(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يزيد بن زريع، قال: حدثنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت:" جاءت امراة رفاعة القرظي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وابو بكر عنده، فقالت: يا رسول الله، إني كنت تحت رفاعة القرظي، فطلقني البتة، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، وإنه والله يا رسول الله ما معه إلا مثل هذه الهدبة، واخذت هدبة من جلبابها، وخالد بن سعيد بالباب , فلم ياذن له، فقال: يا ابا بكر، الا تسمع هذه تجهر بما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" تريدين ان ترجعي إلى رفاعة، لا، حتى تذوقي عسيلته، ويذوق عسيلتك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ عِنْدَهُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ تَحْتَ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ، فَطَلَّقَنِي الْبَتَّةَ، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَإِنَّهُ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هَذِهِ الْهُدْبَةِ، وَأَخَذَتْ هُدْبَةً مِنْ جِلْبَابِهَا، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ بِالْبَاب , فَلَمْ يَأْذَنْ لَهُ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَا تَسْمَعُ هَذِهِ تَجْهَرُ بِمَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لَا، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ، وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں رفاعہ قرظی کی بیوی تھی اس نے مجھے طلاق بتہ دے دی ہے تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، اور اللہ کے رسول! قسم اللہ کی ان کے پاس تو اس جھالر جیسی چیز کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎ انہوں نے اپنی چادر کا پلو پکڑ کر یہ بات کہی۔ اس وقت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی، انہوں نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے) کہا: ابوبکر! آپ سن رہے ہیں نا جو یہ زور زور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس عورت سے) کہا: تم رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو، یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ تم اس کے شہد کا مزہ نہ چکھ لو اور وہ تمہارے شہد کا مزہ نہ چکھ لے۔
(مرفوع) اخبرنا علي بن نصر بن علي، قال: حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد، قال: قلت لايوب: هل علمت احدا، قال في امرك بيدك، انها ثلاث غير الحسن؟ فقال: لا، ثم قال: اللهم غفرا، إلا ما حدثني قتادة، عن كثير مولى ابن سمرة، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ثلاث" , فلقيت كثيرا، فسالته فلم يعرفه، فرجعت إلى قتادة فاخبرته، فقال: نسي، قال ابو عبد الرحمن: هذا حديث منكر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَيُّوبَ: هَلْ عَلِمْتَ أَحَدًا، قَالَ فِي أَمْرِكِ بِيَدِكِ، أَنَّهَا ثَلَاثٌ غَيْرَ الْحَسَنِ؟ فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ غَفْرًا، إِلَّا مَا حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى ابْنِ سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" ثَلَاثٌ" , فَلَقِيتُ كَثِيرًا، فَسَأَلْتُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ، فَرَجَعْتُ إِلَى قَتَادَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: نَسِيَ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.
حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایوب سے کہا: کیا آپ حسن کے سوا کسی کو جانتے ہیں؟ جو «أمرک بیدک» کہنے سے تین طلاقیں لاگو کرتا ہو؟ انہوں نے کہا نہیں (میں کسی کو بھی نہیں جانتا) پھر انہوں نے کہا: اللہ انہیں بخش دے اب رہی قتادہ کی حدیث جو انہوں نے مجھ سے کثیر مولی ابن سمرۃ سے روایت کی ہے اور کثیر نے ابوسلمہ سے انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تین طلاقیں ہوتی ہیں“ تو (اس کا حال یہ ہے کہ) میری ملاقات کثیر سے ہوئی میں نے ان سے (اس حدیث کے متعلق) پوچھا تو انہوں نے اسے پہچانا ہی نہیں (کہ میں نے ایسی کوئی روایت کی ہے) میں لوٹ کر قتادہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی (کہ وہ ایسا کہتے ہیں) تو قتادہ نے کہا کہ وہ بھول گئے (انہوں نے ایسی بات کہی ہے)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق13 (2204، 2205) مختصرا، سنن الترمذی/الطلاق 3 (1178)، (تحفة الأشراف: 14992) (مرفوعا ضعیف، موقوفا صحیح) (مرفوع کی سند میں ”کثیر“ لین الحدیث ہیں، اور قتادہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے مرفوع حدیث ضعیف ہے، اور مؤلف نے بھی حدیث کو منکر کہا ہے، لیکن حسن کے قول کی سند صحیح ہے، اس لیے اثر موقوفا صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (2204،2205) ترمذي (1178) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 347
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: جاءت امراة رفاعة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: إن زوجي طلقني، فابت طلاقي، وإني تزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير، وما معه إلا مثل هدبة الثوب، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال:" لعلك تريدين ان ترجعي إلى رفاعة، لا، حتى يذوق عسيلتك، وتذوقي عسيلته". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ زَوْجِي طَلَّقَنِي، فَأَبَتَّ طَلَاقِي، وَإِنِّي تَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَمَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور (آپ سے) کہا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور طلاق بھی بتہ دی (کہ وہ رجوع نہیں کر سکتے) تو اس کے بعد میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، لیکن ان کے پاس تو اس کپڑے کے جھالر جیسے کے سوا کچھ نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: ”لگتا ہے رفاعہ سے تم دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہو؟ (سن لو) تو رفاعہ کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک کہ وہ (یعنی دوسرا شوہر) تمہارے شہد کا مزہ نہ چکھ لے اور تم اس کے شہد کا“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثني عبيد الله، قال: حدثني القاسم، عن عائشة , ان رجلا طلق امراته ثلاثا، فتزوجت زوجا فطلقها، قبل ان يمسها، فسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: اتحل للاول؟ فقال:" لا حتى يذوق عسيلتها، كما ذاق الاول". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ، عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا فَطَلَّقَهَا، قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ فَقَالَ:" لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا، كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو اس عورت نے دوسرے شخص سے شادی کر لی۔ اس (دوسرے شخص) نے اس سے جماع کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا (ایسی صورت میں) وہ عورت پہلے والے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک کہ وہ (دوسرا) اس کے شہد کا مزہ نہ لے لو جس طرح اس کے پہلے شوہر نے مزہ چکھ لیا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جب دوسرا شوہر اس سے مکمل صحبت کر لے گا اور طلاق دیدے گا یا انتقال کر جائے گا تو وہ عدت گزار کر پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی بشرطیکہ وہ اس سے دوبارہ نکاح کرے۔
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: انبانا هشيم، قال: انبانا يحيى بن ابي إسحاق، عن سليمان بن يسار، عن عبيد الله بن عباس , ان الغميصاء او الرميصاء اتت النبي صلى الله عليه وسلم تشتكي زوجها، انه لا يصل إليها، فلم يلبث ان جاء زوجها، فقال: يا رسول الله، هي كاذبة وهو يصل إليها، ولكنها تريد ان ترجع إلى زوجها الاول، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس ذلك حتى تذوقي عسيلته". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّ الْغُمَيْصَاءَ أَوْ الرُّمَيْصَاءَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْتَكِي زَوْجَهَا، أَنَّهُ لَا يَصِلُ إِلَيْهَا، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ زَوْجُهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هِيَ كَاذِبَةٌ وَهُوَ يَصِلُ إِلَيْهَا، وَلَكِنَّهَا تُرِيدُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى زَوْجِهَا الْأَوَّلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ ذَلِكَ حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".
عبیداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ غمیصاء یا رمیصاء نامی عورت اپنے شوہر کی شکایت لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی کہ وہ اس کے پاس نہیں آتا، ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اس کا شوہر بھی آ گیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! یہ جھوٹی عورت ہے، وہ اس کے پاس جاتا ہے، لیکن یہ اپنے پہلے شوہر کے پاس لوٹنا چاہتی ہے (اس لیے ایسا کہہ رہی ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تمہارے لیے ممکن نہیں ہے جب تک کہ تم اس کا شہد چکھ نہ لو“۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آدمی کی بیوی ہوتی ہے وہ اسے طلاق دے دیتا ہے، پھر اس سے دوسرا شخص شادی کر لیتا ہے، پھر وہ دوسرا شخص اس سے جماع کیے بغیر طلاق دے دیتا ہے، تو وہ اپنے پہلے شوہر کی طرف لوٹ جانا چاہتی ہے؟ تو اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ عورت ایسا نہیں کر سکتی جب تک کہ اس (دوسرے شوہر) کے شہد کو نہ چکھ لے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 32 (1933)، (تحفة الأشراف: 7083) مسند احمد (2/85) (صحیح بما قبلہ)»
(مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان، قال: حدثنا وكيع، قال: حدثنا سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن رزين بن سليمان الاحمري، عن ابن عمر، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الرجل يطلق امراته ثلاثا، فيتزوجها الرجل فيغلق الباب: ويرخي الستر، ثم يطلقها قبل ان يدخل بها؟ قال:" لا تحل للاول، حتى يجامعها الآخر" , قال ابو عبد الرحمن: هذا اولى بالصواب. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ رَزِينِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْأَحْمَرِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، فَيَتَزَوَّجُهَا الرَّجُلُ فَيُغْلِقُ الْبَاب: وَيُرْخِي السِّتْرَ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا؟ قَالَ:" لَا تَحِلُّ لِلْأَوَّلِ، حَتَّى يُجَامِعَهَا الْآخَرُ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا أَوْلَى بِالصَّوَابِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو تین طلاقیں (مغلظہ) دے دیتا ہے پھر اس سے دوسرا آدمی نکاح کر لیتا ہے اور (اسے لے کر) دروازہ بند کر لیتا ہے، پردے گرا دیتا ہے، (کہ کوئی اندر نہ آ سکے) پھر اس سے جماع کیے بغیر اسے طلاق دے دیتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ پہلے والے شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو گی جب تک اس کا دوسرا شوہر اس سے جماع نہ کر لے“۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث صواب سے قریب تر ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 6715)، مسند احمد (2/25، 62، 85) (صحیح) (اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور، قال: حدثنا ابو نعيم، عن سفيان، عن ابي قيس، عن هزيل، عن عبد الله، قال:" لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الواشمة والموتشمة، والواصلة والموصولة، وآكل الربا وموكله، والمحلل والمحلل له". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ هُزَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاشِمَةَ وَالْمُوتَشِمَةَ، وَالْوَاصِلَةَ وَالْمَوْصُولَةَ، وَآكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ، وَالْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے گودنے اور گودانے والی پر اور بالوں کو (بڑا کرنے کے لیے) جوڑنے والی اور جوڑوانے والی پر اور سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر اور حلالہ کرنے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اس پر۔
(مرفوع) اخبرنا الحسين بن حريث، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، قال: حدثنا الاوزاعي، قال: سالت الزهري عن التي استعاذت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اخبرني عروة، عن عائشة:" ان الكلابية لما دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: اعوذ بالله منك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لقد عذت بعظيم الحقي باهلك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ عَنِ الَّتِي اسْتَعَاذَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ:" أَنَّ الْكِلَابِيَّةَ لَمَّا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ الْحَقِي بِأَهْلِكِ".
اوزاعی کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (بچنے کے لیے، اللہ کی) پناہ مانگی تھی تو انہوں نے کہا: عروہ نے مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بیان کی ہے کہ کلابیہ (فاطمہ بنت ضحاک بن سفیان) جب (منکوحہ کی حیثیت سے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئی اور (اپنی سادہ لوحی سے دوسری ازواج کے سکھا پڑھا دینے کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی) کہہ بیٹھی «أعوذباللہ منک»”میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فوراً) کہا تم نے تو بہت بڑی ذات گرامی کی پناہ مانگ لی ہے، جاؤ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ (یہ کہہ کر گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دے دی)۔
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا عبد الرحمن، عن سفيان، عن ابي بكر وهو ابن ابي الجهم، قال: سمعت فاطمة بنت قيس، تقول: ارسل إلي زوجي بطلاقي، فشددت علي ثيابي، ثم اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" كم طلقك؟" فقلت: ثلاثا، قال:" ليس لك نفقة، واعتدي في بيت ابن عمك، ابن ام مكتوم، فإنه ضرير البصر، تلقين ثيابك عنده، فإذا انقضت عدتك، فآذنيني"، مختصر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي الْجَهْمِ، قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، تَقُولُ: أَرْسَلَ إِلَيَّ زَوْجِي بِطَلَاقِي، فَشَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" كَمْ طَلَّقَكِ؟" فَقُلْتُ: ثَلَاثًا، قَالَ:" لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ، وَاعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ، ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ ضَرِيرُ الْبَصَرِ، تُلْقِينَ ثِيَابَكِ عِنْدَهُ، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُكِ، فَآذِنِينِي"، مُخْتَصَرٌ.
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق کہلا بھیجی تو میں اپنے کپڑے اپنے آپ پر لپیٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (نفقہ و سکنی کا مطالبہ لے کر) پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے تمہیں کتنی طلاقیں دی ہیں؟“ میں نے کہا: تین، آپ نے فرمایا: ”پھر تو تمہیں نفقہ نہیں ملے گا تم اپنی عدت کے دن اپنے چچا کے بیٹے ابن ام مکتوم کے گھر میں پورے کرو کیونکہ وہ نابینا ہیں، تم ان کے پاس رہ کر بھی اپنے کپڑے اتار سکتی ہو پھر جب تمہاری عدت کے دن پورے ہو جائیں تو مجھے خبر دو“، یہ حدیث طویل ہے، یہاں مختصر بیان ہوئی ہے۔