سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
The Book of Hunting and Slaughtering
37. بَابُ : الْجَرَادِ
37. باب: ٹڈی کا بیان۔
Chapter: Locusts
حدیث نمبر: 4361
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا حميد بن مسعدة، عن سفيان وهو ابن حبيب , عن شعبة، عن ابي يعفور، سمع عبد الله بن ابي اوفى، قال:" غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سبع غزوات فكنا ناكل الجراد".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ سُفْيَانَ وَهُوَ ابْنُ حَبِيبٍ , عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي يَعْفُورَ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، قَالَ:" غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ فَكُنَّا نَأْكُلُ الْجَرَادَ".
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات جنگیں کیں، ہم (ان میں) ٹڈی کھاتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید 13 (5495)، صحیح مسلم/الصید 8 (1952)، سنن ابی داود/الأطعمة 35 (3812)، سنن الترمذی/الأطعمة10 (1821)، (تحفة الأشراف: 8182) مسند احمد (4/353، 357، 380)، سنن الدارمی/الصید 5 (2053) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري5495عبد الله بن علقمةنأكل معه الجراد
   صحيح مسلم5045عبد الله بن علقمةنأكل الجراد
   سنن أبي داود3812عبد الله بن علقمةكنا نأكله معه
   سنن النسائى الصغرى4362عبد الله بن علقمةنأكل الجراد
   سنن النسائى الصغرى4361عبد الله بن علقمةكنا نأكل الجراد
   بلوغ المرام1137عبد الله بن علقمة0
   مسندالحميدي730عبد الله بن علقمةغزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ست غزوات أو سبع، فكنا نأكل الجراد

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4361 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4361  
اردو حاشہ:
اس ٹڈی سے مراد وہ ٹڈی نہیں جو عام گھروں میں ہوتی ہے بلکہ اس سے مراد وہ ٹڈی ہے جسے مکڑی بھی کہا جاتا ہے، وہ جو فصلوں کو بھی چٹ کر جاتی ہے۔ یہ حلال جانور ہے۔ اس کو ذبح کرنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: [أُحِلَّتْ لنا مَيْتتانِ و دَمانِ،  الجرادُ والحيتانُ والكبدُ والطحالُ ] ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کیے گئے ہیں۔ دو مردار (جنھیں ذبح نہ کیا گیا ہو) ٹڈی (مکڑی) اور مچھلی ہیں۔ اور دو خون جگر اور تلی ہیں۔ (مسند أحمد: 2/ 97 وسنن الکبریٰ للبیهقي: 1/ 254) اس میں بھی مچھلی کی طرح دم مسفوح ہے (بہنے والا خون) نہیں ہوتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4361   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4362  
´ٹڈی کا بیان۔`
ابویعفور کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے ٹڈی کے مارنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ جنگیں کی ہیں، ہم (ان میں) ٹڈی کھاتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4362]
اردو حاشہ:
چھ جنگوں میں سابقہ روایت میں سات جنگوں کا ذکر ہے۔ چھ، سات کے منافی نہیں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4362   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3812  
´ٹڈی کھانے کا بیان۔`
ابویعفور کہتے ہیں میں نے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا اور میں نے ان سے ٹڈی کے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ یا سات غزوات کئے اور ہم اسے آپ کے ساتھ کھایا کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3812]
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ ایک پردار کیڑا ہے جو فصلوں کو تباہ کرتا ہے۔
حلال ہونے کی وجہ سے اسے ذبح کیے بغیر کھایا جاتا ہے۔
معروف حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ہمارے لئے مرے ہوئے (بغیر ذبح) دو جانور حلال کئے گئے ہیں۔
ایک مچھلی دوسرا ٹڈی۔
(سنن ابن ماجة، الصید، حدیث: 3218)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3812   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5045  
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی، ہم مکڑی کھاتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5045]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مکڑی کی اباحت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے،
ابن العربی مالکی نے اندلس کی مکڑی (ٹڈی)
کو اس کے زہریلی ہونے کی بنا پر مستثنیٰ قرار دیا ہے،
امام شافعی،
امام ابوحنیفہ،
امام احمد اور جمہور فقہاء کا نظریہ ہے کہ مکڑی (ٹڈی)
خود مر جائے،
یا اسے کوئی کسی طریقہ سے مارے،
وہ حلال ہے،
لیکن امام مالک کا مشہور قول یہی ہے کہ اگر وہ خود مر جائے تو حلال نہیں ہے،
اگر اس کو مارا جائے مثلا اس کے بعض اعضاء کاٹ دئیے جائیں،
یا اسے پانی میں جوش دیا جائے یا آگ میں بھون لیا جائے تو پھر حلال ہے،
(شرح نووی)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5045   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5495  
5495. سیدنا ابن ابی اوفی‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ساتھ مل کر چھ یا سات جنگیں لڑیں ہم آپ کے ہمراہ ٹڈی کھایا کرتے تھے سفیان ابو عوانہ اور اسرائیل نے ابو یعفور سے بیان کیا اور ان سے ابن ابی اوفی ؓ نے ساتھ غزوات کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5495]
حدیث حاشیہ:
ٹڈی کھانا بلا تردد جائز ہے۔
یہ عطیہ بھی ہے اور عذاب بھی کیونکہ جہاں ان کا حملہ ہو جائے کھےتیاں برباد ہو جاتی ہیں۔
إلاما شاءاللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5495   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5495  
5495. سیدنا ابن ابی اوفی‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ساتھ مل کر چھ یا سات جنگیں لڑیں ہم آپ کے ہمراہ ٹڈی کھایا کرتے تھے سفیان ابو عوانہ اور اسرائیل نے ابو یعفور سے بیان کیا اور ان سے ابن ابی اوفی ؓ نے ساتھ غزوات کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5495]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے کھاتے تھے۔
(فتح الباري: 769/9)
لیکن حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹڈی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
یہ اللہ کے بہت بڑے بڑے لشکروں میں سے ہے، نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام ٹھہراتا ہوں۔
(سنن أبي داود، الأطمعة، حدیث: 3813)
لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور امام ابو داود رحمہ اللہ نے اس کے مرسل ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اسے ایک روایت میں سمندر کا شکار کہا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حج یا عمرے کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلے تو ہمارا ٹڈی دل سے سامنا ہوا۔
ہم نے انہیں اپنی جوتیوں اور لاٹھیوں سے مارنا شروع کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسے کھاؤ، یہ تو سمندر کا شکار ہے۔
(سنن ابن ماجة، الصید، حدیث: 3222)
لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 768/9) (2)
امام نووی رحمہ اللہ نے اس کے حلال ہونے پر اجماع نقل کیا ہے، البتہ امام ابن العربی نے حجاز اور اندلس کی ٹڈی کے متعلق تفصیل بیان کی ہے کہ اندلس میں پائی جانے والی ٹڈی زہریلی اور نقصان دہ ہے، لہذا اسے نہ کھایا جائے۔
اگر یہ بات صحیح ہے تو اسے حلال ہونے سے مستثنیٰ قرار دینا قرین قیاس ہے۔
(فتح الباري: 769/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5495   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.