(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا إسماعيل، قال: حدثنا العلاء، عن معبد بن كعب، عن اخيه عبد الله بن كعب، عن ابي امامة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" من اقتطع حق امرئ مسلم بيمينه فقد اوجب الله له النار، وحرم عليه الجنة"، فقال له رجل: وإن كان شيئا يسيرا يا رسول الله؟ قال:" وإن كان قضيبا من اراك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَخِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ فَقَدْ أَوْجَبَ اللَّهُ لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ"، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" وَإِنْ كَانَ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی کسی مسلمان آدمی کا حق قسم کھا کر مار لے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا اور جنت اس پر حرام کر دے گا“، ایک شخص نے آپ سے کہا: اگرچہ وہ معمولی سی چیز ہو؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”گرچہ وہ پیلو کی ایک ڈال ہو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 61 (137)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 8 (2324)، موطا امام مالک/الأقضیة 8 (11)، (تحفة الأشراف: 1744)، مسند احمد (5/260) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جب جھوٹی قسم کھا کر پیلو کی ایک ڈال ہڑپ کر لینے پر اتنی سخت وعید ہے تو اتنی سی معمولی چیز کے بارے میں عدالتی فیصلہ بھی ہو سکتا ہے، یہی باب سے مناسبت ہے۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا وكيع، قال: حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: جاءت هند إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله , إن ابا سفيان رجل شحيح , ولا ينفق علي وولدي ما يكفيني، افآخذ من ماله ولا يشعر، قال:" خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ , وَلَا يُنْفِقُ عَلَيَّ وَوَلَدِي مَا يَكْفِينِي، أَفَآخُذُ مِنْ مَالِهِ وَلَا يَشْعُرُ، قَالَ:" خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدِكِ بِالْمَعْرُوفِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل شخص ہیں، وہ مجھ پر اور میرے بچوں پر اس قدر نہیں خرچ کرتے ہیں جو کافی ہو، تو کیا میں ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں اور انہیں پتا بھی نہ چلے؟ آپ نے فرمایا: ”بھلائی کے ساتھ اس قدر لے لو کہ تمہارے لیے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس غائب اور غیر موجود کو پہچانتا ہو، اور مدعی کی صداقت اور مدعی علیہ کے حالات سے گہری واقفیت رکھتا ہو جیسا کہ ہند اور ابوسفیان رضی اللہ عنہما کے معاملہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے، ہر مدعی علیہ کے بارے میں اس طرح فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ عام حالات میں مدعی کی گواہی یا قسم اور مدعا علیہ کے بیان سننے کی ضرورت ہے۔
عبدالرحمٰن بن ابوبکرہ (سجستان کے گورنر تھے) کہتے ہیں کہ مجھے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے لکھ بھیجا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کوئی ایک قضیہ میں دو فیصلے نہ کرے ۱؎، اور نہ کوئی دو فریقوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ کرے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5408 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ قضاء کا مقدمہ جھگڑے کو ختم کرنا ہے، اور ایک ہی معاملہ میں دو طرح کے فیصلے سے جھگڑا ختم نہیں ہوتا۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا وكيع، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنكم تختصمون إلي وإنما انا بشر، ولعل بعضكم الحن بحجته من بعض، فإنما اقضي بينكما على نحو ما اسمع، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا فإنما اقطع له قطعة من النار". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَإِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، حالانکہ میں ایک انسان ہوں، اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے دلیل دینے میں چرب زبان ہو۔ میں تو صرف اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں جو میں سنتا ہوں، اب اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو گویا میں اس کو جہنم کا ٹکڑا دلا رہا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5403 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تو کیا وہ پانے والے کے لیے ہر حال میں حلال ہو گا؟ نہیں، خود جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر ملنے سے حلال نہیں ہو سکتا، (اگر حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو دوسرے کسی قاضی کے فیصلے سے کیسے جائز ہو سکتا ہے، اس لیے اس طرح کے معاملے میں سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے تو یہ فیصلہ ٹھیک ہے، لیکن اس طرح کے فیصلے حرام کو حلال، اور حلال کو حرام نہیں کر سکتے، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے فیصلے پر یہ عرض کیا کہ حقیقت میں غلط فیصلہ پر عمل آدمی کو جہنم پہنچا سکتا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ بغض و نفرت لڑاکے اور جھگڑالو شخص سے ہے“۱؎۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو لوگ ایک جانور کے بارے میں جھگڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، ان میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ نہ تھا، تو آپ نے اس کے آدھا کیے جانے کا فیصلہ کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الٔرقضیة 22 (3613)، سنن ابن ماجہ/الٔوحکام 11 (2330)، (تحفة الأشراف: 9088)، مسند احمد (4/403) (ضعیف) (اس روایت کی سند اور متن دونوں میں سخت اختلاف ہے، اس کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے، دیکھیے الإرواء رقم 2656)»
(مرفوع) اخبرنا علي بن سعيد بن مسروق، قال: حدثنا يحيى بن ابي زائدة، عن نافع بن عمر، عن ابن ابي مليكة، قال: كانت جاريتان تخرزان بالطائف , فخرجت إحداهما ويدها تدمى، فزعمت ان صاحبتها اصابتها وانكرت الاخرى، فكتبت إلى ابن عباس في ذلك فكتب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى:" ان اليمين على المدعى عليه , ولو ان الناس اعطوا بدعواهم لادعى ناس اموال ناس، ودماءهم" , فادعها واتل عليها هذه الآية إن الذين يشترون بعهد الله وايمانهم ثمنا قليلا اولئك لا خلاق لهم في الآخرة سورة آل عمران آية 77 حتى ختم الآية , فدعوتها فتلوت عليها فاعترفت بذلك فسره. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: كَانَتْ جَارِيَتَانِ تَخْرُزَانِ بِالطَّائِفِ , فَخَرَجَتْ إِحْدَاهُمَا وَيَدُهَا تَدْمَى، فَزَعَمَتْ أَنَّ صَاحِبَتَهَا أَصَابَتْهَا وَأَنْكَرَتِ الْأُخْرَى، فَكَتَبْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فِي ذَلِكَ فَكَتَبَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى:" أَنَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ , وَلَوْ أَنَّ النَّاسَ أُعْطُوا بِدَعْوَاهُمْ لَادَّعَى نَاسٌ أَمْوَالَ نَاسٍ، وَدِمَاءَهُمْ" , فَادْعُهَا وَاتْلُ عَلَيْهَا هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا أُولَئِكَ لا خَلاقَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ سورة آل عمران آية 77 حَتَّى خَتَمَ الْآيَةَ , فَدَعَوْتُهَا فَتَلَوْتُ عَلَيْهَا فَاعْتَرَفَتْ بِذَلِكَ فَسَرَّهُ.
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ دو لڑکیاں طائف میں موزے (خف) بنایا کرتی تھیں، ان میں سے ایک باہر نکلی، تو اس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا، اس نے بتایا کہ اس کی سہیلی نے اسے زخمی کیا ہے، لیکن دوسری نے انکار کیا، تو میں نے اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا تو انہوں نے جواب لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ قسم تو مدعا علیہ سے لی جائے گی، اگر لوگوں کو ان کے دعوے کے مطابق (فیصلہ) مل جایا کرے تو بعض لوگ دوسرے لوگوں کے مال اور ان کی جان کا بھی دعویٰ کر بیٹھیں، اس لیے اس عورت کو بلا کر اس کے سامنے یہ آیت پڑھو: «إن الذين يشترون بعهد اللہ وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة»”جو لوگ اللہ کے عہد اور قسموں کو معمولی قیمت سے بیچ دیتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں“(آل عمران: ۷۷) یہاں تک کہ آیت ختم کی، چنانچہ میں نے اسے بلایا اور یہ آیت اس کے سامنے تلاوت کی تو اس نے اس کا اعتراف کیا، جب انہیں (ابن عباس کو) یہ بات معلوم ہوئی تو خوش ہوئے۔
(مرفوع) اخبرنا سوار بن عبد الله، قال: حدثنا مرحوم بن عبد العزيز، عن ابي نعامة، عن ابي عثمان النهدي، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال معاوية رضي الله عنه: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج على حلقة يعني من اصحابه، فقال:" ما اجلسكم؟" , قالوا: جلسنا ندعو الله , ونحمده على ما هدانا لدينه ومن علينا بك، قال:" آلله ما اجلسكم إلا ذلك؟"، قالوا: آلله ما اجلسنا إلا ذلك، قال:" اما إني لم استحلفكم تهمة لكم، وإنما اتاني جبريل عليه السلام , فاخبرني ان الله عز وجل يباهي بكم الملائكة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سَوُّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي نَعَامَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى حَلْقَةٍ يَعْنِي مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ:" مَا أَجْلَسَكُمْ؟" , قَالُوا: جَلَسْنَا نَدْعُو اللَّهَ , وَنَحْمَدُهُ عَلَى مَا هَدَانَا لِدِينِهِ وَمَنَّ عَلَيْنَا بِكَ، قَالَ:" آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ؟"، قَالُوا: آللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَلِكَ، قَالَ:" أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهَمَةً لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبَاهِي بِكُمُ الْمَلَائِكَةَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے حلقے کی طرف نکل کر آئے اور فرمایا: ”کیوں بیٹھے ہو؟“ وہ بولے: ہم بیٹھے ہیں، اللہ سے دعا کر رہے ہیں، اس کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی ہدایت بخشی اور آپ کے ذریعے ہم پر احسان فرمایا، آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ۲؎ تم اسی لیے بیٹھے ہو؟“ وہ بولے: اللہ کی قسم! ہم اسی لیے بیٹھے ہیں، آپ نے فرمایا: ”سنو، میں نے تم سے قسم اس لیے نہیں لی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا، بلکہ میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں پر تمہاری وجہ سے فخر کرتا ہے“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب کسی معاملہ میں قاضی کو قسم لینے کی ضرورت ہو تو کن الفاظ کے ساتھ قسم لے۔ ۲؎: اسی لفظ میں باب سے مناسبت ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لفظ «واللہ» سے قسم کھایا یا لیا کرتے تھے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا، تو اس سے پوچھا: کیا تم نے چوری کی؟ وہ بولا: نہیں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۱؎، عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں نے یقین کیا اللہ پر اور جھوٹا سمجھا اپنی آنکھ کو۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الٔلنبیاء 48 (3444 تعلیقًا)، (تحفة الٔاشراف: 14223)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفضائل40 (2368)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 4 (2102)، مسند احمد (2/314، 383) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں یہی قسم کے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے ساتھ بھی کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھایا یا لیا کرتے تھے، دونوں حدیثوں میں مذکور دونوں الفاظ کے علاوہ بھی کچھ الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھایا یا کرتے تھے جیسے «لا ومصرف القلوب»، «لا ومقلب القلوب» وغیرہ۔