(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: انبانا وهب بن جرير، قال: حدثني ابي، عن يونس، عن الحسن، عن عمرو بن تغلب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من اشراط الساعة، ان يفشو المال، ويكثر، وتفشو التجارة، ويظهر العلم، ويبيع الرجل البيع، فيقول: لا حتى استامر تاجر بني فلان، ويلتمس في الحي العظيم الكاتب فلا يوجد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ تَغْلِبَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، أَنْ يَفْشُوَ الْمَالُ، وَيَكْثُرَ، وَتَفْشُوَ التِّجَارَةُ، وَيَظْهَرَ الْعِلْمُ، وَيَبِيعَ الرَّجُلُ الْبَيْعَ، فَيَقُولَ: لَا حَتَّى أَسْتَأْمِرَ تَاجِرَ بَنِي فُلَانٍ، وَيُلْتَمَسَ فِي الْحَيِّ الْعَظِيمِ الْكَاتِبُ فَلَا يُوجَدُ".
عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ مال و دولت کا پھیلاؤ ہو جائے گا اور بہت زیادہ ہو جائے گا، تجارت کو ترقی ہو گی، علم اٹھ جائے گا ۱؎، ایک شخص مال بیچے گا، پھر کہے گا: نہیں، جب تک میں فلاں گھرانے کے سوداگر سے مشورہ نہ کر لوں، اور ایک بڑی آبادی میں کاتبوں کی تلاش ہو گی لیکن وہ نہیں ملیں گے“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اکثر نسخوں میں «يظهر العلم» ہے، اور بعض نسخوں میں «يظهر الجهل» ہے، یعنی لوگوں کے دنیاوی امور و معاملات میں مشغول ہونے کے سبب جہالت پھیل جائے گی، اور دوسری احادیث کے سیاق کو دیکھتے ہوئے «يظهر العلم» کا معنی یہاں ”علم کے اٹھ جانے یا ختم ہو جانے کے ہوں گے“، واللہ اعلم۔ ۲؎: یعنی ایسے کاتبوں کی تلاش جو عدل و انصاف سے کام لیں اور ناحق کسی کا مال لینے کی ان کے اندر حرص و لالچ نہ ہو۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4461
اردو حاشہ: (1) ترجمۃ الباب کا مقصد تجارت اور سوداگری کی بابت فرامینِ رسول بیان کرنا ہے اور باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ اس میں تجارت کے عام ہونے اور علاماتِ قیامت میں سے ہونے کا ذکر ہے۔ (2) کثرتِ مال قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ مال، انسان کے لیے خیر بھی ہو سکتا ہے اور شر بھی، تاہم دوسرا امکان بہت زیادہ ہے۔ اور یہ اس لیے کہ عام انسانوں کے انداز تجارت اور مال کمانے سے بخوبی یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں صرف مال کمانے کی فکر ہے، اور وہ آخرت کی فکر سے بالکل عاری اور غافل ہو چکے ہیں۔ ہاں، البتہ جسے اللہ توفیق عطا فرمائے تو وہ اپنے مال کے ذریعے سے جنت ہی خریدتا ہے۔ اللهم اجعلنا منهم۔ (3) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ دنیوی علم کا ظہور اور امت مسلمہ میں اس کا پھیلائو علاماتِ قیامت میں سے ہے۔ اور اس میں بھی امت کے لیے کوئی زیادہ خیر اور بھلائی نہیں الا یہ کہ افراد امت اس کے ساتھ ساتھ شرعی علم حاصل کریں اور وہ احکام شریعت سے، کما حقہٗ آگاہ ہوں، لیکن عام مشاہدہ اس کے برعکس ہی ہے، تاہم جو شخص علم دین حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی، صحیح طور پر حاصل کرتا ہے تو یہ سونے پہ سہاگا ہے اور یہ بہت زیادہ خیر و بھلائی والا عمل ہے۔ (4) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا کھلم کھلا اور صریح معجزہ ہے کہ آپ نے بہت عرصہ پہلے جن امور کی خبر دی تھی، وہ من و عن اسی طرح وقوع پذیر ہوئے جس طرح آپ نے بیان فرمایا تھا۔ (5)”علم ہو گا“ بعض نسخوں میں علم کی بجائے جہالت کا لفظ ہے اور وہ آئندہ کلام سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے کہ اس قدر جہالت ہو گی کہ سوجھ بوجھ رکھنے والا اور دستاویز لکھنے والا خال خال ہی ملے گا۔ اگر یہاں لفظ علم ہی ہو تو پھر مناسبت یوں ہو گی کہ دیکھنے میں تو علم بہت ہو گا مگر لیاقت نہیں ہو گی حتیٰ کہ نہ تجارت کی سوجھ بوجھ ہو گی نہ دستاویز لکھنا آئے گی۔ آج کل بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ سکول عام ہیں، استاد بھی بہت ہیں مگر نہ اساتذہ خلوص سے پڑھاتے ہیں نہ طلبہ محنت سے پڑھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے جاہل بڑھ رہے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4461