● جامع الترمذي | 1358 | عائشة بنت عبد الله | أطيب ما أكلتم من كسبكم وإن أولادكم من كسبكم |
● سنن أبي داود | 3529 | عائشة بنت عبد الله | ولد الرجل من كسبه من أطيب كسبه فكلوا من أموالهم |
● سنن أبي داود | 3528 | عائشة بنت عبد الله | أطيب ما أكل الرجل من كسبه وولده من كسبه |
● سنن ابن ماجه | 2137 | عائشة بنت عبد الله | أطيب ما أكل الرجل من كسبه وإن ولده من كسبه |
● سنن ابن ماجه | 2290 | عائشة بنت عبد الله | أطيب ما أكلتم من كسبكم وإن أولادكم من كسبكم |
● سنن النسائى الصغرى | 4454 | عائشة بنت عبد الله | أطيب ما أكل الرجل من كسبه وإن ولد الرجل من كسبه |
● سنن النسائى الصغرى | 4455 | عائشة بنت عبد الله | أولادكم من أطيب كسبكم فكلوا من كسب أولادكم |
● سنن النسائى الصغرى | 4456 | عائشة بنت عبد الله | أطيب ما أكل الرجل من كسبه وولده من كسبه |
● سنن النسائى الصغرى | 4457 | عائشة بنت عبد الله | أطيب ما أكل الرجل من كسبه وإن ولده من كسبه |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4455
اردو حاشہ:
”کھا سکتے ہو“ لیکن ضرورت کے مطابق۔ یہ نہیں کہ اولاد کے مال کو ضائع کرتا پھرے یا انہیں بلاوجہ تنگ کرے۔ احادیث میں ”کھانے“ کا لفظ ہے۔ مراد تمام ضروریات ہیں، خواہ وہ خوراک سے متعلق ہوں یا لباس سے۔ علاج سے متعلق ہوں یا رہن سہن سے لیکن ضرورت اور احتیاج کے وقت اور مطابق۔ چونکہ خوراک انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس لیے اس کا خصوصاً ذکر فرمایا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4455
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4454
´روزی کمانے کی ترغیب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی (محنت کی) کمائی سے کھائے، اور آدمی کی اولاد اس کی کمائی ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4454]
اردو حاشہ:
(1) محنت سے کما کر کھانے کو رسول اللہ ﷺ نے بہترین اور پاکیزہ کمائی قرار دیا ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اولاد کی کمائی میں والد کو، اولاد کی اجازت کے بغیر بھی، تصرف کرنے کا حق اور اختیار ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر اولاد صاحب استطاعت ہو تو ان پر والدین کا نان و نفقہ واجب ہے۔ تمام فقہاء نے اولاد پر والدین کا خرچہ واجب اور ضروری قرار دیا ہے۔
(3) ”اولاد بھی آدمی کی اپنی کمائی ہے“ گویا انسان کو یا تو اپنی محنت سے کما کر کھانا چاہیے یا اپنی اولاد کی کمائی سے کیونکہ وہ بھی غیر نہیں۔ اور اپنی اولاد کا مال کھانا عار بھی نہیں جبکہ اور کسی سے لے کر کھانا عار ہے، خواہ وہ سگا بھائی ہی ہو۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ کوئی شخص مفت خور یا منگتا نہیں ہونا چاہیے الا یہ کہ کوئی معذور ہو۔ کمائی کے قابل نہ ہو ورنہ کسی پر بوجھ بننا صدقہ لینے کے مترادف ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4454
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4456
´روزی کمانے کی ترغیب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھائے اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4456]
اردو حاشہ:
بہترین محنب اور کمائی کیا ہے؟ علماء نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے اس کا تعین کیا ہے۔ بعض نے تجارت کو افضل پیشہ قرار دیا ہے کیونکہ یہ صاف ستھرا اور معزز پیشہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اختیار فرمایا تھا۔ بعض علماء نے ہاتھ کی محنت کو افضل کہا ہے کیونکہ انبیاء علیہم السلام عموماً ہاتھ کی کوئی نہ کوئی محنت فرماتے تھے۔ بعض نے زراعت کو بہترین کمائی کہا ہے کیونکہ زراعت سے تمام مخلوقات اپنی اپنی خوراک حاصل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے ان کی خوراک کا ثواب زراعت کرنے والے کو ملتا ہے اور اس کی کمائی سے پرندے، جانور، کیڑے مکوڑے اور غریب انسان مفت خوراک حاصل کرتے ہیں۔ بعض نے مال غنیمت کو افضل کمائی سمجھا ہے مگر یہ تو صرف فوج کو حاصل ہو سکتی ہے۔ آج کل کے دور میں فوج کے لیے بھی ممکن نہیں، لہٰذا یہ قول کمزور ہے۔ اور نہ ہر وقت لڑائی ہو سکتی ہے، نہ ہر شخص لڑ سکتا ہے اور نہ ہر لڑائی سے غنیمت حاصل ہو سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنی ذہنی استعداد اور رجحان کے ساتھ کوئی بھی پیشہ اختیار کر سکتا ہے۔ اس سے حلال کمائے تو وہی اس کے لیے افضل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4456
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4457
´روزی کمانے کی ترغیب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھائے اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4457]
اردو حاشہ:
”اس کی کمائی ہے“ کیونکہ اس نے بڑی محنت اور مشقت سے ان کو پال پوس کر جوان کیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4457
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2137
´روزی کمانے کی ترغیب۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا سب سے عمدہ کھانا وہ ہے جو اس کی اپنی کمائی کا ہو، اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2137]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اسلام رہبانیت کا دین نہیں اور نہ وہ ترک دنیا کی دعوت دیتا ہے بلکہ دنیا میں اس طریقے سے رہنا سکھاتا ہے جس میں ایثار، خیر خواہی اور تعاون کو پیش نظر رکھا جائے۔
دنیا میں امن و مان اس طرح پیدا ہوا سکتا ہے۔
(2)
محنت سے حاصل ہونے والی کمائی حلال کمائی ہے بشرطیکہ اس میں شرعی احکام کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔
یہ محنت جسمانی بھی ہو سکتی ہے، کوئی فنی مہارت یا دستکاری بھی ہو سکتی ہے، ذہنی اور دماغی بھی ہو سکتی ہے۔
(3)
انسان اپنے پچوں کی پرورش کرتا ہے اور ان پر خرچ کرتا ہے لہٰذا اولاد کا فرض ہے کہ والدین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرے۔
(4)
والدین اپنی اولاد سے حسب ضرورت مال لے سکتے ہیں تاہم انہیں چاہیے کہ اولاد کی جائز ضرویات کو نظر انداز نہ کریں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2137
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2290
´اولاد کے مال میں والدین کے حق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے کھانوں میں سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو تمہارے ہاتھ کی کمائی کا ہو، اور تمہاری اولاد بھی تمہاری ایک قسم کی کمائی ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2290]
اردو حاشہ: دیکھیے ‘ حدیث: 2137کے فوائد۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2290
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1358
´باپ بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1358]
اردو حاشہ: 1؎:
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اسی معنی کی ایک حدیث مروی ہے،
'أَنْتَ وَ مَالُكَ لأَبِيْكَ' (یعنی تم اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے) (سنن ابی داود رقم: 3530/صحیح) اس میں بھی عموم ہے،
ضرورت کی قید نہیں ہے،
اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں سنن أبی داود میں (برقم: 3529) جو 'إذا احتجتم' (جب تم ضرورت مند ہو) کی 'زیادتی' ہے وہ بقول ابوداود 'منکر' ہے،
لیکن لڑکے کی وفات پر (پوتا کی موجودگی میں) باپ کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے،
اس سے حدیث کی تخصیص ہوجاتی ہے۔
یعنی بیٹے کا کل مال باپ کی ملکیت نہیں،
صرف بقدر ضرورت ہی لے سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1358