(مرفوع) اخبرنا زياد بن ايوب، قال: حدثنا هشيم، قال: حدثنا ابو الزبير، عن جابر، قال: بعثنا النبي صلى الله عليه وسلم مع ابي عبيدة في سرية، فنفد زادنا فمررنا بحوت قد قذف به البحر، فاردنا ان ناكل منه، فنهانا ابو عبيدة، ثم قال: نحن رسل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفي سبيل الله كلوا. فاكلنا منه اياما، فلما قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبرناه، فقال:" إن كان بقي معكم شيء فابعثوا به إلينا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ فِي سَرِيَّةٍ، فَنَفِدَ زَادُنَا فَمَرَرْنَا بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَ بِهِ الْبَحْرُ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَأْكُلَ مِنْهُ، فَنَهَانَا أَبُو عُبَيْدَةَ، ثُمَّ قَالَ: نَحْنُ رُسُلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ كُلُوا. فَأَكَلْنَا مِنْهُ أَيَّامًا، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاهُ، فَقَالَ:" إِنْ كَانَ بَقِيَ مَعَكُمْ شَيْءٌ فَابْعَثُوا بِهِ إِلَيْنَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سریے (فوجی مہم) میں بھیجا، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا، ہمارا گزر ایک مچھلی سے ہوا جسے سمندر نے باہر نکال پھینکا تھا۔ ہم نے چاہا کہ اس میں سے کچھ کھائیں تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس سے روکا، پھر کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے ہیں اور اللہ کے راستے میں نکلے ہیں، تم لوگ کھاؤ، چنانچہ ہم نے کچھ دنوں تک اس میں سے کھایا، پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے آپ کو اس کی خبر دی، آپ نے فرمایا: ”اگر تمہارے ساتھ (اس میں سے) کچھ باقی ہو تو اسے ہمارے پاس بھیجو“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عمر بن علي بن مقدم المقدمي، قال: حدثنا معاذ بن هشام، قال: حدثني ابي، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم مع ابي عبيدة، ونحن ثلاث مائة وبضعة عشر، وزودنا جرابا من تمر فاعطانا قبضة قبضة، فلما ان جزناه اعطانا تمرة تمرة حتى إن كنا لنمصها كما يمص الصبي، ونشرب عليها الماء، فلما فقدناها وجدنا فقدها حتى إن كنا لنخبط الخبط بقسينا ونسفه، ثم نشرب عليه من الماء حتى سمينا جيش الخبط، ثم اجزنا الساحل فإذا دابة مثل الكثيب , يقال له: العنبر، فقال ابو عبيدة: ميتة لا تاكلوه". ثم قال جيش رسول الله صلى الله عليه وسلم: وفي سبيل الله عز وجل، ونحن مضطرون، كلوا باسم الله، فاكلنا منه وجعلنا منه وشيقة، ولقد جلس في موضع عينه ثلاثة عشر رجلا، قال: فاخذ ابو عبيدة ضلعا من اضلاعه فرحل به اجسم بعير من اباعر القوم فاجاز تحته، فلما قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" ما حبسكم"، قلنا: كنا نتبع عيرات قريش، وذكرنا له من امر الدابة، فقال:" ذاك رزق رزقكموه الله عز وجل، امعكم منه شيء؟"، قال: قلنا: نعم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُقَدَّمٍ الْمُقَدَّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ، وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَرَ، وَزَوَّدَنَا جِرَابًا مِنْ تَمْرٍ فَأَعْطَانَا قَبْضَةً قَبْضَةً، فَلَمَّا أَنْ جُزْنَاهُ أَعْطَانَا تَمْرَةً تَمْرَةً حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَمُصُّهَا كَمَا يَمُصُّ الصَّبِيُّ، وَنَشْرَبُ عَلَيْهَا الْمَاءَ، فَلَمَّا فَقَدْنَاهَا وَجَدْنَا فَقْدَهَا حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَخْبِطُ الْخَبَطَ بِقِسِيِّنَا وَنَسَفُّهُ، ثُمَّ نَشْرَبُ عَلَيْهِ مِنَ الْمَاءِ حَتَّى سُمِّينَا جَيْشَ الْخَبَطِ، ثُمَّ أَجَزْنَا السَّاحِلَ فَإِذَا دَابَّةٌ مِثْلُ الْكَثِيبِ , يُقَالُ لَهُ: الْعَنْبَرُ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: مَيْتَةٌ لَا تَأْكُلُوهُ". ثُمَّ قَالَ جَيْشُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَنَحْنُ مُضْطَرُّونَ، كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ وَجَعَلْنَا مِنْهُ وَشِيقَةً، وَلَقَدْ جَلَسَ فِي مَوْضِعِ عَيْنِهِ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، قَالَ: فَأَخَذَ أبُو عُبَيْدَةَ ضِلْعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَرَحَلَ بِهِ أَجْسَمَ بَعِيرٍ مِنْ أَبَاعِرِ الْقَوْمِ فَأَجَازَ تَحْتَهُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا حَبَسَكُمْ"، قُلْنَا: كُنَّا نَتَّبِعُ عِيرَاتِ قُرَيْشٍ، وَذَكَرْنَا لَهُ مِنْ أَمْرِ الدَّابَّةِ، فَقَالَ:" ذَاكَ رِزْقٌ رَزَقَكُمُوهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، أَمَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ؟"، قَالَ: قُلْنَا: نَعَمْ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ایک فوجی مہم میں) بھیجا، ہم تقریباً تین سو دس لوگ تھے، ہمیں توشہ کے بطور کھجور کا ایک تھیلا دیا گیا، وہ ہمیں ایک ایک مٹھی دیتے، پھر جب ہم اکثر کھجوریں کھا چکے تو ہمیں ایک ایک کھجور دینے لگے، یہاں تک کہ ہم اسے اس طرح چوستے جیسے بچہ چوستا ہے اور اس پر پانی پی لیتے، جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں ختم ہونے پر اس کی قدر معلوم ہوئی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم اپنی کمانوں سے پتے جھاڑتے اور اسے چبا کر پانی پی لیتے، یہاں تک کہ ہماری فوج کا نام ہی جیش الخبط (یعنی پتوں والا لشکر) پڑ گیا، پھر جب ہم سمندر کے کنارے پر پہنچے تو ٹیلے کی طرح ایک جانور پڑا ہوا پایا جسے عنبر کہا جاتا ہے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مردہ ہے مت کھاؤ، پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہے اور ہم مجبور ہیں، اللہ کا نام لے کر کھاؤ، چنانچہ ہم نے اس میں سے کھایا اور کچھ گوشت بھون کر سکھا کر رکھ لیا، اس کی آنکھ کی جگہ میں تیرہ لوگ بیٹھے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی لی پھر کچھ لوگوں کو اونٹ پر سوار کیا تو وہ اس کے نیچے سے گزر گئے، جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: ”تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟“ ہم نے عرض کیا: ہم قریش کے قافلوں کا پیچھا کر رہے تھے، پھر ہم نے آپ سے اس جانور (عنبر مچھلی) کا معاملہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخشا ہے، کیا اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں۔
عبدالرحمٰن بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک طبیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوا میں مینڈک کا تذکرہ کیا تو آپ نے اسے مار ڈالنے سے روکا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کو مار کر دوا میں استعمال کرنے سے روکا، کیونکہ یہ نجس و ناپاک ہے اور ناپاک چیزوں سے علاج حرام ہے، نیز مینڈک کو مارنے سے روکنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا کھانا بھی حرام ہے، کیونکہ کھانے کے لیے بھی قتل کرنا پڑتا ہے۔
ابویعفور کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے ٹڈی کے مارنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ جنگیں کی ہیں، ہم (ان میں) ٹڈی کھاتے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا وهب بن بيان، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن سعيد، وابي سلمة , عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ان نملة قرصت نبيا من الانبياء، فامر بقرية النمل فاحرقت، فاوحى الله عز وجل إليه، ان قد قرصتك نملة، اهلكت امة من الامم تسبح". (مرفوع) أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدٍ، وَأَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ نَمْلَةً قَرَصَتْ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَأَمَرَ بِقَرْيَةِ النَّمْلِ فَأُحْرِقَتْ، فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ، أَنْ قَدْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ، أَهْلَكْتَ أُمَّةً مِنَ الْأُمَمِ تُسَبِّحُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک چیونٹی نے نبیوں میں سے ایک نبی کو کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کے گھر کو جلا دینے کا حکم دیا اور وہ جلا دیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی: اگر تمہیں کسی چیونٹی نے کاٹ لیا تھا تو (ایک ہی کو مارتے مگر) تم نے ایک ایسی امت (مخلوق) کو مار ڈالا جو (ہماری) تسبیح (پاکی بیان) کر رہی تھی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 153 (3019)، بدء الخلق 16 (3319)، صحیح مسلم/السلام 39 (2241)، سنن ابی داود/الأدب 176 (5266)، سنن ابن ماجہ/الصید10(3225)، (تحفة الأشراف: 15307، 13319)، مسند احمد (2/403) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس نبی کی شریعت میں کاٹنے والی چیونٹی کو جلانا جائز تھا مگر اسلامی شریعت میں جلانا جائز نہیں ہے۔
(قدسي) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا النضر وهو ابن شميل , قال: انبانا اشعث، عن الحسن:" نزل نبي من الانبياء تحت شجرة فلدغته نملة، فامر ببيتهن فحرق على ما فيها، فاوحى الله إليه فهلا نملة واحدة". وقال الاشعث: عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله، وزاد:" فإنهن يسبحن". (قدسي) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا النَّضْرُ وَهُوَ ابْنُ شُمَيْلٍ , قَالَ: أَنْبَأَنَا أَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ:" نَزَلَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَلَدَغَتْهُ نَمْلَةٌ، فَأَمَرَ بِبَيْتِهِنَّ فَحُرِّقَ عَلَى مَا فِيهَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ فَهَلَّا نَمْلَةٌ وَاحِدَةٌ". وقَالَ الْأَشْعَثُ: عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، وَزَادَ:" فَإِنَّهُنَّ يُسَبِّحْنَ".
حسن بصری سے روایت ہے کہ ایک نبی ایک درخت کے نیچے ٹھہرے تو انہیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے ان کے گھروں کے بارے میں حکم دیا تو ان میں جو بھی تھا اسے جلا دیا گیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی نازل کی: ”آخر تم نے صرف ایک کو کیوں نہ جلایا“۔ اشعث کہتے ہیں: ابن سیرین سے روایت ہے وہ ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کرتے ہیں، اس میں یہ زائد ہے ”اس لیے کہ وہ تسبیح (اللہ کی پاکی بیان) کر رہی تھیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 12257، 14404)، ویأتي عند المؤلف: 4366) (صحیح) (حدیث اور حسن بصری کا اثر دونوں صحیح ہیں)»