سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
17. بَابُ: حَدِّ الْبُلُوغِ وَذِكْرِ السِّنِّ الَّذِي إِذَا بَلَغَهَا الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ أُقِيمَ عَلَيْهِمَا الْحَدُّ
17. باب: بلوغت کی حد اور عمر کے اس مرحلے کا ذکر جس میں مرد اور عورت پر حد قائم کی جائے۔
Chapter: Definition of Puberty and the age at which the Hadd punishment May be carried out on a man or a woman
حدیث نمبر: 4984
Save to word اعراب
(موقوف) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن عبد الملك بن عمير، عن عطية انه اخبره، قال:" كنت في سبي قريظة , وكان ينظر فمن خرج شعرته قتل، ومن لم تخرج استحيي ولم يقتل".
(موقوف) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَطِيَّةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، قَالَ:" كُنْتُ فِي سَبْيِ قُرَيْظَةَ , وَكَانَ يُنْظَرُ فَمَنْ خَرَجَ شِعْرَتُهُ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ تَخْرُجْ اسْتُحْيِيَ وَلَمْ يُقْتَلْ".
عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بنو قریظہ کے قیدیوں میں تھا، وہ لوگ دیکھتے جس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوتے، اسے قتل کر دیا جاتا، اور جس کے بال نہ اگے ہوتے، اسے چھوڑ دیا جاتا اور قتل نہ کیا جاتا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3460 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
18. بَابُ: تَعْلِيقِ يَدِ السَّارِقِ فِي عُنُقِهِ
18. باب: ہاتھ کاٹ کر چور کی گردن میں لٹکا دینے کا بیان۔
Chapter: Hanging the thief's hand from his neck
حدیث نمبر: 4985
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله , عن ابي بكر بن علي، عن الحجاج، عن مكحول، عن ابن محيريز، قال: سالت فضالة بن عبيد، عن تعليق يد السارق في عنقه، قال: سنة ," قطع رسول الله صلى الله عليه وسلم يد سارق وعلق يده في عنقه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، قَالَ: سَأَلْتُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، عَنْ تَعْلِيقِ يَدِ السَّارِقِ فِي عُنُقِهِ، قَالَ: سُنَّةٌ ," قَطَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ سَارِقٍ وَعَلَّقَ يَدَهُ فِي عُنُقِهِ".
ابن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کی گردن میں لٹکانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا اور اسے اس کی گردن میں لٹکا دیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 21 (4411)، سنن الترمذی/الحدود 17 (1447)، سنن ابن ماجہ/الحدود23(2587)، (تحفة الأشراف: 11029) مسند احمد (6/19) (ضعیف) (اس کے راوی ’’حجاج بن ارطاة‘‘ ضعیف اور ’’عبدالرحمن بن محیریز‘‘ مجہول ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (4411) ترمذي (1447) ابن ماجه (2587) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 359
حدیث نمبر: 4986
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثني عمر بن علي المقدمي، قال: حدثنا الحجاج، عن مكحول، عن عبد الرحمن بن محيريز، قال: قلت لفضالة بن عبيد: ارايت تعليق اليد في عنق السارق من السنة هو؟ قال: نعم ," اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بسارق فقطع يده , وعلقه في عنقه"، قال ابو عبد الرحمن: الحجاج بن ارطاة ضعيف ولا يحتج بحديثه.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ، قَالَ: قُلْتُ لِفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ: أَرَأَيْتَ تَعْلِيقَ الْيَدِ فِي عُنُقِ السَّارِقِ مِنَ السُّنَّةِ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ ," أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَارِقٍ فَقَطَعَ يَدَهُ , وَعَلَّقَهُ فِي عُنُقِهِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ضَعِيفٌ وَلَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ.
عبدالرحمٰن بن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کی گردن میں لٹکانا سنت ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا، تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹا اور اس کی گردن میں لٹکا دیا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: حجاج بن ارطاۃ ضعیف ہیں، ان کی حدیث لائق حجت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (4411) وانظر الحدي السابق (4985) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 359
حدیث نمبر: 4987
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرني عمرو بن منصور، قال: حدثنا حسان بن عبد الله، قال: حدثنا المفضل بن فضالة، عن يونس بن يزيد، قال: سمعت سعد بن إبراهيم يحدث , عن المسور بن إبراهيم، عن عبد الرحمن بن عوف، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يغرم صاحب سرقة إذا اقيم عليه الحد"، قال ابو عبد الرحمن: وهذا مرسل وليس بثابت.
(مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يُحَدِّثُ , عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يُغَرَّمُ صَاحِبُ سَرِقَةٍ إِذَا أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَهَذَا مُرْسَلٌ وَلَيْسَ بِثَابِتٍ.
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حد قائم ہو جائے تو چوری کرنے والے پر تاوان لازم نہ ہو گا ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ مرسل (یعنی منقطع) ہے اور صحیح نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9725) (ضعیف) (اس کی سند میں مسور اور عبدالرحمن بن عوف کے درمیان انقطاع ہے۔)»

وضاحت:
۱؎: امام ابوحنیفہ کا قول اسی حدیث کے مطابق ہے، لیکن یہ حدیث منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، جمہور کے نزدیک حد قائم ہونے کے باوجود مسروقہ مال کا تاوان لیا جائے گا کیونکہ ایک مسلم کا مال دوسرے مسلم پر بغیر جائز اسباب کے حرام ہے (جائز اسباب یعنی: خرید، ہدیہ و ہبہ، وراثت، مشاہرہ وغیرہ) اس لیے چور سے لے کر چوری کا مال صاحب مال کو واپس کرنا ضروری ہے، اگر موجود ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ تاوان لیا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، السند منقطع كما قال البيهقي رحمه اﷲ (السنن الكبريٰ: 8/ 277) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 359
حدیث نمبر: 4988
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن احمد بن شعيب من لفظه، قال: انبانا عمرو بن علي، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل: اي الاعمال افضل؟ قال:" الإيمان بالله ورسوله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبٍ مِنْ لَفْظِهِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے بہتر عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 18 (26)، الحج4(1519)، صحیح مسلم/الإیمان 36 (83)، (تحفة الأشراف: 13101)، مسند احمد (2/264، 287، 348، 388، 531)، سنن الدارمی/الجہاد 4 (2438) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ایمان کے لغوی معنیٰ تصدیق کے ہیں اور شرع کی اصطلاح میں ایمان یہ ہے: زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنا، نیز ایمان کا طاعت و فرمانبرداری سے بڑھنا اور عصیان و نافرمانی سے گھٹنا سلف کا عقیدہ ہے۔ اور ایمان سب سے بہتر عمل اس لیے ہے کہ تمام اچھے اور نیک اعمال و افعال کا دارومدار ایمان ہی پر ہے، اگر ایمان نہیں ہے تو کوئی بھی نیک عمل مقبول نہیں ہو گا، بہت سی احادیث میں مختلف اعمال کو «أفضل عمل» سب سے اچھا کام) بتایا گیا ہے، تو (ایمان کے بعد) پوچھنے والے یا پوچھے جانے کے وقت کے خاص حالات اور پس منظر کے لحاظ سے جواب دیا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    8    9    10    11    12    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.