سنن نسائي
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
13. بَابُ : إِحْلاَلِ الْمُطَلَّقَةِ ثَلاَثًا وَمَا فِيهِ مِنَ التَّغْلِيظِ
باب: تین طلاق والی عورت سے حلالہ کرنے اور کرانے والے کے لیے وارد وعید کا بیان۔
حدیث نمبر: 3445
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ هُزَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاشِمَةَ وَالْمُوتَشِمَةَ، وَالْوَاصِلَةَ وَالْمَوْصُولَةَ، وَآكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ، وَالْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے گودنے اور گودانے والی پر اور بالوں کو (بڑا کرنے کے لیے) جوڑنے والی اور جوڑوانے والی پر اور سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر اور حلالہ کرنے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اس پر۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/النکاح 28 (1120) مختصراً، (تحفة الأشراف: 9595)، مسند احمد (1/448، 462، سنن الدارمی/النکاح 53 (2304) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3445 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3445
اردو حاشہ:
(1) یہ لوگ چونکہ فطرت انسانی کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ اس لیے لعنت کے مستحق ہیں۔
(2) ”رنگ بھرنے والی“ جسم کو پہلے سوئی کے ساتھ چھیدا جاتا ہے‘ پھر ان سوراخوں میں سرمہ یا نیل ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ رنگ بعد میں سبز یا نیلگیوں نظر آتا ہے۔ اس کا میں غیر ضرورتی تکلف ہے۔ صرف حصول حسن کے لیے اپنے آپ کو چھیدنا فطرت کے خلاف ہے۔ حسن اصل نہیں‘ انسان اصل ہے۔
(3) ”بال ملانے والی“ اصل بالوں کے ساتھ زائد جعلی بال ملانا دھوکا دہی اور جعل سازی ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ سود دینے والا چونکہ اس نظام فاسد کو قائم رکھنے میں ممد ہے‘ اس لیے اسے بھی سود کے حکم میں شریک کردیا گیا۔
(4) ”سود لینے دینے والا“ سود کی بنیاد کنجوسی اور خود غرضی ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ سود دینے والا چونکہ اس نظام فاسد کو قائم رکھنے میں ممد ہے،اس لیے اسے بھی سود کے حکم میں شریک کر دیا گیا۔
(5) ”حلالہ کرنے والا“ یعنی مطلقہ عورت سے اس نیت سے نکاح کرنے والا کہ ایک دو دن جماع کے بعد چھوڑ دوں گا‘ یہ انسانی فطرت کے بجائے حیوانی فطرت ہے۔ انسانی فطرت تو مستقل نکاح کا تقاضا کرتی ہے جو انتہائی پاکیزہ عمل ہے جب کہ ”حلالہ“ تو سانڈ کی فطرت ہے اور انسانی فطرت کو مسخ کرنے والی چیزہے‘ لہٰذا یہ ملعون فعل ہے اور ایسا فعل نکاح کی بجائے زنا ہے۔ اس سے حلت جیسا پاکیزہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ بعض حلیہ ساز لوگوں نے اسے مشروع بنا دیا ہے۔ افسوس! ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3445
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5102
´منہ کے روئیں اکھاڑنے والی عورتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی، گودوانے والی، پیشانی کے بال اکھاڑنے والی، خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کروانے والی، اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیز کو بدلنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5102]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے جسم کو گودنے، گدوانے اور چہرے یا ابرو وغیرہ سے بال اکھیڑنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے، نیز خوبصورتی کے لیے دانت رگڑنا اور رگڑوانا بھی حرام ہے اور ان سب کی وحۂ حرمت اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے۔
(2) حسن کی خاطر اس قسم کا بناؤ سنگھار حرام ہے، ہاں اگر یہ کام بغرض علاج یا کسی نقص وعیب کے ازالے کی خاطر کیے جائیں تو پھر کوئی حرج نہیں، مثلاً: اگر عورت کے چہرے پر ڈاڑھی اگ آئے تویہ اس کے لیے عیب ہے، اس لیے اس کاازالہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ واللہ أعلم مزید تفصیل کےلیے دیکھئے: (شرح صحیح مسلم للنووی:14؍150۔152)
(3) ”بال اکھیڑنا“ اس کی وضاحت حدیث نمبر:5094 میں گزر چکی ہے۔ یادرہے کہ جن بالوں کو شریعت نے ختم کرنے کا حکم دیا ہے، وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، مثلاً: بغلوں کے بال، نیز جس طرح عورتوں کے لیے مذکورہ بالوں کے علاوہ بال اکھیڑنے منع ہیں، اسی طرح حسن کی خاطر مرد بھی بال نہیں اکھیڑسکتے، مثلاً: ڈاڑھی یا ابرو کے بال اکھیڑنا مردوں کے لیے بھی ممنوع ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5102
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5112
´دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرنے والی عورتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے بال اکھاڑنے والی، گودوانے والی اور دانتوں میں کشادگی کرانے والی عورتوں پر، جو اللہ تعالیٰ کی خلقت کو تبدیل کرتی ہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5112]
اردو حاشہ:
”تبدیل کرتی ہیں“ گویا ایسے کام جنہیں عورتیں خوب صورتی کے لیے اختیار کرتی ہیں، حقیقتاً وہ انسانی فطری صورت کو بگاڑنے کے مترادف ہیں۔ اگرچہ مزاج خراب ہونے کی وجہ سے وہ اسے خوب صورتی تصور کرتی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اصل حسن و جمال وہ ہے جو اللہ تعالی نے ہر مرد عورت کو خود عطا فرمایا ہے۔ اصل تخلیق الہٰی سے اعراض او رعدول بدصورتی تو ہو سکتی ہے، خوبصورتی قطعاً نہیں ہوسکتی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5112
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5255
´چہرہ کے روئیں اکھاڑنے والی اور دانتوں کے درمیان کشادگی کرنے والی عورتوں پر وارد لعنت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جسم پر) گودنا گودنے والی، خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کروانے والی، پیشانی کے بال اکھاڑنے والی اور اللہ کی بنائی ہوئی چیز کو بدلنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5255]
اردو حاشہ:
تفصیل کےلیے دیکھیے حدیث: 5112۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5255
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3333
´سود کھانے اور کھلانے والے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کے لیے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب (لکھنے والے) پر لعنت فرمائی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3333]
فوائد ومسائل:
سود لینا دینا اور باطل کا کسی طرح سے تعاون کرنا حرام ہے۔
بالخصوص سودی معاملہ لعنت کا کام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3333
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1989
´بالوں کو جوڑنے اور گودنا گودنے والی عورتوں پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں، بال اکھیڑنے والیوں، خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں، اور اللہ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے، قبیلہ بنو اسد کی ام یعقوب نامی ایک عورت کو یہ حدیث پہنچی تو وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی: مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ ایسا ایسا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے، اور یہ بات تو اللہ تعا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1989]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بال نوچنے سے مراد چہرے وغیرہ کے بال ہیں جو عورتوں کے جسم پر اچھے نہیں لگتے انہیں اکھاڑنا اور تھریڈنگ وغیرہ شرعاً منع ہے۔
ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کا رنگ اس طرح کا کر لیا جائے کہ نمایاں محسوس نہ ہوں-
(2)
بعض افراد کے ابر و درمیان سے ملے ہوئے ہو تے ہیں وہ انہیں درمیان سے مونڈ کر فاصلہ پیدا کرلیتے ہیں، یا عورتیں ابر و باریک کرنے کے لیے انہیں (اوپر یا نیچے سے)
مونڈ دیتی ہیں۔
یہ سب منع ہے، اور اسی ممنوع کام میں شامل ہے-
(3)
عربوں میں یہ بات بھی حسن شمار ہوتی تھی کہ سامنے کے دانت، باہم ملے ہو ئے نہ ہوں۔
اس مقصد کے لیے عورتیں دانتوں کو درمیان سے رگڑ کرفاصلہ پیدا کر لیتی تھیں، یہ عمل جائز نہیں۔
(4)
مردوں کا ڈاڑھی کا خط بنوانا یعنی رخساروں پر سے مونڈ دینا بھی اس قسم کا عمل ہے کیونکہ پوری ڈاڑہی رکھنا شرعا مطلوب ہے اور رخساروں کے بالوں کو ڈاڑھی سے خارج کرنے کی کوئی قابل اعتماد دلیل موجود نہیں-
(5)
عالم آدمی کو اپنے گھر والوں کے اعمال کا خاص طور پر خیا ل رکھنا چاہیے کیوکہ اس کی غلطی دوسروں کےلیے جواز بن جاتى ہے-
(6)
حدیث کے مسائل قرآن مجید کے برابر اہمیت رکھتے ہیں جو حدیث محدثین کے اصول کےمطابق صحیح ہو، اس پر عمل کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح قرآ ن کےعمل ضروری نہیں ہے۔
(7)
اگر عالم کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے تو اسے چاہیے فوراً اس کا ازالہ کرے-
(8)
صحابہ کرام کی نظر میں احکام شریعت کی اس قدر اہمیت تھی کہ ان کی خلاف درزی پر وہ بیوی کو طلاق بھی دے سکتے تھے۔
(9)
جو عورت نیکی کی راہ میں رکاوٹ بنے اور سمجھانے پر بھی باز نہ آئے، اس کی بات ماننے کی بجائے اس سے الگ ہو جانا بہتر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1989
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2277
´حرمت سود میں وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے کھانے والے پر، کھلانے والے پر، اس کی گواہی دینے والے پر، اور اس کا حساب لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2277]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سود کی تمام صورتیں حرام اور اللہ کی لعنت کا باعث ہیں۔
(2)
جس طرح سود لینا کبیرہ گناہ ہے اسی طرح سود دینا بھی کبیرہ گناہ ہے، لہٰذا سود کی بنیاد پر قرض لینا بھی حرام ہے، خواہ یہ سود بنکوں سے لیا جائے یا کاروباری افراد سے۔
(3)
حرام کام میں کسی بھی انداز سے تعاون کرنا حرام ہے۔
اور تعاون کرنے والا برابر کا گناہ گار ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2277
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1206
´سود خوری کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1206]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے سود کی حرمت سے شدّت ظاہرہوتی ہے کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ گواہوں اور معاہدہ لکھنے والوں پر بھی لعنت بھیجی گئی ہے،
حالانکہ مؤخرالذکردونوں حضرات کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا،
لیکن صرف یک گونہ تعاون کی وجہ سے ہی ان کوبھی ملعون قراردے دیا گیا،
گویا سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اورغضب الٰہی کا باعث ہے کیونکہ سود کی بنیاد خود غرضی،
دوسروں کے استحصال اورظلم پرقائم ہوتی ہے اوراسلام ایسا معاشرہ تعمیرکرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد بھائی چارہ،
اخوت ہمدردی،
ایثار اور قربانی پرہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1206
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:97
97- علقمہ بیان کرتے ہیں: بنواسد سے تعلق رکھنے والی ایک عورت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس نے ان سے کہا: مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ آپ فلاں، فلاں پر اور جسم گودنے والی اور گودوانے والی عورتوں پر لعنت کرتے ہیں؟ حالانکہ میں نے قرآن پڑھ لیا ہے مجھے اس میں یہ حکم نہیں ملا، جو آپ کہتے ہیں اور میرا خیال آپ کی بیگم بھی ایسا کرتی ہیں، تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس خاتون سے کہا: تم جاؤ اور جا کر خود جائزہ لو۔ وہ عورت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر گئی اس نے وہاں کا جائزہ لیا تو اسے وہاں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ راوی کہتے ہیں: سیدنا عبدالل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:97]
فائدہ:
اس حدیث میں اہم امور درج ذیل ہیں: پہلے دور کی عورتیں قرآن کریم پر مکمل عبور رکھتی تھیں۔ اگر کسی مسئلے پر بحث کرنا ہوتی تھی تو وہ ہچکچاتی نہیں تھیں۔ کاش! آج کی مسلمان عورت بھی قرآن کریم کے ترجمہ تفسیر پر عبور حاصل کر لے تاکہ خواتین میں فتنے وفساد کم ہوں اور وہ جہنم سے بچ کر جنت کی راہ پر گامزن ہوں۔ سوال کرنے والی عورت کا نام”ام یعقوب“ تھا۔ (صحیح مسلم: 2125، سنن ابن ماجه: 1989)
غیر محرم عورت کی آواز پردہ نہیں ہے، وہ غیر محرم مرد سے دینی مسائل پر گفتگو کر سکتی ہے۔ الواشمہ سے مراد”کھال کو سوئی سے گود کر نیل چھٹرکناہے“۔ اکـمـال المعلم (329/6) میں ہے کہ خواہ یہ ہاتھ میں ہو یا جسم کے کسی بھی حصے میں ہو۔ مسند حمیدی میں یہ حدیث مختصر ہے اور سنن ابن ماجہ (1989) میں مفصل ہے۔ اس میں یہ اضافہ ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گود نے والیوں پر، گدوانے والیوں پر، بال نوچنے والیوں پر، حسن کے لیے دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے۔“ یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم دین کو خود اور اپنے اہل وعیال کے اعمال کا خاص خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ اس کی غلطی دوسروں کے لیے سند جواز گمان کر لی جاتی ہے، حالانکہ یہ بات غلط ہے، کیونکہ عالم دین نبی نہیں ہوتا بلکہ عام انسان ہوتا ہے۔ گناہ کا سرزد ہو جانا اس سے ممکن ہے اور اسے اس کے اہل وعیال کے عمل کی وجہ سے ڈانٹنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس کی ذمہ داری انھیں تبلیغ کرنا ہے، اگر کوئی اہل وعیال میں سے نہیں مانتا تو اس کی سزا اس پر ہے نہ کہ عالم دین پر۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث حجیت کے اعتبار سے برابر ہیں۔ اگر کسی بھی انسان کے متعلق غلط فہمی پیدا ہو جائے تو اسے جلد از جلد دور کرنا چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود بھی دین پر کار بند تھے اور ان کے اہل وعیال بھی پابند تھے۔ وہ دین پر عمل کرنے میں سستی سے کام نہیں لیتے تھے، جس طرح کہ ہمارے دور میں ہے۔ اے اللہ! ہمیں اور ہمارے اہل وعیال کو دین اسلام پر چلا اور دینی احکام و مسائل کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرما، آمین۔ بیوی کو نیکی کے کاموں میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، ورنہ ایسی بیوی سے جدائی بہتر ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 98
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5573
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، گودنے والی اور گدوانے کا مطالبہ یا خواہش کرنے والی، بال اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے کا مطالبہ کرنے والی اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والی، جو اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرتی ہیں، اللہ نے لعنت بھیجی ہے، یہ بات بنو اسد کی ایک عورت ام یعقوب نامی تک پہنچی، جو قرآن کی تلاوت کرتی رہتی تھی تو وہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگی، وہ بات کیا ہے جو مجھے آپ کی طرف سے پہنچی ہے کہ آپ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5573]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نامصات:
بال اکھیڑنے والی جو چہرے کے بال اکھیڑتی ہےاور متنمصات،
جو دوسری عورت سے بال اکھڑواتی ہے،
عام طور پر عورتیں یہ کام حسن وزیبائش کے لیے پلکوں اور چہرے کے اطراف میں کرتی ہیں،
احناف کے نزدیک عورت کے لیے داڑھی،
مونچھیں اور بچہ کے بال زائل کرنا درست ہے اور شوافع کا بھی یہی موقف ہے،
لیکن امام طبری،
نے اس کو بھی ناجائز قرار دیا ہے،
جبکہ امام نووی اس ازالہ کو مستحب قرار دیتے ہیں۔
(2)
متفلجات:
رباعی اور ثنایا دانتوں کوریتی کے ذریعہ باریک کرنا تاکہ درمیان میں کشادگی پیدا ہو اور عورت کم عمر نظر آئے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
اپنے بدن اور جسم میں حسن و جمال کی خاطر کمی و بیشی کر کے،
ایسا رد و بدل کرنا جو دائمی اور مسلسل ہو اور تخلیق و بناوٹ محسوس ہو تو یہ دھوکہ دہی اور بعض بناوٹ میں تبدیلی ہے جو ناجائز ہے،
لیکن عارضی رنگ و روغن یا سرخی،
پوڈر،
محض خاوند کی خاطر استعمال کرنا جائز ہے،
لیکن بازاری عورتوں کی طرح ہار سنگھار کر کے اور مجسم دعوت نظارہ بن کر،
دوسروں کے سامنے اپنے حسن و جمال کا مظاہرہ کرنا تاکہ لوگ دیدے پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھیں اور اس کے حسن و جمال کا شہرہ ہو اور وہ شمع محفل بن جائے،
اس کے فوٹو اتریں تو یہ انتہائی شدید جرم اور کبیرہ گناہ ہے اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
انسان دوسروں کے سامنے جو کچھ بیان کرتا ہے،
لوگ فورا اس کے گھر پر نظر ڈالتے ہیں کہ ان باتوں پر اس کے گھر کہاں تک عمل ہو رہا ہے اور انسان کو اپنے گھر کی صفائی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور بدقسمتی ہے کہ یہ چیز آج مفقود ہے،
ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے،
جو ہماری تباہی اور بربادی کا باعث ہے اور اس بیماری میں عام و خاص،
عالم و جاہل تمام طبقات مبتلا ہیں،
لیکن علماء کی ذمہ داری بہرحال دوسروں سے زائد ہے،
اس لیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا،
اگر میری بیوی ان میں سے کسی کا ارتکاب کرتی تو میں اس کو اپنے ساتھ نہ رکھتا،
بلکہ طلاق دے کر جدا کر دیتا،
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امر و نہی کتاب اللہ کے امر اور نہی کے حکم میں ہے،
اس سے راہ فرار اختیار کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5573
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4886
4886. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے گودنے والی، گدوانے والی، خوبصورتی کے لیے چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور دانتوں میں کشادگی کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے جو اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں۔ یہ بات بنو اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کی کنیت ام یعقوب تھی، وہ (حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس) آ کر کہنے لگی: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے ایسی ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا: میں ایسی عورتوں پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور جو اللہ کی کتاب کے حکم کے مطابق بھی ملعون ہے؟ اس عورت نے کہا: میں نے تو سارا قرآن جو دو تختیوں کے درمیان ہے پڑھ ڈالا ہے، اس میں تو کہیں ان عورتوں پر لعنت نہیں آئی۔ انہوں نے فرمایا: اگر تم نے قرآن کو (بغور) پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ مسئلہ ضرور مل جاتا۔ کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی: ”رسول، تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4886]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ان لوگوں کا رد ہوا جو صرف قرآن کو واجب العمل جانتے ہیں اور حدیث شریف کو واجب العمل نہیں جانتے ایسے لوگ دائرہ اسلام سے خارج اور (وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ) (النساء: 150)
میں داخل ہیں۔
حدیث شریف قرآن مجید سے جدا نہیں ہے قرآن شریف میں خود حدیث شریف کی پیروی کا حکم ہے اس لئے حدیث کے منکر خود قرآن کے بھی انکاری ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4886
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5943
5943. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: ”اللہ تعالٰی نے سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی، ابرؤوں کے بال اکھاڑنے والی، خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والی اور اللہ کی خلقت کو بدلنے والی تمام عورتوں پر لعنت کی ہے۔“ میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور وہ اللہ کی کتاب میں بھی ملعون ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5943]
حدیث حاشیہ:
یہاں بس آیت وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر: 7)
کی طرف اشارہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5943
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5948
5948. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ”اللہ تعالٰی نے سرمہ بھرنے والی، سرمہ بھروانے والی، بھویں باریک کروانے والی، خوبصورتی کے لیے دانت کشادہ کرنے والی، جو اللہ کی خلقت کو بدلنے والی ہیں ان تمام عورتوں پر لعنت کی ہے۔“ پھر میں بھی کیوں نہ ان عورتوں پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور یہ اللہ کی کتاب میں بھی موجود ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5948]
حدیث حاشیہ:
آیت شریف وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر: 7)
کی طرف اشارہ ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو حکم فرمائیں اسے بجا لاؤ اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اس کے تحت اجمالی طور پر سارے اوامر اور نواہی داخل ہیں آج کا فیشن جو مردوں اور عورتوں نے اپنایا ہے جو عریانیت کا مرقع ہے وہ سب اس لعنت کے تحت داخل ہے۔
سند میں مذکور علقمہ بن وقاص لیثی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پیدا ہوئے اورغزوئہ خندق میں شریک ہوئے، عبدالملک بن مروان کے عہد میں وفات پائے رحمہ اللہ تعالیٰ۔
کتاب اللہ میں مذکور ہونے سے وہ آیت مراد ہے جس میں ہے وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت تم کو دیں اسے قبول کر لو اور جن کاموں سے آپ منع فرمائیں ان سے رک جاؤ۔
اس میں جملہ اوامر اور نواہی داخل ہیں حدیث میں مذکورہ نواہی بھی اسی آیت کے ذیل میں ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5948
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5939
5939. حضرت علقمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے خوبصورتی کے لیے جسم میں سرمہ بھرنے والی، ابرو کے بال اکھاڑنے والی، دانتوں کوکشادہ کرنے والی اور اللہ کی خلقت کو بدلنے والی عورتوں پر لعنت کی تو ام یعقوب نے کہا: یہ کیا بات ہوئی؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: آخر میں ان پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر اللہ کے رسول نے لعنت کی ہے اور کتاب اللہ میں بھی موجود ہے؟ ام یعقوب نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو پورا قرآن مجید پڑھ ڈالا ہے مجھے تو کہیں بھی یہ نہیں ملا،اللہ کی قسم اگر تم بغور قرآن پڑھا ہوتا تو یہ تجھے ضرور مل جاتا۔ (قرآن کریم میں ہے:) ”جو چیز تمہیں رسول دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5939]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام ابوداود رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نامصہ وہ عورت ہے جو ابروؤں کے بال نوچتی ہے تاکہ وہ باریک ہو جائیں اور مُتنمصه وہ عورت ہے جو یہ کام کروائے۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4170) (2)
ایک روایت میں ہے کہ جس عورت نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تھا وہ قبیلۂ بنو اسد سے تعلق رکھتی تھی اور اسے قرآنی معلومات کافی حد تک تھیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب آیت کریمہ پڑھی تو وہ مطمئن ہو گئی لیکن اس نے کہا کہ میں ان ممنوعہ چیزوں میں سے کئی چیزیں تمہاری بیوی پر بھی دیکھتی ہوں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اندر جاؤ اور دیکھ لو، چنانچہ وہ گئی اور پھر باہر آ گئی۔
انہوں نے پوچھا:
کیا دیکھا ہے؟ عورت نے کہا:
میں نے کچھ نہیں دیکھا۔
تو انہوں نے فرمایا:
اگر ایسا ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ نہ ہوتی۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4169) (3)
بہرحال دعوت دین کا کام کرنے والوں کو لوگ انتہائی باریک نظر سے دیکھتے ہیں اور چاہتے کہ وہ اپنی گفتار کے مطابق کردار کو ڈھالیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس معیار پر پورے اترتے تھے اور انہوں نے اپنے ایمانی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان کی بیوی خلاف شریعت کاموں کی مرتکب ہوتی تو ہمارے ساتھ نہ رہ سکتی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5939
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5948
5948. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ”اللہ تعالٰی نے سرمہ بھرنے والی، سرمہ بھروانے والی، بھویں باریک کروانے والی، خوبصورتی کے لیے دانت کشادہ کرنے والی، جو اللہ کی خلقت کو بدلنے والی ہیں ان تمام عورتوں پر لعنت کی ہے۔“ پھر میں بھی کیوں نہ ان عورتوں پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور یہ اللہ کی کتاب میں بھی موجود ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5948]
حدیث حاشیہ:
(1)
سوئی یا کسی نوک دار چیز سے جسم کے کسی حصے کو چھید کر کوئی نام یا کسی کی تصویر بنا کر وہاں سرمہ یا نیل وغیرہ چھڑکا جاتا ہے، پھر زخم مندمل ہونے کے بعد وہ نام یا تصویر مستقل طور پر باقی رہتی ہے۔
عربی زبان میں اس عمل کو وشم کہا جاتا ہے۔
یہ عمل کرنا اور کرانا شرعاً حرام ہے۔
(2)
اگر وشم کے بغیر کسی مرض کا علاج ممکن نہ ہو تو اس عمل کے جائز ہونے کی گنجائش ہے۔
یاد رہے کہ اس عمل کی اجرت حرام ہے کیونکہ جو کام حرام ہو اس کی اجرت بھی حرام ہوتی ہے۔
اگر کسی زندہ یا مرنے والے شخص کے جسم پر اس طرح کا نشان ہو تو اس کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
اگر کسی نقصان کا خطرہ ہو تو اسے باقی رہنے دیا جائے، البتہ دونوں صورتوں میں توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5948