سنن نسائي
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
11. بَابُ : أَمْرِكِ بِيَدِكِ
باب: شوہر عورت سے کہے تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے؟
حدیث نمبر: 3439
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَيُّوبَ: هَلْ عَلِمْتَ أَحَدًا، قَالَ فِي أَمْرِكِ بِيَدِكِ، أَنَّهَا ثَلَاثٌ غَيْرَ الْحَسَنِ؟ فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ غَفْرًا، إِلَّا مَا حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى ابْنِ سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" ثَلَاثٌ" , فَلَقِيتُ كَثِيرًا، فَسَأَلْتُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ، فَرَجَعْتُ إِلَى قَتَادَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: نَسِيَ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.
حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایوب سے کہا: کیا آپ حسن کے سوا کسی کو جانتے ہیں؟ جو «أمرک بیدک» کہنے سے تین طلاقیں لاگو کرتا ہو؟ انہوں نے کہا نہیں (میں کسی کو بھی نہیں جانتا) پھر انہوں نے کہا: اللہ انہیں بخش دے اب رہی قتادہ کی حدیث جو انہوں نے مجھ سے کثیر مولی ابن سمرۃ سے روایت کی ہے اور کثیر نے ابوسلمہ سے انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تین طلاقیں ہوتی ہیں“ تو (اس کا حال یہ ہے کہ) میری ملاقات کثیر سے ہوئی میں نے ان سے (اس حدیث کے متعلق) پوچھا تو انہوں نے اسے پہچانا ہی نہیں (کہ میں نے ایسی کوئی روایت کی ہے) میں لوٹ کر قتادہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی (کہ وہ ایسا کہتے ہیں) تو قتادہ نے کہا کہ وہ بھول گئے (انہوں نے ایسی بات کہی ہے)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق13 (2204، 2205) مختصرا، سنن الترمذی/الطلاق 3 (1178)، (تحفة الأشراف: 14992) (مرفوعا ضعیف، موقوفا صحیح) (مرفوع کی سند میں ”کثیر“ لین الحدیث ہیں، اور قتادہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے مرفوع حدیث ضعیف ہے، اور مؤلف نے بھی حدیث کو منکر کہا ہے، لیکن حسن کے قول کی سند صحیح ہے، اس لیے اثر موقوفا صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (2204،2205) ترمذي (1178) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 347
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3439 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3439
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے‘ یعنی رسول اللہﷺ کا فرمان نہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ مقطوعاً صحیح ثابت ہے‘ یعنی حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے‘ مرفوعاً یا موقوفاً صحیح ثابت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني: 10/234‘ رقم: 379)
(2) خاوند بیوی سے [أَمْرِكُ بِيَدِكِ] کہہ دے‘ یعنی تجھے طلاق لینے کا اختیار ہے‘ چاہے تو لے لے۔ عورت کہے کہ میں نے طلاق لے لی تو کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ بعض حضرات تین کے قائل ہیں‘ یعنی وہ عورت اس سے مستقلاً جدا ہوجائے گی۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک اس عورت کو ایک طلاق واقع ہوگی کیونکہ لفظ طلاق سے ایک ہی طلاق سمجھ میں آتی ہے‘ نیز بیک وقت تین طلاقیں تو بدعت ہیں۔ البتہ خاوند کو رجوع کا حق نہیں ہوگا۔ عدت کے بعد دونوں رضا مند ہوں تو نیا نکاح کرسکتے ہیں۔
(3) ”یا اللہ! معاف فرمانا“ یعنی مجھ سے غلطی ہوگئی اور میں نے جلد بازی میں نہیں کہہ دیا۔ اسی جلد باز کی معافی طلب کی ورنہ نسیان وخطا تو منجانب اللہ معاف ہیں ہی۔
(4) ”کثیر بھول گئے“ اگر کوئی راوی حدیث بیان کرنے کے بعد بھول جائے لیکن اس کا شاگرد جو وہ حدیث بیان کررہا ہے‘ ثقہ ہو اور بالیقین کہے تو روایت معتبر ہوگی۔ نسیان کا روایت کی صحت پر اثر نہیں پڑے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3439
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1178
´بیوی سے تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے کہنے کا بیان۔`
حماد بن زید کا بیان ہے کہ میں نے ایوب (سختیانی) سے پوچھا: کیا آپ حسن بصری کے علاوہ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں، جس نے «أمرك بيدك» کے سلسلہ میں کہا ہو کہ یہ تین طلاق ہے؟ انہوں نے کہا: حسن بصری کے۔ علاوہ مجھے کسی اور کا علم نہیں، پھر انہوں نے کہا: اللہ! معاف فرمائے۔ ہاں وہ روایت ہے جو مجھ سے قتادہ نے بسند «كثير مولى بني سمرة عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فرمایا: ”یہ تین طلاقیں ہیں۔“ ایوب کہتے ہیں: پھر میں کثیر مولی بنی سمرہ سے ملا تو میں نے ان سے اس حد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1178]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں کثیرلین الحدیث ہیں مگر حسن کا قول صحیح ہے،
جس کی روایت ابوداود (برقم 2205) نے بھی کی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1178