ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے کچھ مدت تک کے لیے ادھار اناج خریدا اور اس کے پاس اپنی زرہ رہن رکھی۔
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود , قال: حدثنا خالد , قال: حدثنا هشام , قال: حدثنا قتادة , عن انس بن مالك: انه مشى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بخبز شعير وإهالة سنخة , قال:" ولقد رهن درعا له عند يهودي بالمدينة , واخذ منه شعيرا لاهله". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّهُ مَشَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ , قَالَ:" وَلَقَدْ رَهَنَ دِرْعًا لَهُ عِنْدَ يَهُودِيٍّ بِالْمَدِينَةِ , وَأَخَذَ مِنْهُ شَعِيرًا لِأَهْلِهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کی ایک روٹی اور بودار چربی لے گئے، اور آپ نے اپنی زرہ مدینے کے ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دی تھی اور اپنے گھر والوں کے لیے اس سے جَو لیے تھے۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ۱؎، اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ۲؎، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہ“۳؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 7 (3504)، سنن الترمذی/البیوع 19 (1234)، سنن ابن ماجہ/التجارات 20 (2188)، (تحفة الأشراف: 8664)، مسند احمد (2/178)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4634، 4635 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار کے ہاتھ آٹھ سو کا سامان ایک ہزار روپے کے بدلے اس شرط پر بیچے کہ بیچنے والا خریدار کو ایک ہزار روپے بطور قرض دے گا (دیکھئیے باب رقم ۷۰) گویا بیع کی اگر یہ شکل نہ ہوتی تو بیچنے والا خریدار کو قرض نہ دیتا اور اگر قرض کا وجود نہ ہوتا تو خریدار یہ سامان نہ خریدتا۔ ۲؎: مثلاً کوئی کہے کہ یہ غلام میں نے تجھ سے ایک ہزار نقد اور دو ہزار ادھار میں بیچا (دیکھئیے باب رقم ۷۲) یہ ایسی بیع ہے جو دو شرطں ہیں یا مثلاً کوئی یوں کہے کہ میں نے تم سے اپنا یہ کپڑا اتنے اتنے میں اس شرط پر بیچا کہ اس کا دھلوانا اور سلوانا میرے ذمہ ہے۔ ۳؎: بیچنے والے کے پاس جو چیز موجود نہیں ہے اسے بیچنے سے اس لیے روک دیا گیا ہے کہ اس میں دھوکہ دھڑی کا خطرہ ہے جیسے کوئی شخص اپنے بھاگے ہوئے غلام یا اونٹ بیچے جب کہ ان دونوں کے واپسی کی ضمانت بیچنے والا نہیں دے سکتا البتہ ایسی چیز کی بیع جو اپنی صفت کے اعتبار سے خریدار کے لیے بالکل واضح ہو جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع سلم کی اجازت دی ہے باوجود یہ کہ بیچی جانے والی چیز بیچنے والے کے پاس بروقت موجود نہیں ہوتی۔ (کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے)۔
(مرفوع) حدثنا زياد بن ايوب , قال: حدثنا هشيم , قال: حدثنا ابو بشر , عن يوسف بن ماهك , عن حكيم بن حزام , قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم , فقلت: يا رسول الله , ياتيني الرجل فيسالني البيع ليس عندي ابيعه منه , ثم ابتاعه له من السوق , قال:" لا تبع ما ليس عندك". (مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ , قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ , عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ , عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ , قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيَسْأَلُنِي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي أَبِيعُهُ مِنْهُ , ثُمَّ أَبْتَاعُهُ لَهُ مِنَ السُّوقِ , قَالَ:" لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ".
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس آدمی آتا ہے اور وہ مجھ سے ایسی چیز خریدنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس سے اس چیز کو بیچ دوں اور پھر وہ چیز اسے بازار سے خرید کر دے دوں؟ آپ نے فرمایا: ”جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اسے مت بیچو“۔
عبداللہ بن ابی مجالد کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے بیع سلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں گی ہوں، جَو اور کھجور میں ایسے لوگوں سے بیع سلم کرتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم، آیا ان کے یہاں یہ چیزیں ہوتی بھی تھیں یا نہیں۔ اور ابن ابزیٰ نے (سوال کرنے پر) اسی طرح کہا۔
وضاحت: ۱؎: «سلف» یا «سلم» یہ ہے کہ خریدار بیچنے والے کو سامان کی قیمت پیشگی دے دے اور سامان کی ادائیگی کے لیے ایک میعاد مقرر کر لے، ساتھ ہی سامان کا وزن وصف اور نوعیت وغیرہ متعین ہو۔ (اگلی حدیث دیکھیں)
(مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان , قال: حدثنا ابو داود , قال: انبانا شعبة , قال: حدثنا ابن ابي المجالد , وقال مرة: عبد الله , وقال مرة: محمد , قال: تمارى ابو بردة , وعبد الله بن شداد في السلم , فارسلوني إلى ابن ابي اوفى فسالته , فقال:" كنا نسلم على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , وعلى عهد ابي بكر , وعلى عهد عمر في البر , والشعير , والزبيب , والتمر إلى قوم ما نرى عندهم" , وسالت ابن ابزى , فقال: مثل ذلك. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الْمُجَالِدِ , وَقَالَ مَرَّةً: عَبْدُ اللَّهِ , وَقَالَ مَرَّةً: مُحَمَّدٌ , قَالَ: تَمَارَى أَبُو بُرْدَةَ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ فِي السَّلَمِ , فَأَرْسَلُونِي إِلَى ابْنِ أَبِي أَوْفَى فَسَأَلْتُهُ , فَقَالَ:" كُنَّا نُسْلِمُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَعَلَى عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ , وَعَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي الْبُرِّ , وَالشَّعِيرِ , وَالزَّبِيبِ , وَالتَّمْرِ إِلَى قَوْمٍ مَا نُرَى عِنْدَهُمْ" , وَسَأَلْتُ ابْنَ أَبْزَى , فَقَالَ: مِثْلَ ذَلِكَ.
ابن ابی مجالد بیان کرتے ہیں کہ ابوبردہ اور عبداللہ بن شداد میں سلم کے سلسلے میں بحث ہو گئی تو انہوں نے مجھے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں گیہوں، جَو، کشمش اور کھجور میں بیع سلم کیا کرتے تھے، ایسے لوگوں سے جن کے پاس ہم یہ چیزیں نہیں پاتے اور (ابن ابی المجالد کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابزیٰ سے پوچھا تو انہوں نے اسی طرح کہا۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد , قال: حدثنا سفيان , عن ابن ابي نجيح , عن عبد الله بن كثير , عن ابي المنهال , قال: سمعت ابن عباس , قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، وهم يسلفون في التمر السنتين والثلاث , فنهاهم وقال:" من اسلف سلفا فليسلف في كيل معلوم , ووزن معلوم إلى اجل معلوم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ , عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ , قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَهُمْ يُسْلِفُونَ فِي التَّمْرِ السَّنَتَيْنِ وَالثَّلَاثَ , فَنَهَاهُمْ وَقَالَ:" مَنْ أَسْلَفَ سَلَفًا فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ , وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ".
ابوالمنہال کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو لوگ کھجور میں دو تین سال کے لیے بیع سلم کرتے تھے، آپ نے انہیں روک دیا، اور فرمایا: ”جو بیع سلم کرے تو مقررہ ناپ، مقررہ وزن میں مقررہ مدت تک کے لیے کرے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ناپ وزن اور اس میں یہ تعیین و تحدید اس لیے ہے تاکہ جھگڑے اور اختلاف پیدا ہونے والی بات نہ رہ جائے، اگر مدت نہ معلوم ہو اور وزن اور ناپ نہ متعین ہو تو بیع سلف صحیح نہ ہو گی۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي , قال: حدثنا عبد الرحمن , قال: حدثنا مالك , عن زيد بن اسلم , عن عطاء بن يسار , عن ابي رافع: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكرا , فاتاه يتقاضاه بكره , فقال لرجل:" انطلق فابتع له بكرا" , فاتاه , فقال: ما اصبت إلا بكرا رباعيا خيارا , فقال:" اعطه , فإن خير المسلمين احسنهم قضاء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي رَافِعٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْلَفَ مِنْ رَجُلٍ بَكْرًا , فَأَتَاهُ يَتَقَاضَاهُ بَكْرَهُ , فَقَالَ لِرَجُلٍ:" انْطَلِقْ فَابْتَعْ لَهُ بَكْرًا" , فَأَتَاهُ , فَقَالَ: مَا أَصَبْتُ إِلَّا بَكْرًا رَبَاعِيًا خِيَارًا , فَقَالَ:" أَعْطِهِ , فَإِنَّ خَيْرَ الْمُسْلِمِينَ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً".
ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے اونٹ کے بچے میں بیع سلم کی، وہ شخص اپنے نوجوان اونٹ کا تقاضا کرتا ہوا آیا تو آپ نے ایک شخص سے کہا: ”جاؤ، اس کے لیے نوجوان اونٹ خرید دو“، اس نے آپ کے پاس آ کر کہا: مجھے تو سوائے بہترین، «رباعی»(جو ساتویں برس میں لگ چکا ہو) نوجوان اونٹ کے کوئی نہیں ملا، آپ نے فرمایا: ”اسے وہی دے دو، اس لیے کہ بہترین مسلمان وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بہتر ہو“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور , قال: حدثنا ابو نعيم , قال: حدثنا سفيان , عن سلمة بن كهيل , عن ابي سلمة , عن ابي هريرة , قال: كان لرجل على النبي صلى الله عليه وسلم سن من الإبل فجاء يتقاضاه , فقال:" اعطوه" , فلم يجدوا إلا سنا فوق سنه , قال:" اعطوه" , فقال: اوفيتني , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن خياركم احسنكم قضاء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِنٌّ مِنَ الْإِبِلِ فَجَاءَ يَتَقَاضَاهُ , فَقَالَ:" أَعْطُوهُ" , فَلَمْ يَجِدُوا إِلَّا سِنًّا فَوْقَ سِنِّهِ , قَالَ:" أَعْطُوهُ" , فَقَالَ: أَوْفَيْتَنِي , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ایک شخص کا ایک جوان اونٹ باقی تھا، وہ آپ کے پاس تقاضا کرتا ہوا آیا تو آپ نے (صحابہ سے) فرمایا: ”اسے دے دو“، انہیں اس سے زیادہ عمر کے ہی اونٹ ملے تو آپ نے فرمایا: ”اسی کو دے دو“، اس نے کہا: آپ نے پورا پورا ادا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو“۔