الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4110
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ حق (قرض) تھا، تو اس نے آپﷺ سے سخت لہجہ سے تقاضا کیا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اسے سبق سکھانے کا ارادہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صاحب حق کو بات کہنے کا حق حاصل ہے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا: ”(اس کی عمر کا) اونٹ خرید کر اسے دے دو۔“ انہوں نے عرض کیا، نہیں اس کے جانور کی عمر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4110]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مقروض،
اگر قرض خواہ کا قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول یا تاخیری حربے اختیار کرے،
تو قرض خواہ سخت رویہ اختیار کر سکتا ہے،
لیکن اگر مقروض منصفانہ رویہ اختیار کرے،
یا جائز عذر پیش کرے تو پھر بلا وجہ شدت برتنا جائز نہیں ہے،
لیکن پھر بھی مقروض کو،
قرض خواہ کی سخت کلامی کو جو بلا محل اور نامناسب ہو،
حتی الوسع برداشت کرنا چاہیے،
کیونکہ وہ صاحب حق ہے،
غصہ میں آ سکتا ہے،
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہ کا جو بقول امام قرطبی،
یہودی تھا،
یا بقول علامہ ملا علی قاری بدو یا ضعیف الایمان تھا،
اس کا نامعقول رویہ برداشت کیا،
حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ٹال مٹول یا تاخیری حربہ سے کام نہیں لیا تھا اور اس کے باوجود آپ نے صحابہ کرام کو اس کو کچھ کہنے سے روک دیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4110
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4111
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کم عمر جانور قرض لیا اور اس سے بڑی عمر کا دیا، اور فرمایا: ”تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں، جو قرض ادا کرنے میں بہترین ہیں۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4111]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
محاسن:
محسن یا أحسن کی جمع ہے،
جس کو عام طور پر احاسن ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4111
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2306
2306. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیار کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، اسے نظر انداز کردوکیونکہ حق دار کو اس انداز سے بات چیت کرنے کا حق حاصل ہے۔“ پھرآپ نے فرمایا: ”اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ہمارے ہاں اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ موجود ہے؟ آپ نے فرمایا: ’ٗ’وہی دے دو۔“ تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کریں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2306]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیوں کہ آپ نے جو حاضر تھے دوسروں کو اونٹ دینے کے لیے وکیل کیا۔
اور جب حاضر کو وکیل کرنا جائز ہوا حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہوگا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ایسا ہی فرمایا ہے اور علامہ عینی ؒ پر تعجب ہے کہ انہوں نے ناحق حافظ صاحب ؒ پر اعتراض جمایا کہ حدیث سے غائب کی وکالت نہیں نکلتی، اولیت کا تو کیا ذکر ہے، حالانکہ اولیت کی وجہ خود حافظ صاحب کے کلام میں مذکور ہے۔
حافظ صاحب نے انتقاض الاعتراض میں کہا جس شخص کے فہم کا یہ حال ہو اس کو اعتراض کرنا کیا زیب دیتا ہے۔
نعوذ باللّٰہ من التعصب و سوءالفهم۔
(وحیدی)
اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرض خواہ کی سخت گوئی کا مطلق اثر نہیں لیا، بلکہ وقت سے پہلے ہی اس کا قرض احسن طور پر ادا کرادیا۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ عطا کرے۔
آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2306
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2393
2393. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک شخص کا نبی ﷺ کے ذمے ایک خاص عمر کا اونٹ واجب الاداتھا۔ جب وہ آپ سے تقاضا کرنے آیا توآپ نے فرمایا: ”اسے اونٹ دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا تو نہ مل سکا بلکہ اس سے زیادہ عمرکا اونٹ دستیاب ہوا۔ تو آپ نے فرمایا: ”وہی دےدو۔“ اس شخص نے کہا: آپ نے مجھے پورا حق دے دیاہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا پوراپورا ثواب دے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو ادائیگی کے لحاظ سے بہترین ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2393]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قرض خواہ کو اس کے حق سے زیادہ دے دینا بڑا کار ثواب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2393
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2609
2609. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک خاص عمر کا اونٹ کسی سے بطور قرض لیا۔ قرض خواہ نے آکرسختی سے تقاضا کیا تو (صحابہ رضوان اللہ عنھم أجمعین نے اسے مارنے کاارادہ کیا)آپ نے فرمایا: ”حقدار کو ایسی گفتگو کرنے کاحق پہنچتا ہے۔“ پھر آپ نے اسے ایک بہتر عمر کااونٹ اداکیا اورفرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو(اپنے ذمے قرض کی) ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2609]
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ اس زیادتی میں دوسرے لوگ جو وہاں بیٹھے تھے شریک نہیں ہوئے۔
بلکہ اسی کو ملی جس کا اونٹ آپ پر قرض تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2609
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2305
2305. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے ذمےایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے اونٹ دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا اور اس کے اونٹ سے بڑا اونٹ پایا تو آپ نے فرمایا: ”وہی اس کو دے دو۔“ اس شخص نے کہا: آپ نے میرا حق پورا پورا دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو پورا بدلہ دے۔ نبی نے فرمایا: ”تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو ادائیگی کرنے میں بہتر ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ:
مستحب ہے کہ قرض ادا کرنے والا قرض سے بہتر اور زیادہ مال قرض دینے والے کو ادا کرے، تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ہو، کیوں کہ اس نے قرض حسنہ دیا۔
اور بلا شرط جو زیادہ دیا جائے وہ سود نہیں ہے۔
بلکہ وہ ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ (الرحمن: 60)
کے تحت ہے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2305
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2606
2606. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص کا رسول اللہ ﷺ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ (اس نے سختی سے اس کا تقاضا کیا تو) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے چاہا کہ اس کی خبر لیں لیکن آپ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو۔ جس کا کوئی حق ہوتا ہے، اسے کچھ کہنے کا بھی حق ہے۔“ آپ نے مزید فرمایا: ”اس کے لیے اونٹ خریدکر اسے دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے عرض کیا: ہمیں اس عمر کا اونٹ نہیں ملتا بلکہ اس سے بہتر عمر کااونٹ دستیاب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے لیے وہی خریدو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں بہتر وہی شخص ہے جو (اپنے ذمے واجبات کی)ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2606]
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے کہا اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔
کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے ابورافع ؓ کو وکیل کیا تھا۔
انہوں نے اونٹ خریدا، تو ان کا قبضہ آنحضرت ﷺ کا قبضہ تھا اس لیے قبضہ سے پہلے یہ ہبہ نہ ہوا تواس کا جواب یہ ہے کہ ابورافع صرف خریدنے کے لیے وکیل ہوئے تھے نہ ہبہ کے لیے، تو ان کا قبضہ ہبہ کے احکام میں آنحضرت ﷺ کا قبضہ نہ تھا۔
پس امام بخاری ؒ کا مطلب حدیث سے نکل آیا اور غیر مقبوض کا ہبہ ثابت ہوا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2606
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2305
2305. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے ذمےایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے اونٹ دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا اور اس کے اونٹ سے بڑا اونٹ پایا تو آپ نے فرمایا: ”وہی اس کو دے دو۔“ اس شخص نے کہا: آپ نے میرا حق پورا پورا دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو پورا بدلہ دے۔ نبی نے فرمایا: ”تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو ادائیگی کرنے میں بہتر ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ بیماری یا سفر کے عذر کی وجہ سے وکیل کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی عذر نہیں ہے تو فریق ثانی کی رضامندی سے وکیل کرنا چاہیے۔
امام بخاری ؒ کے نزدیک یہ تکلف محض ہے۔
جو شخص شہر میں موجود ہے، اسے کوئی عذر نہیں وہ بھی وکیل کرسکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے موجود صحابۂ کرام ؓ سے فرمایا:
”اسے اونٹ دےدو۔
“ اگرچہ یہ خطاب حاضرین کےلیے ہے لیکن عرف کے اعتبار سے ہر وکیل کو شامل ہے۔
خواہ وہ غائب ہو یا حاضر، نیز رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام ؓ کو وکیل بنایا، حالانکہ آپ مقیم اور تندرست تھے، نہ آپ غائب تھے اور نہ آپ بیمار اور مسافر ہی تھے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ جب حاضر کےلیے وکیل کرنا جائز ہے، حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہے،اس لیے کہ وہ اس کا محتاج ہے۔
(فتح الباري: 608/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2305
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2306
2306. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک شخص قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیار کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، اسے نظر انداز کردوکیونکہ حق دار کو اس انداز سے بات چیت کرنے کا حق حاصل ہے۔“ پھرآپ نے فرمایا: ”اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ہمارے ہاں اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ موجود ہے؟ آپ نے فرمایا: ’ٗ’وہی دے دو۔“ تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کریں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2306]
حدیث حاشیہ:
(1)
حق طلب کرنے میں سخت رویہ اختیار کرنا اس وقت روا ہے جب فریق ثانی ٹال مٹول سے کام لے اور واجبات کی ادائیگی میں اچھا رویہ اختیار نہ کرے لیکن جو شخص انصاف پسند اور معاملات کا اچھا ہو اور اگر پاس نہ ہو تو معذرت کرے، ایسے شخص کے ساتھ سخت کلامی درست نہیں۔
(2)
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے قرض خواہ کی سخت کلامی کا مطلقاً کوئی اثر نہیں لیا بلکہ خندہ پیشانی سے قبل از وقت اس کا قرض ادا کردیا۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ اپنانے کی توفیق دے۔
(3)
حافظ ابن حجر ؓ نے شارح بخاری ابن منیر کے حوالے سے اس عنوان کی فقاہت بایں الفاظ بیان کی ہے:
قرض کی ادائیگی بروقت کرنا ضروری ہے اس بنا پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس میں وکالت صحیح نہیں کیونکہ مؤکل کی طرف سے وکیل اختیارکرنے میں دیر ہوسکتی ہے،اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور یہ ممانعت ٹال مٹول کے قبیل سے نہیں ہے۔
(فتح الباري609/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2306
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2390
2390. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے قرض کا تقاضا کیا تو اس نے تقاضا کرنے میں سختی سے کام لیا۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کی طرف لپکے تو آپ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو کیونکہ صاحب حق کو بات کرنے کا حق ہے۔ اس کے لیے کوئی اونٹ خریدو اور اسے دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: ہمیں تو اس کے اونٹ (کی عمر) سے زیادہ عمر کا اونٹ ملتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہی خرید لو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو ادائیگی کے اعتبار سے بہتر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2390]
حدیث حاشیہ:
(1)
اجناس کے تبادلے میں، اگر وہ ہم جنس ہوں تو دو باتیں ضروری ہیں:
برابر ہونا اور نقد ہونا۔
اگر مختلف اجناس کا باہمی تبادلہ کرنا ہو تو ایک چیز کا ہونا ضروری ہے کہ سودا دست بدست ہو، البتہ کمی بیشی جائز ہے لیکن حیوانات میں کوئی پابندی نہیں۔
ان کا باہمی تبادلہ ادھار بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے اور ان میں کمی بیشی بھی درست ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ایک اونٹ لیتا اور صدقے کے دو اونٹ دینے کا وعدہ کرتا تھا۔
(مسند أحمد: 171/2)
البتہ بعض روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار پر فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3356)
امام شافعی ؒ نے ان احادیث کے درمیان تطبیق اس طرح دی ہے کہ یہاں ادھار سے مراد دونوں طرف سے ادھار ہے، یعنی بيع الكالئ بالكالئ مراد ہے۔
(فتح الباري: 72/5)
بہرحال حیوانات کی خریدوفروخت کے متعلق وسعت ہے۔
ایک جانور کو دو یا اس سے زیادہ اسی جنس کے جانوروں کے عوض نقد اور ادھار پر فروخت کرنا جائز ہے۔
خود رسول اللہ ﷺ نے دو غلاموں کے عوض ایک غلام خریدا تھا۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4113(1602)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2390
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2392
2392. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اپنا اونٹ واپس لینے کا تقاضا کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے اونٹ دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: ہمیں تو اس کے اونٹ سے بڑی عمر کا بہتر اونٹ ملتا ہے۔ تب وہ شخص کہنے لگا: آپ نے میرا پورا حق ادا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا پورا پورا بدلہ دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے وہی اونٹ دے دو کیونکہ اچھے لوگ وہی ہیں جو اچھی طرح قرض ادا کرتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2392]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے وقت اگر کوئی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصل سے زیادہ واپس کر دے تو یہ اس کی سخاوت اور فیاضی ہے۔
ایسا کرنا منع نہیں، البتہ چیز کی پابندی قبول یا عائد کرنا کہ اس قدر دے رہا ہوں اور اتنا وصول کروں گا، یہ صریح سود ہے۔
شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔
دراصل بعض حضرات کا موقف ہے کہ قرض کی ادائیگی کے وقت وصف میں عمدہ دینا تو جائز ہے لیکن مقدار میں زیادہ دینا ممنوع ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں تنبیہ فرمائی کہ دونوں طرح جائز ہے بشرطیکہ عقد کرتے وقت اضافے کی شرط نہ ہو یا اُن کے ہاں طے شدہ دستور نہ ہو۔
اگر کوئی اپنی طرف سے عرف اور شرط کے بغیر زیادہ دیتا ہے تو یہ احسان ہے سود نہیں جیسا کہ مقروض آدمی اگر قرض خواہ کی کوئی ضرورت پوری کر دے تو ایسا کرنا سود نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2392
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2393
2393. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک شخص کا نبی ﷺ کے ذمے ایک خاص عمر کا اونٹ واجب الاداتھا۔ جب وہ آپ سے تقاضا کرنے آیا توآپ نے فرمایا: ”اسے اونٹ دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا تو نہ مل سکا بلکہ اس سے زیادہ عمرکا اونٹ دستیاب ہوا۔ تو آپ نے فرمایا: ”وہی دےدو۔“ اس شخص نے کہا: آپ نے مجھے پورا حق دے دیاہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا پوراپورا ثواب دے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو ادائیگی کے لحاظ سے بہترین ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2393]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ مقروض کو خوش دلی اور فیاضی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ادائیگی کے وقت بدمزگی پیدا کرنا یا تنگ دلی کا اظہار، اخلاق اور مروت کے منافی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2393
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2606
2606. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص کا رسول اللہ ﷺ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ (اس نے سختی سے اس کا تقاضا کیا تو) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے چاہا کہ اس کی خبر لیں لیکن آپ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو۔ جس کا کوئی حق ہوتا ہے، اسے کچھ کہنے کا بھی حق ہے۔“ آپ نے مزید فرمایا: ”اس کے لیے اونٹ خریدکر اسے دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے عرض کیا: ہمیں اس عمر کا اونٹ نہیں ملتا بلکہ اس سے بہتر عمر کااونٹ دستیاب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے لیے وہی خریدو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں بہتر وہی شخص ہے جو (اپنے ذمے واجبات کی)ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2606]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے غیر مقبوض چیز کا ہبہ ثابت کیا ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ نے اونٹ خرید کر اسے دے دینے کا حکم دیا، حالانکہ آپ نے اس خرید کردہ اونٹ پر قبضہ نہیں کیا تھا، لہذا غیر مقبوض چیز کا ہبہ ثابت ہوا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2606
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2609
2609. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک خاص عمر کا اونٹ کسی سے بطور قرض لیا۔ قرض خواہ نے آکرسختی سے تقاضا کیا تو (صحابہ رضوان اللہ عنھم أجمعین نے اسے مارنے کاارادہ کیا)آپ نے فرمایا: ”حقدار کو ایسی گفتگو کرنے کاحق پہنچتا ہے۔“ پھر آپ نے اسے ایک بہتر عمر کااونٹ اداکیا اورفرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو(اپنے ذمے قرض کی) ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2609]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے قرض کے اونٹ کے عوض بہتر عمر والا اونٹ ادا کرنے کا حکم دیا، اس بہتری اور اضافے میں وہاں بیٹھنے والوں کو شریک نہیں کیا بلکہ اس کا حق دار صرف تقاضا کرنے والا تھا۔
اگر ہدیہ دینے والے کا مقصد دوسروں کو شریک کرنا ہو جیسا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں رواج ہوتا ہے یا قرائن سے معلوم ہو جائے تو ہم مجلس شریک ہوں گے، بصورت دیگر صرف وہی حق دار ہو گا جسے ہدیہ پیش کیا گیا ہے۔
اگر ہدیہ دینے والے کا مقصد کوئی معین ذات ہے تو اس میں غیر شریک نہیں ہو گا۔
(2)
حدیث سے مطابقت اس طرح ہے کہ تقاضا کرنے والے کو حق سے زیادہ دیا گیا تو اس کے لیے یہ ہدیہ ہوا جس میں دوسروں کو شریک نہیں کیا گیا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2609