(مرفوع) اخبرنا علي بن محمد بن علي قال: حدثنا محمد بن كثير , عن الفزاري , عن حميد , عن انس , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا جلب ولا جنب ولا شغار في الإسلام" , قال ابو عبد الرحمن: هذا خطا فاحش والصواب حديث بشر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ , عَنْ الْفَزَارِيِّ , عَنْ حُمَيْدٍ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ فَاحِشٌ وَالصَّوَابُ حَدِيثُ بِشْرٍ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں نہ «جلب» ہے، نہ «جنب» ہے، اور نہ «شغار» ہے“۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی فرماتے ہیں: اس روایت میں صریح غلطی موجود ہے اور بشر کی روایت صحیح ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5660)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/النکاح 16 (1885)، مسند احمد (3/165) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں حمید راوی انس رضی الله عنہ سے روایت کرتے، اس اعتبار سے حمید تابعی بن جاتے ہیں جبکہ یہ صحیح نہیں ہے، بشر کی روایت میں یہی حمید اپنے استاد حسن (بصریٰ) سے روایت کرتے ہیں اور وہ (حسن بصری) عمران بن حصین صحابی سے۔ اس اعتبار سے حمید تبع تابعی ٹھہرتے ہیں۔ امام نسائی کہتے ہیں: یہی صحیح ہے کیونکہ حمید تابعی نہیں بلکہ تبع تابعی ہیں۔
(مرفوع) اخبرنا هارون بن عبد الله، قال: حدثنا معن، قال: حدثنا مالك، عن نافع. ح والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع، عن ابن القاسم، قال مالك: حدثني نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن الشغار"، والشغار: ان يزوج الرجل الرجل ابنته على ان يزوجه ابنته وليس بينهما صداق. (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ. ح وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ مَالِكٌ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الشِّغَارِ"، وَالشِّغَارُ: أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ ابْنَتَهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے، اور شغار یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس شخص کے ساتھ کرے۔ اور دونوں ہی بیٹیوں کا کوئی مہر مقرر نہ ہو۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے عبیداللہ (جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں) کہتے ہیں: شغار یہ تھا کہ آدمی اپنی بیٹی کی شادی دوسرے سے اس شرط پر کرتا تھا کہ دوسرا اپنی بہن کی شادی اس کے ساتھ کر دے (بغیر کسی مہر کے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 7 (1416)، سنن ابن ماجہ/النکاح 16 (1884)، (تحفة الأشراف: 13796)، مسند احمد (2/286، 439، 496) (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا يعقوب، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد , ان امراة جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله جئت لاهب نفسي لك، فنظر إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصعد النظر إليها وصوبه، ثم طاطا راسه، فلما رات المراة انه لم يقض فيها شيئا، جلست، فقام رجل من اصحابه، فقال: اي رسول الله إن لم يكن لك بها حاجة فزوجنيها قال:" هل عندك من شيء"؟ فقال: لا، والله ما وجدت شيئا، فقال:" انظر ولو خاتما من حديد" فذهب، ثم رجع، فقال: لا والله يا رسول الله ولا خاتما من حديد، ولكن هذا إزاري , قال سهل: ما له رداء فلها نصفه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما تصنع بإزارك إن لبسته؟ لم يكن عليها منه شيء وإن لبسته لم يكن عليك منه شيء" فجلس الرجل حتى طال مجلسه، ثم قام، فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم، موليا، فامر به، فدعي، فلما جاء قال:" ماذا معك من القرآن،" قال: معي سورة كذا وسورة كذا عددها فقال:" هل تقرؤهن عن ظهر قلب؟" قال: نعم، قال:" ملكتكها بما معك من القرآن". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْتُ لِأَهَبَ نَفْسِي لَكَ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَعَّدَ النَّظَرَ إِلَيْهَا وَصَوَّبَهُ، ثُمَّ طَأْطَأَ رَأْسَهُ، فَلَمَّا رَأَتِ الْمَرْأَةُ أَنَّهُ لَمْ يَقْضِ فِيهَا شَيْئًا، جَلَسَتْ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ فَزَوِّجْنِيهَا قَالَ:" هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ"؟ فَقَالَ: لَا، وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا، فَقَالَ:" انْظُرْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ" فَذَهَبَ، ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي , قَالَ سَهْلٌ: مَا لَهُ رِدَاءٌ فَلَهَا نِصْفُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ إِنْ لَبِسْتَهُ؟ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ مِنْهُ شَيْءٌ" فَجَلَسَ الرَّجُلُ حَتَّى طَالَ مَجْلِسُهُ، ثُمَّ قَامَ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مُوَلِّيًا، فَأَمَرَ بِهِ، فَدُعِيَ، فَلَمَّا جَاءَ قَالَ:" مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ،" قَالَ: مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا عَدَّدَهَا فَقَالَ:" هَلْ تَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرِ قَلْبٍ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" مَلَّكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ".
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آئی ہوں کہ اپنے آپ کو آپ کے حوالے کر دوں، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور نیچے سے اوپر تک دھیان سے دیکھا۔ پھر آپ نے اپنا سر جھکا لیا (غور فرمانے لگے کہ کیا کریں)، عورت نے جب دیکھا کہ آپ نے اس کے متعلق (بروقت) کچھ نہیں فیصلہ فرمایا تو وہ (انتظار میں) بیٹھ گئی، اتنے میں آپ کے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اپنے لیے اس عورت کی ضرورت نہیں پاتے تو آپ اس عورت سے میری شادی کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس (بطور مہر دینے کے لیے) کوئی چیز ہے؟“ اس نے کہا نہیں، قسم اللہ کی! میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”دیکھو (تلاش کرو) لوہے کی انگوٹھی ۱؎ ہی مل جائے تو لے کر آؤ“، تو وہ آدمی (تلاش میں) نکلا، پھر لوٹ کر آیا اور کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! کوئی چیز نہیں ملی حتیٰ کہ لوہے کہ انگوٹھی بھی نہیں ملی، میرے پاس بس میرا یہی تہبند ہے، میں آدھی تہبند اس کو دے سکتا ہوں، سہل (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں: اس کے پاس چادر نہیں تھی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے تہبند سے کیا کر سکتے ہو؟ تم پہنو گے تو وہ نہیں پہن سکتی اور وہ پہنے گی تو تم نہیں پہن سکتے“، وہ آدمی بیٹھ گیا اور دیر تک بیٹھا رہا، پھر (مایوس ہو کر) اٹھ کر چلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیٹھ پھیر کر جاتے ہوئے دیکھا تو اسے حکم دے کر بلا لیا، جب وہ آیا تو آپ نے اس سے پوچھا: ”تمہیں قرآن کتنا یاد ہے؟“ انہوں نے کہا: فلاں فلاں سورت، اس نے گن کر بتایا۔ آپ نے کہا: ”کیا تم اسے زبانی (روانی سے) پڑھ سکتے ہو“، اس نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”(جاؤ) جو تمہیں قرآن یاد ہے اسے یاد کرا دو اس کے عوض میں نے تمہیں اس کا مالک بنا دیا“(یعنی میں نے اس سے تمہاری شادی کر دی)۔
(موقوف) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا محمد بن موسى، عن عبد الله بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس، قال:" تزوج ابو طلحة ام سليم، فكان صداق ما بينهما الإسلام اسلمت ام سليم قبل ابي طلحة، فخطبها، فقالت: إني قد اسلمت، فإن اسلمت نكحتك، فاسلم فكان صداق ما بينهما". (موقوف) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" تَزَوَّجَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ، فَكَانَ صِدَاقُ مَا بَيْنَهُمَا الْإِسْلَامَ أَسْلَمَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ قَبْلَ أَبِي طَلْحَةَ، فَخَطَبَهَا، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ، فَإِنْ أَسْلَمْتَ نَكَحْتُكَ، فَأَسْلَمَ فَكَانَ صِدَاقَ مَا بَيْنَهُمَا".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، تو ان کے درمیان مہر (ابوطلحہ کا) اسلام قبول کر لینا طے پایا تھا، ام سلیم ابوطلحہ سے پہلے ایمان لائیں، ابوطلحہ نے انہیں شادی کا پیغام دیا، تو انہوں نے کہا: میں اسلام لے آئی ہوں (میں غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی)، آپ اگر اسلام قبول کر لیں تو میں آپ سے شادی کر سکتی ہوں، تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا، اور یہی اسلام ان دونوں کے درمیان مہر قرار پایا۔
(موقوف) اخبرنا محمد بن النضر بن مساور، قال: انبانا جعفر بن سليمان، عن ثابت، عن انس، قال:" خطب ابو طلحة ام سليم، فقالت: والله ما مثلك يا ابا طلحة يرد ولكنك رجل كافر، وانا امراة مسلمة، ولا يحل لي ان اتزوجك، فإن تسلم، فذاك مهري وما اسالك غيره، فاسلم فكان ذلك مهرها، قال ثابت: فما سمعت بامراة قط كانت اكرم مهرا من ام سليم الإسلام فدخل بها فولدت له. (موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ بْنِ مُسَاوِرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" خَطَبَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا مِثْلُكَ يَا أَبَا طَلْحَةَ يُرَدُّ وَلَكِنَّكَ رَجُلٌ كَافِرٌ، وَأَنَا امْرَأَةٌ مُسْلِمَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لِي أَنْ أَتَزَوَّجَكَ، فَإِنْ تُسْلِمْ، فَذَاكَ مَهْرِي وَمَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهُ، فَأَسْلَمَ فَكَانَ ذَلِكَ مَهْرَهَا، قَالَ ثَابِتٌ: فَمَا سَمِعْتُ بِامْرَأَةٍ قَطُّ كَانَتْ أَكْرَمَ مَهْرًا مِنْ أُمِّ سُلَيْمٍ الْإِسْلَامَ فَدَخَلَ بِهَا فَوَلَدَتْ لَهُ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے (ان کی والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہا کو شادی کا پیغام دیا تو انہوں نے انہیں جواب دیا: قسم اللہ کی، ابوطلحہ! آپ جیسوں کا پیغام لوٹایا نہیں جا سکتا، لیکن آپ ایک کافر شخص ہیں اور میں ایک مسلمان عورت ہوں، میرے لیے حلال نہیں کہ میں آپ سے شادی کروں، لیکن اگر آپ اسلام قبول کر لیں، تو یہی آپ کا اسلام قبول کر لینا ہی میرا مہر ہو گا اس کے سوا مجھے کچھ اور نہیں چاہیئے ۱؎ تو وہ اسلام لے آئے اور یہی چیز ان کی مہر قرار پائی۔ ثابت کہتے ہیں: میں نے کسی عورت کے متعلق کبھی نہیں سنا جس کی مہر ام سلیم رضی اللہ عنہا کی مہر اسلام سے بڑھ کر اور باعزت رہی ہو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے صحبت و قربت اختیار کی اور انہوں نے ان سے بچے جنے۔
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوہ خیبر کے موقع پر قید ہو کر آنے والی یہودی سردار حي بن اخطب کی بیٹی) صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا، اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا، حدیث کے الفاظ راوی حدیث محمد کے ہیں۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن ابي زائدة، قال: حدثني صالح بن صالح، عن عامر، عن ابي بردة بن ابي موسى , عن ابي موسى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثلاثة يؤتون اجرهم مرتين: رجل كانت له امة، فادبها، فاحسن ادبها وعلمها، فاحسن تعليمها، ثم اعتقها وتزوجها، وعبد يؤدي حق الله وحق مواليه، ومؤمن اهل الكتاب". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى , عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ: رَجُلٌ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ، فَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا وَعَلَّمَهَا، فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، وَعَبْدٌ يُؤَدِّي حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَمُؤْمِنُ أَهْلِ الْكِتَابِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگ ایسے ہیں جنہیں دوہرا اجر و ثواب ملے گا ۱؎، ایک وہ آدمی جس کے پاس لونڈی تھی اس نے اسے ادب و تمیز سکھائی اور بہترین طور و طریقہ بتایا، اسے تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی پھر اسے آزاد کر دیا، اور اس سے شادی کر لی۔ دوسرا وہ غلام جو اپنے آقاؤں کا صحیح صحیح حق الخدمت ادا کرے، اور تیسرا وہ جو اہل کتاب میں سے ہو اور ایمان لے آئے“(ایسے لوگوں کو دوگنا ثواب ملے گا)۔
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنی باندی کو آزاد کیا اور پھر اس سے شادی کر لی، اسے دوہرا اجر ملے گا“۔