سنن نسائي
كتاب الصيد والذبائح
کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
36. بَابُ : الضِّفْدَعِ
باب: مینڈک کا بیان۔
حدیث نمبر: 4360
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ:" أَنَّ طَبِيبًا ذَكَرَ ضِفْدَعًا فِي دَوَاءٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِهِ".
عبدالرحمٰن بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک طبیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوا میں مینڈک کا تذکرہ کیا تو آپ نے اسے مار ڈالنے سے روکا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 11 (3871)، الأدب 177 (5269)، (تحفة الأشراف: 9706)، مسند احمد (3/453، 499)، سنن الدارمی/الأضاحي 26 (2041) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کو مار کر دوا میں استعمال کرنے سے روکا، کیونکہ یہ نجس و ناپاک ہے اور ناپاک چیزوں سے علاج حرام ہے، نیز مینڈک کو مارنے سے روکنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا کھانا بھی حرام ہے، کیونکہ کھانے کے لیے بھی قتل کرنا پڑتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4360 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4360
اردو حاشہ:
(1) مینڈک کے متعلق حکم شریعت یہ ہے کہ وہ حرام ہے۔ بوقت ضرورت بھی رسول اللہ ﷺ نے اس کے استعمال کی اجازت نہیں دی۔ آپ کا اجازت نہ دینا ہی اس کی حرمت کی دلیل ہے۔
(2) مینڈک اگرچہ آبی جانور ہے لیکن یہ پانی سے باہر بھی زندہ رہ سکتا ہے بلکہ عرصہ دراز تک باہر پھرتا رہتا ہے، لہٰذا اسے آبی جانوروں والا حکم نہیں دیا جاسکتا، یعنی اسے حلال نہیں کہا جائے گا۔
(3) ”منع فرما دیا“ مقصد یہ ہے کہ مینڈک کو دوا کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قتل کیے بغیر تو اسے دوا میں ڈالنے سے رہے۔ جب قتل حرام ہے تو اس کو بطور دوا استعمال کرنا بھی حرام ہے کیونکہ یہ پلید جانور ہے یا کم از کم قابل نفرت تو ضرور ہے۔ تبھی آپ نے اس کے قتل سے منع فرمایا۔ قتل سے نہی بھی حرمت کی علامت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4360
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1146
´(کھانے کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبدالرحمٰن بن عثمان قرشی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک طبیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مینڈک کے بطور دوا استعمال کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کرنے سے منع فرمایا۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1146»
تخریج: «أخرجه أحمد:3 /499، وصححه الحاكم:4 /411 ووافقه الذهبي، وأبوداود، الطب، باب في الأدوية المكروهة، حديث:3871، والنسائي، الصيد، حديث:4360.»
تشریح:
اس حدیث کی رو سے مینڈک دوا میں استعمال کرنے کی غرض سے مارنا بھی ممنوع ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ یہ حرام ہے۔
اگرچہ یہ پانی کا جانور ہے مگر ہفتوں اور مہینوں پانی کے بغیر بھی زندہ رہتا ہے‘ اس لیے مچھلی کے حکم سے خارج ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1146
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3871
´ناجائز اور مکروہ دواؤں کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک طبیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوا میں مینڈک کے استعمال کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک قتل کرنے سے منع فرمایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3871]
فوائد ومسائل:
مینڈک کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کا دوا وغیرہ میں استعمال بھ حرام ہے۔
اگرچہ یہ پانی کا جانور ہے، مگر ہفتوں اور مہینوں پانی کے بغیر بھی زندہ رہتا ہے، اس لیئے مچھلی کے حکم سے خارج ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3871
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5269
´مینڈک مارنے کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن عثمان سے روایت ہے کہ ایک طبیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مینڈک کو دوا میں استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مارنے سے منع فرمایا۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5269]
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اس کا کھانا حلال نہیں ہے اور یہ پانی کے ان جانوروں میں شمار نہیں جن کا کھانا حلال ہے۔
(عون المعبود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5269