تین احادیث پر ہے:
ایک مذکورہ حدیث، دوسری نیت سے متعلقہ اور تیسری وہ جس میں ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کاموں اورفضول باتوں سے پرہیز کرے۔
امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے ایک چوتھی حدیث کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
کیونکہ مذکورہ حدیث میں خورونوش، لباس ونکاح کے حلال ہونے کی وضاحت ہے پھر اسے مشتبہات سے الگ رہنے کے متعلق کہا گیا ہے کیونکہ اس سے اس کا دین اور آبرو محفوظ رہتی ہے، پھر اسے ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے۔
(شرح الکرماني: 203/1)
عرب کے ہاں یہ دستورتھا کہ وہ بڑے بڑے زرخیز خطے اپنے جانوروں کے لیے مخصوص کرلیتے تھے۔
انھی خطوں کو حمیٰ کہا جاتا تھا۔
سرکاری حمیٰ محرمات ہیں اور ان کا ماحول (اردگرد)
مشتبہات ہیں جو بہت پرفریب ہوتی ہیں۔
حدیث میں اس کو بطور مثال بیان کیا گیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جب انسان نے اپنےنفس کومشتبہات کے لیے آزاد چھوڑدیا تو وہ یقیناً محرمات میں جا سکتا ہے۔
ان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں اتنی گنجائش رکھ دی ہے کہ محرمات کی طرف آنے کی ضرورت نہیں۔
اب اتنی چیزوں کی حلت کے باوجود کوئی ان کی طرف جاتا ہے تو خباثتِ نفس کی انتہا ہے۔
3۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باطنی صلاح وفساد کا دارومدار انسان کے دل پر ہے۔
جس شخص کے دل میں بگاڑ ہوگا اس کے دیگر اعضاء سے صادر ہونے والے اعمال بھی اس کے آئینہ دار ہوں گے۔
اس کے ساتھ ایمان کا تعلق ہے اور یہی محل نیت ہے۔
حلال وحرام اورمشتبہات میں فیصلے کے لیے بھی دل ہی رہنمائی کرتا ہے، لہٰذا اسے درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگردل درست ہے تو اس پیچیدہ معاملات میں فتویٰ لینے کی تلقین کی گئی ہے۔
طبی لحاظ سے بھی اعضاء کی صحت وسقم کا مداردل پر ہے۔
اگراس میں بگاڑ آجائے تو پورا نظام جسم بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔
4۔
صلاح قلب کی صورت یہ ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل چیزیں پیدا ہوجائیں:
اللہ کی محبت، رضا بالقضاء، توکل علی اللہ، صبروشکر، رجا وخوف، فکرآخرت، توبہ وانابت اور قناعت و تواضع۔
فساد قلب کی صورت یہ ہے کہ اس میں درج ذیل اشیاء آجائیں، تکبر وغرور، خود پسندی، حسد وحقد، حب مال وجاہ، بخل وحرص، طول امل(لمبی امیدیں)
اور لا یعنی گفتگو۔
5۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ورع وپرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے اعمال میں سے ہے اور اس میں مراتب ہیں، لہٰذا ایمان ودین میں بھی مراتب ہیں، ایمان کے لیے ان کا بجا لانا اس کے ثمر آور ہونے کا باعث ہے اور ان کا ترک کردینا ایمان کو کمزور کردینے کے مترادف ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 52
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2051
2051. حضرت نعمان بن بشیر ؓسے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ جس شخص نے اس چیز کو ترک کردیا جس میں گناہ کا شبہ ہوتو وہ اس چیز کو بدرجہ اولی چھوڑ دے گا جس کا گناہ ہونا ظاہر ہو اور جس نے شبہ کی چیز پر جرات کی تو وہ جلد ہی ایسی بات میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کاگناہ ہونا ظاہر ہے۔ گناہ (گویا) اللہ کی چراگاہ ہیں، جوانسان اپنے جانور چراگاہ کے اردگرد چرائے گا جلد ہی اس کا چراگاہ میں پہنچنا ممکن ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2051]
حدیث حاشیہ:
(1)
مشتبہ چیزوں سے مراد وہ ہیں جن کی حدیں حلال اور حرام دونوں سے ملتی ہوں۔
اس بنا پر کچھ لوگ ان کی حلت وحرمت کا فیصلہ نہ کرسکیں۔
فی نفسہ وہ چیزیں مشتبہ نہیں ہوتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بھیج کر دین کی ضروریات سے ہمیں آگاہ کردیا ہے۔
پرہیز گاری یہی ہے کہ انسان شکوک وشبہات والی چیزوں سے بھی الگ تھلگ رہے۔
اس حدیث کو اکثر محدثین کتاب البیوع میں بیان کرتے ہیں کیونکہ معاملات میں اکثر اشتباہ پڑجاتا ہے،نیز اس کا تعلق نکاح، شکار، ذبیحہ، کھانے اور پینے سے بھی ہے۔
(2)
اس حدیث میں احکام کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں:
٭ جس کے کرنے پر نص اور ترک پر وعید ہو۔
اس کا تعلق حلال بین سے ہے۔
٭جس کے ترک کرنے پر نص اور کرنے پر وعید ہو۔
یہ حرام بین سے متعلق ہے۔
٭جس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی نص یا وعید نہ ہو۔
اس قسم کو مشتبہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اس کا حلال یا حرام ہونا معلوم نہیں ہوتا۔
ایک مسلمان کو اس قسم کی چیزوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس کا تعلق حرام سے ہے تو اس کے ارتکاب سے محفوظ رہے گا اور اگر حلال سے ہے تو بھی حسن نیت کی بنا پر اس کے چھوڑنے سے اجرو ثواب ملے گا۔
(فتح الباری: 369/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2051