ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی (محنت کی) کمائی سے کھائے، اور آدمی کی اولاد اس کی کمائی ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 79 (3528، 3529)، سنن الترمذی/الأحکام 22 (1258)، سنن ابن ماجہ/التجارات 64 (229)، (تحفة الأشراف: 17992)، مسند احمد (6/31، 41، 127، 162، 193، 201، 202، 220)، سنن الدارمی/البیوع 6 (2579) (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کی راویہ ”عمة عمارة“ مجہولہ ہیں)»
وضاحت: ۱؎: سب سے پاکیزہ کمائی کی بابت علماء کے تین اقوال ہیں: ۱- تجارت ۲- ہاتھ کی کمائی اور ایسا پیشہ جو کمتر درجے کا نہ ہو ۳- زراعت (کھیتی باڑی)، ان میں سب سے بہتر کون ہے اس کا دارومدار حالات و ظروف پر ہے۔ راجح یہ ہے کہ سب سے بہتر اور پاکیزہ رزق وہ ہے جو حدیث رسول «جعل رزقی تحت ظل رمحی» کے مطابق بطور غنیمت حاصل ہو۔ اس لیے کہ یہ دین کے غلبہ کے لیے حاصل ہونے والی جدوجہد اور قتال میں حاصل مال ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری اولاد سب سے پاکیزہ کمائی ہے، لہٰذا تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھائے اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 1 (2137)، (تحفة الأشراف: 15961)، مسند احمد (6/42، 220) (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھائے اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني، قال: حدثنا خالد وهو ابن الحارث، قال: حدثنا ابن عون، عن الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , فوالله لا اسمع بعده احدا، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الحلال بين، وإن الحرام بين، وإن بين ذلك امورا مشتبهات"، وربما قال:" وإن بين ذلك امورا مشتبهة"، قال:" وساضرب لكم في ذلك، مثلا إن الله عز وجل حمى حمى، وإن حمى الله عز وجل ما حرم، وإنه من يرتع حول الحمى يوشك ان يخالط الحمى"، وربما قال:" إنه من يرعى حول الحمى يوشك ان يرتع فيه، وإن من يخالط الريبة يوشك ان يجسر". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَوَاللَّهِ لَا أَسْمَعُ بَعْدَهُ أَحَدًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَإِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَاتٍ"، وَرُبَّمَا قَالَ:" وَإِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَةً"، قَالَ:" وَسَأَضْرِبُ لَكُمْ فِي ذَلِكَ، مَثَلًا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَمَى حِمًى، وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا حَرَّمَ، وَإِنَّهُ مَنْ يَرْتَعُ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُخَالِطَ الْحِمَى"، وَرُبَّمَا قَالَ:" إِنَّهُ مَنْ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُرْتِعَ فِيهِ، وَإِنَّ مَنْ يُخَالِطُ الرِّيبَةَ يُوشِكُ أَنْ يَجْسُرَ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا (اللہ کی قسم، میں آپ سے سن لینے کے بعد کسی سے نہیں سنوں گا) آپ فرما رہے تھے: ”حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے، ان دونوں کے بیچ کچھ شبہ والی چیزیں ہیں“(یا آپ نے «مشتبہات» کے بجائے «مشتبھۃً» کہا ۱؎) - اور فرمایا: ”میں تم سے اس سلسلے میں ایک مثال بیان کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ بنائی تو اللہ کی چراگاہ یہ محرمات ہیں، جو جانور بھی اس چراگاہ کے پاس چرے گا قریب ہے کہ وہ اس میں داخل ہو جائے“ یا یوں فرمایا: ”جو بھی اس چراگاہ کے جانور پاس چرائے گا قریب ہے کہ وہ جانور اس میں سے میں چر لے۔ اور جو مشکوک کام کرے تو قریب ہے کہ وہ (حرام کام کرنے کی) جرات کر بیٹھے“۔
وضاحت: ۱؎: گویا دنیاوی چیزیں تین طرح کی ہیں: حلال، حرام اور مشتبہ (شک و شبہہ والی چیزیں) پس حلال چیزیں وہ ہیں جو کتاب و سنت میں بالکل واضح ہیں جیسے دودھ، شہد، میوہ، گائے اور بکری وغیرہ، اسی طرح حرام چیزیں بھی کتاب و سنت میں واضح ہیں جیسے شراب، زنا، قتل اور جھوٹ وغیرہ اور مشتبہ وہ ہے جو کسی حد تک حلال سے اور کسی حد تک حرام سے، یعنی دونوں سے مشابہت رکھتی ہو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں ایک کھجور پڑی ہوئی دیکھی تو فرمایا کہ اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی ہو سکتی ہے تو میں اسے کھا لیتا۔ اس لیے مشتبہ امر سے اپنے آپ کو بچا لینا ضروری ہے، کیونکہ اسے اپنانے کی صورت میں حرام میں پڑنے کا خطرہ ہے، نیز شبہ والی چیز میں پڑتے پڑتے آدمی حرام میں پڑنے اور اسے اپنانے کی جرات و جسارت کر سکتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی کو اس بات کی فکر و پروا نہ ہو گی کہ اسے مال کہاں سے ملا، حلال طریقے سے یا حرام طریقے سے“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ سود کھائیں گے اور جس نے اسے نہیں کھایا، اس پر بھی اس کا غبار پڑ کر رہے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 3 (3331)، سنن ابن ماجہ/التجارات 58 (2278)، (تحفة الأشراف: 12241)، مسند احمد 2/494 (ضعیف) (حسن بصری کا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے، نیز ’’سعید‘‘ لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (3331) ابن ماجه (2278) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 354
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: انبانا وهب بن جرير، قال: حدثني ابي، عن يونس، عن الحسن، عن عمرو بن تغلب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من اشراط الساعة، ان يفشو المال، ويكثر، وتفشو التجارة، ويظهر العلم، ويبيع الرجل البيع، فيقول: لا حتى استامر تاجر بني فلان، ويلتمس في الحي العظيم الكاتب فلا يوجد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ تَغْلِبَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، أَنْ يَفْشُوَ الْمَالُ، وَيَكْثُرَ، وَتَفْشُوَ التِّجَارَةُ، وَيَظْهَرَ الْعِلْمُ، وَيَبِيعَ الرَّجُلُ الْبَيْعَ، فَيَقُولَ: لَا حَتَّى أَسْتَأْمِرَ تَاجِرَ بَنِي فُلَانٍ، وَيُلْتَمَسَ فِي الْحَيِّ الْعَظِيمِ الْكَاتِبُ فَلَا يُوجَدُ".
عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ مال و دولت کا پھیلاؤ ہو جائے گا اور بہت زیادہ ہو جائے گا، تجارت کو ترقی ہو گی، علم اٹھ جائے گا ۱؎، ایک شخص مال بیچے گا، پھر کہے گا: نہیں، جب تک میں فلاں گھرانے کے سوداگر سے مشورہ نہ کر لوں، اور ایک بڑی آبادی میں کاتبوں کی تلاش ہو گی لیکن وہ نہیں ملیں گے“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اکثر نسخوں میں «يظهر العلم» ہے، اور بعض نسخوں میں «يظهر الجهل» ہے، یعنی لوگوں کے دنیاوی امور و معاملات میں مشغول ہونے کے سبب جہالت پھیل جائے گی، اور دوسری احادیث کے سیاق کو دیکھتے ہوئے «يظهر العلم» کا معنی یہاں ”علم کے اٹھ جانے یا ختم ہو جانے کے ہوں گے“، واللہ اعلم۔ ۲؎: یعنی ایسے کاتبوں کی تلاش جو عدل و انصاف سے کام لیں اور ناحق کسی کا مال لینے کی ان کے اندر حرص و لالچ نہ ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، الحسن البصري و يونس بن عبيد عنعنا. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 354
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو جدا ہونے تک (مال کے بیچنے اور نہ بیچنے کے بارے میں) اختیار حاصل ہے، اگر سچ بولیں گے اور (عیب و ہنر کو) صاف صاف بیان کر دیں گے تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہو گی، اور اگر جھوٹ بولیں گے اور عیب کو چھپائیں گے تو ان کی خرید و فروخت کی برکت جاتی رہے گی“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، عن محمد، قال: حدثنا شعبة، عن علي بن مدرك، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن خرشة بن الحر، عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم، ولا يزكيهم، ولهم عذاب اليم"، فقراها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو ذر: خابوا، وخسروا، قال:" المسبل إزاره، والمنفق سلعته بالحلف الكاذب، والمنان عطاءه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"، فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: خَابُوا، وَخَسِرُوا، قَالَ:" الْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ، وَالْمَنَّانُ عَطَاءَهُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات چیت کرے گا، اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھی ۱؎ تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ لوگ ناکام ہو گئے اور خسارے میں پڑ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا ۲؎، جھوٹی قسم کھا کر اپنے سامان کو بیچنے والا، دے کر باربار احسان جتانے والا“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2564 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس آیت سے مراد سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۷۷ ہے جو اس طرح ہے «ولا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم»(سورة آل عمران: 77)۔ ۲؎: کسی کسی روایت میں «خیلاء» کا لفظ آیا ہے یعنی ”تکبر اور گھمنڈ سے ٹخنے سے نیچے ازار (تہبند) لٹکانے والا ”لیکن یہ وعید ہر حالت پر ہے چاہے ازار (تہبند) تکبر سے لٹکائے یا بغیر تکبر کے اور ”تکبر سے“ کا لفظ کوئی احترازی لفظ نہیں ہے، ٹخنے سے نیچے لٹکانے میں بہرحال تکبر و غرور کی کیفیت پیدا ہو ہی جاتی ہے اس لیے کسی روایت میں «خیلاء» کا لفظ آیا ہے۔ تکبر کے ساتھ مزید گناہ ہو گا اور عام حالت میں یہ کبیرہ گناہ ہے۔