أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ، مَا لَمْ يَفْتَرِقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَذَبَا، وَكَتَمَا مُحِقَ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4462
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تاجروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خرید و فروخت کرتے وقت شرعی تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے معاملات طے کریں۔ ایک دوسرے سے نہ تو جھوٹ بولیں اور نہ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کریں بلکہ سچ کا دامن تھامے رکھیں اور ہر صورت میں سچی بات کریں اور سچ پر پہرہ دیتے رہیں۔ بائع اور مشتری دونوں کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں۔ بائع پر واجب ہے کہ وہ اپنی مبیع (جو چیز وہ بیچ رہا ہے) کے متعلق درست معلومات دے۔ اگر اس میں کوئی نقص اور عیب وغیرہ ہو تو خریدار کو اس سے مطلع کرے۔ داؤ نہ لگائے۔ ایک مسلمان تاجر کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ وہ عیب اور نقص والی یا دو نمبر چیز، بتائے بغیر فروخت کرے۔ یہ حرام ہے۔
(2) حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ برکت تب ہو گی جب تجارت سچ پر مبنی ہو گی، اس لیے ضروری ہے کہ حصول برکت کے لیے تاجر لوگ سچ بول کر ہی اپنی تجارت کو فروغ دیں۔ تجارت میں جھوٹ بولنے اور سودے کا عیب چھپانے سے نہ صرف برکت حاصل نہیں ہوتی بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ ضمیر کی خلش الگ بے چین کرتی رہتی ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔
(3) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیوی فوائد کا حقیقی اور بھرپور حصول بھی عمل صالح سے ہوتا ہے جبکہ گناہوں کی نحوست اور دنیا و آخرت، دونوں کی خیر و برکت تباہ و برباد ہو جاتی ہے، اس لیے اس زریں قانون فطرت کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر اپنے تمام معاملات ترتیب دینے چاہئیں۔
(4) ”اختیار رہتا ہے“ اسے خیار مجلس کہا جاتا ہے، یعنی جب تک فریقین سودے والی جگہ میں بیٹھے ہیں، وہ چاہیں تو ان میں سے کوئی بھی سودا واپس کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ فریق ثانی کے لیے اسے ماننا لازم ہو گا، البتہ اگر مجلس بدل جائے تو پھر دونوں کی رضامندی ہی سے سودا واپس ہو سکتا ہے۔ احناف و موالک خیار مجلس کے قائل نہیں کہ خیار مجلس کی کوئی حد نہیں، نیز یہ اختیار اصول کے خلاف ہے کیونکہ طے شدہ سودے کو ایک فریق ختم نہیں کر سکتا۔ اس حدیث کی وہ تاویل کرتے ہیں کہ یہاں ”جدا ہونے“ سے مراد سودے کی بات چیت کا طے ہونا ہے، حالانکہ یہ بات بیان کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔ یہ تو بدیہی بات ہے، نیز اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ نے اسے ظاہری معنیٰ پر ہی محمول کیا ہے۔ بعض دیگر احادیث میں صراحت ہے کہ واپسی کے ڈر سے کوئی جگہ نہ بدلے۔ گویا یہ معنیٰ قطعی ہے کہ جب تک مجلس نہ بدلے، اختیار قائم رہتا ہے۔ باقی رہی اصول کی بات تو اصول بھی احادیث ہی سے ثابت ہوتے ہیں، نیز حدیث بھی تو اصول شرع میں سے ایک بنیادی اصل ہے، لہٰذا اصول کا نام لے کر کسی صحیح اور صریح حدیث کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
(5) ”وضاحت سے بیان کریں“ یعنی اپنی اپنی چیز کے عیوب و نقائص وغیرہ۔
(6) ”برکت اٹھ جائے گی“ یعنی مال حرام ہو جائے گا اور کثیر ہونے کے باوجود ضروریات پوری نہیں کرے گا اور ضائع ہوتا رہے گا۔ پریشانی الگ ہو گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4462
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4469
´خرید و فروخت کرنے والے جب تک جدا نہ ہوں دونوں کے لیے حق اختیار کے باقی رہنے کا بیان۔`
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خریدنے اور بیچنے والے جب تک جدا نہ ہو جائیں دونوں کو اختیار رہتا ہے ۱؎، اگر وہ عیب بیان کر دیں اور سچ بولیں تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہو گی، اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور عیب چھپائیں تو ان کی بیع کی برکت ختم ہو جاتی ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4469]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھئے، حدیث: 4462۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4469
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3459
´بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔`
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، پھر اگر دونوں سچ کہیں اور خوبی و خرابی دونوں بیان کر دیں تو دونوں کے اس خرید و فروخت میں برکت ہو گی اور اگر ان دونوں نے عیوب کو چھپایا، اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان دونوں کی بیع سے برکت ختم کر دی جائے گی۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سعید بن ابی عروبہ اور حماد نے روایت کیا ہے، لیکن ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع و مشتری کو اختیار ہے جب تک کہ دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3459]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
خلاصہ ان روایات کا یہ ہے۔
کہ خریدار اور مالک ایک دوسرے سے جب تک جدا نہ ہوجایئں۔
مالک اور خریدار کو دونوں کو سودا فسخ کرنے کا اختیار رہتا ہے۔
جدائی سے مراد صرف گفتگو کا اختتام نہیں ہے۔
بلکہ جسمانی طور پر جدائی ہے۔
تاہم اختیار کی مہلت طے ہوجائے۔
تو اور بات ہے۔
پھر اس مہلت تک اختیار باقی رہتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3459
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1246
´بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1246]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جدانہ ہوں سے مراد مجلس سے ادھراُدھرچلے جانا ہے،
خود راوی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی تفسیرمروی ہے،
بعض نے بات چیت ختم کردینا مراد لیا ہے جوظاہرکے خلاف ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1246
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2114
2114. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بائع اور مشتری کو اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہوں۔۔۔ ہمام کہتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں اس طرح پایا کہ وہ تین بار اختیار کرے۔۔۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور صاف صاف بیان کریں تو ان کی اس بیع میں برکت ہوگی اور اگر وہ جھوٹ سے کام لیں اور عیب وغیرہ چھپائیں تو شاید انھیں نفع تو ہوگا لیکن اس بیع سے برکت کو ختم کردیا جائے گا۔“ حبان نے کہا: ہم کو ہمام نے خبر دی، ا نھوں نے کہا: ہم سے ابو تیاح نے بیان کیا، انھوں نے عبد اللہ بن حارث کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انھوں نے حضرت حکیم بن حزام ؓ سے اور انھوں نے اس حدیث کو نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2114]
حدیث حاشیہ:
یعنی خریدنے والا تین دفعہ اپنی پسند کا اعلان کردے تو بیع لازم ہو جاتی ہے اوپر کی روایت میں جو ہمام نے اپنی یاد سے کی ہے یوں ہے ''البیعان بالخیار'' لیکن ہمام کہتے ہیں میں نے اپنی کتاب میں جو اس حدیث کو دیکھا تو یختار کا لفظ تین بار لکھا ہوا پایا۔
بعض نسخوں میں یختار کے بدل یخیار ہے۔
)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2114
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2079
2079. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں۔۔۔ یا یہ فرمایا یہاں تک کہ علیحدہ ہوں۔۔۔ اگر وہ سچ بولیں اور عیب وہنر ظاہر کردیں تو انھیں ان کی اس تجارت میں برکت دی جائے گی اور اگر جھوٹ بولیں یاعیب چھپائیں تو بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2079]
حدیث حاشیہ:
مقصد باب ظاہر ہے کہ سوداگروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کا حسن و قبح سب ظاہر کردیں تاکہ خریدنے والے کو بعد میں شکایت کا موقع نہ مل سکے اور اس بارے میں کوئی جھوٹی قسم ہرگز نہ کھائیں۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خریدار کو جب تک وہ دکان سے جدا نہ ہو مال واپس کرنے کا اختیار ہے ہاں دکان سے چلے جانے کے بعد یہ اختیار ختم ہے مگر یہ کہ ہر دونے باہمی طور پر ایک مدت کے لیے اس اختیار کو طے کر لیا ہو تو یہ امر دیگر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2079
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2079
2079. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں۔۔۔ یا یہ فرمایا یہاں تک کہ علیحدہ ہوں۔۔۔ اگر وہ سچ بولیں اور عیب وہنر ظاہر کردیں تو انھیں ان کی اس تجارت میں برکت دی جائے گی اور اگر جھوٹ بولیں یاعیب چھپائیں تو بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2079]
حدیث حاشیہ:
(1)
فروخت کرنے والا اور خریدار اگر دونوں سچ بولیں،فروخت کردہ چیز اور قیمت میں کسی قسم کا ابہام یا پوشیدگی نہ رکھیں تو ان کی بیع نفع مند اور ثمر آور ہوگی بصورت دیگر اس کی برکت ختم کردی جائے گی،یعنی حصول برکت کے لیے شرط یہ ہے کہ سچائی اور ہر معاملے کی وضاحت ہو اور برکت ختم اس وقت ہوگی جب جھوٹ اور ابہام پایا جائے گا۔
اگر فروخت کرنے والے یا خریدار میں سے کسی ایک نے صداقت اور اظہار کا معاملہ کیا لیکن دوسرے نے جھوٹ اور کتمان سے کام لیا تو کیا برکت حاصل ہوگی یانہیں؟حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ صداقت اور وضاحت کرنے والے کو اللہ سے اجرو ثواب ملے گا اور جھوٹ بولنے والا قیامت کے دن عتاب وسزا کا حقدار ہوگا۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہوں کی نحوست دنیا وآخرت کی برکات کو ختم کردیتی ہے۔
(فتح الباری: 4/394) (3)
بیع پختہ ہونے کہ بعد اسے ختم کرنے کے لیے تین اختیارات ہیں:
خیار مجلس،خیار شرط اور خیار عیب،ان تینوں کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2079
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2082
2082. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "خریدنے اور بیچنے والے کو اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدانہ ہوں۔ یا فرمایا تا آنکہ وہ متفرق ہوجائیں۔ اگر وہ سچ بولیں اورعیب کی وضاحت کردیں تو ان کی خریدوفروخت میں برکت ہوگی۔ اس کے برعکس اگر وہ عیب چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو اس خریدوفروخت کی برکت مٹا دی جائے گی۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2082]
حدیث حاشیہ:
جھوٹ اور کتمان اشیائے فروخت کی برکت کو ختم کردیتے ہیں، یعنی اگر بیچنے والا سودے کی تعریف میں جھوٹ بولے اور اس کے عیب چھپائے،اسی طرح خریدار بھی قیمت کی ادائیگی میں جعل سازی یا فریب کاری کرے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی برکت اٹھ جاتی ہے۔
خریدار کی طرف سے جعل سازی یہ ہے کہ جعلی چیک،فروخت کرنے والے کو دےدے یا چیک تو اصل ہو لیکن اس کے بنک میں پیسے نہ ہوں،اسی طرح جعلی کرنسی اور کھوٹے نوٹ دینے کا بھی یہی حکم ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2082
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2108
2108. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: " بائع اور مشتری کو بیع میں اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں۔ " راوی حدیث حضرت ابو تیاح نے کہا: میں ابو خلیل کے ساتھ تھا جب انھیں عبد اللہ بن حارث نے یہ حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2108]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ہے کہ بیچنے والے اور خریدنے والے کو بیع پختہ یا فسخ کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں، اس\" علیحدگی\"سے کیا مراد ہے؟امام شافعی کا موقف ہے کہ اس سے مراد تفرق ابدان ہے،یعنی بائع اور مشتری اگر مجلس سے ادھر اُدھر چلے جائیں تو بیع نافذ ہوجاتی ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس سے تفرق اقوال مراد ہے، یعنی بیچنے والا کہہ دے کہ میں نے فروخت کیا اور خریدنے والا کہہ دے کہ میں نے اسے خریدا تو اس سے بیع پختہ ہوجاتی ہے،اس کے بعد کسی کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں،یعنی ایجاب وقبول کے بعد اختیار ختم ہوجاتا ہے اگرچہ مجلس ہی میں کیوں نہ ہو۔
لیکن قبل ازیں حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد تفرق ابدان ہے کیونکہ حضرت نافع کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کوئی چیز خریدتے جو انھیں پسند ہوتی تو اپنے ساتھی سے جلدی الگ ہوجاتے۔
(حدیث: 2107)
اس بنا پر ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ مجلس کے قائم رہنے تک بائع اور مشتری کو اپنی بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے۔
جب مجلس ختم ہوجائے تو یہ اختیار بھی ختم ہوجاتا ہے،البتہ خیار شرط یا خیار عیب باقی رہتا ہے۔
w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2108
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2110
2110. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "بیچنےاور خریدنے والے(دونوں)کو اختیار ہے جب تک جدانہ ہوئے ہوں۔ اگر وہ سچ کہیں اور صاف صاف بیان کریں تو ان کی خریدو فروخت میں برکت ہوگی۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور عیب چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت جاتی رہے گی۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2110]
حدیث حاشیہ:
(1)
تمام محدثین کا موقف ہے کہ صرف عقد،یعنی ایجاب وقبول سے بیع لازم نہیں ہوجاتی جب تک بائع اور مشتری مجلس عقد سے جدانہ ہوں کیونکہ مجلس میں رہتے ہوئے انھیں بیع پختہ یا فسخ کرنے کا اختیار رہتا ہے۔
اختتام مجلس کے بعد چونکہ یہ اختیار ختم ہوجاتا ہے،اس لیے ان کے لیے بیع لازم ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد خیار شرط اور خیار عیب کی بنا پر بیع فسخ ہوسکے کی بصورت دیگر فسخ نہیں ہوگی۔
حضرت سعید بن مسیّب، امام زہری، ابن ابی ذئب، حسن بصری، امام اوزاعی، ابن جریج،امام شافعی،امام مالک، امام احمد بن حنبل اور اکثر فقہاء رحمۃ اللہ علیہ یہی کہتے ہیں۔
امام ابن حزم نے لکھا ہے:
ابراہیم نخعی کے علاوہ تابعین میں سے کوئی اس موقف کا مخالف نہیں ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صرف امام نخعی کا قول اختیار کرکے جمہور محدثین کی مخالفت کی ہے۔
اس سلسلے میں قاضی شریح کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب آدمی خریدوفروخت کے متعلق بات کرتا ہے تو بیع پختہ ہوجاتی ہے۔
لیکن یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس میں حجاج بن ارطاۃ نامی راوی ضعیف ہے۔
(2)
واضح رہے کہ مجلس کی برخاستگی سے مراد جسمانی جدائی ہے۔
اگر اہل رائے کے طرح محض باتوں کی جدائی مراد ہوتو مذکورہ حدیث اپنے حقیقی فائدے سے خالی رہ جاتی ہے بلکہ سرے سے حدیث کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔
الغرض صحیح مسلک کے مطابق ہر دوطرح سے جسمانی جدائی مراد ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل سے ثابت ہے۔
(فتح الباری: 4/416)
w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2110
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2114
2114. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بائع اور مشتری کو اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہوں۔۔۔ ہمام کہتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں اس طرح پایا کہ وہ تین بار اختیار کرے۔۔۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور صاف صاف بیان کریں تو ان کی اس بیع میں برکت ہوگی اور اگر وہ جھوٹ سے کام لیں اور عیب وغیرہ چھپائیں تو شاید انھیں نفع تو ہوگا لیکن اس بیع سے برکت کو ختم کردیا جائے گا۔“ حبان نے کہا: ہم کو ہمام نے خبر دی، ا نھوں نے کہا: ہم سے ابو تیاح نے بیان کیا، انھوں نے عبد اللہ بن حارث کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انھوں نے حضرت حکیم بن حزام ؓ سے اور انھوں نے اس حدیث کو نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2114]
حدیث حاشیہ:
(1)
بيعان سے خریدوفروخت کرنے والے دونوں مراد ہیں۔
عقد مجلس میں سودا پختہ یا فسخ کرنے کا دونوں کو اختیار ہے۔
جس طرح خریدنے والا دوران مجلس میں بیع واپس کرنے اور قیمت لینے کا مجاز ہے اسی طرح بائع بھی قیمت واپس کرنےاور اپنی فروخت کردہ چیز لینے کا اختیار رکھتا ہے۔
مشتری کو اختیار دینا اور بائع کو اس سے محروم رکھنا قرین انصاف نہیں۔
بائع کو اختیار دینے سے بیع کا انعقاد متاثر نہیں ہوگا۔
(2)
روایت میں حضرت حمام کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ انھوں نے یہ حدیثاپنی یادداشت سے بیان کرنے کے بعد اپنی کتاب دیکھی تو وہاں اس طرح پایا:
”وہ تین بار اختیار کرے“ یعنی خریدنے والا تین دفعہ اپنی پسند کا اعلان کرے۔
یہ الفاظ غیر محفوط ہیں اور حضرت قتادہ سے بیان کرنے والے دوسرے راویوں کے بھی خلاف ہیں،لہٰذا یہ الفاظ کسی صورت میں قبول نہیں ہوں گے۔
(فتح الباري: 422/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2114