(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن المبارك المخرمي، قال: حدثنا ابو هشام واسمه المغيرة بن سلمة، قال: حدثنا الربيع بن مسلم، قال: حدثنا محمد بن زياد، عن ابي هريرة , قال: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس، فقال:" إن الله عز وجل قد فرض عليكم الحج"، فقال رجل: في كل عام؟ فسكت عنه حتى اعاده ثلاثا، فقال:" لو قلت نعم لوجبت، ولو وجبت ما قمتم بها، ذروني ما تركتكم، فإنما هلك من كان قبلكم بكثرة سؤالهم واختلافهم على انبيائهم، فإذا امرتكم بالشيء، فخذوا به ما استطعتم وإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ وَاسْمُهُ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَة , قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَرَضَ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ"، فَقَالَ رَجُلٌ: فِي كُلِّ عَام؟ فَسَكَتَ عَنْهُ حَتَّى أَعَادَهُ ثَلاثًا، فَقَالَ:" لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ، وَلَوْ وَجَبَتْ مَا قُمْتُمْ بِهَا، ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالشَّيْءِ، فَخُذُوا بِهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا تو فرمایا: ”اللہ عزوجل نے تم پر حج فرض کیا ہے“ ایک شخص نے پوچھا: کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے یہاں تک اس نے اسے تین بار دہرایا تو آپ نے فرمایا: ”اگر میں کہہ دیتا ہاں، تو وہ واجب ہو جاتا، اور اگر واجب ہو جاتا تو تم اسے ادا نہ کر پاتے، تم مجھے میرے حال پر چھوڑے رہو جب تک کہ میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھوں ۱؎، تم سے پہلے لوگ بکثرت سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کے سبب ہلاک ہوئے، جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اس پر عمل کرو۔ اور جب کسی چیز سے روکوں تو اس سے باز آ جاؤ“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 73 (1337)، (تحفة الأشراف: 14367)، مسند احمد (2/508) وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاعتصام 2 (7288)، سنن الترمذی/العلم 17 (2679)، سنن ابن ماجہ/المقدمة1 (2)، مسند احمد (2/247، 258، 313، 428، 448، 457، 467، 482، 495، 502) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ غیر ضروری سوال نہ کیا کرو۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے“، تو اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ہر سال؟ اللہ کے رسول! آپ خاموش رہے، پھر آپ نے بعد میں فرمایا: ”اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال (حج) فرض ہو جاتا، پھر نہ تم سنتے اور نہ اطاعت کرتے، لیکن حج ایک بار ہی ہے“۔
ابورزین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بوڑھے ہیں، نہ حج کر سکتے ہیں نہ عمرہ اور نہ سفر؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے والد کی طرف سے تم حج و عمرہ کر لو“۱؎۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مبرور و مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں اور ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور، قال: حدثنا حجاج، قال: حدثنا شعبة، قال: اخبرني سهيل , عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الحجة المبرورة ليس لها ثواب إلا الجنة، مثله سواء، إلا انه قال: تكفر ما بينهما". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُور، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُهَيْلٌ , عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْحَجَّةُ الْمَبْرُورَةُ لَيْسَ لَهَا ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ، مِثْلَهُ سَوَاءً، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: تُكَفِّرُ مَا بَيْنَهُمَا".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج مبرور (مقبول) کا ثواب جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے“، اس سے آگے پہلے کی حدیث کے مثل ہے، مگر فرق یہ ہے کہ اس میں «كفارة لما بينهما» کے بجائے «تكفر ما بينهما» کا لفظ آیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: انبانا معمر , عن الزهري، عن ابن المسيب، عن ابي هريرة، قال: سال رجل النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! اي الاعمال افضل؟ قال:" الإيمان بالله"، قال: ثم ماذا؟ قال:" الجهاد في سبيل الله" قال: ثم ماذا؟ قال:" ثم الحج المبرور (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيّ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" الْإِيمَانُ بِاللَّهِ"، قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:" الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:" ثُمَّ الْحَجُّ الْمَبْرُورُ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! اعمال میں سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ پر ایمان لانا“، اس نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا“، اس نے پوچھا: پھر کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا: ”پھر حج مبرور (مقبول)“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حج مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو بعض کہتے ہیں کہ حج مبرور وہ حج ہے جس میں حج کے جملہ شرائط و آداب کا التزام کیا گیا ہو اور ایک قول یہ ہے کہ حج مبرور سے مراد حج مقبول ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد وہ انسان عبادت گزار بن جائے جب کہ اس سے پہلے وہ غافل تھا۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے وفد میں تین لوگ ہیں: ایک غازی، دوسرا حاجی اور تیسرا عمرہ کرنے والا“۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا حج کیا، نہ بیہودہ بکا ۱؎ اور نہ ہی کوئی گناہ کیا، تو وہ اس طرح (پاک و صاف ہو کر)۲؎ لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا“۔
وضاحت: ۱؎: «رفث»: کے اصل معنی ہیں جماع کرنا یہاں مراد فحش گوئی، بیہودگی، اور بیوی سے زبان سے جنسی خواہش کی آرزو کرنا ہے دوران حج چونکہ بیوی سے ہمبستری ممنوع ہے اس لیے اس موضوع پر بیوی سے گفتگو اور دل لگی کی بات بھی ناپسندیدہ ہے اور «فسق» سے نافرمانی اور لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرنا مراد ہے۔ ۲؎: یہ پاگیزگی صرف ان صغیرہ گناہوں سے ہوتی ہے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ورنہ حقوق اللہ سے متعلق بڑے بڑے گناہ اور اسی طرح حقوق العباد سے متعلق کوتاہیاں خالص توبہ اور ادائیگی حقوق کے بغیر معاف نہیں ہوں گی۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم نکل کر آپ کے ساتھ جہاد نہ کریں کیونکہ میں قرآن میں جہاد سے زیادہ افضل کوئی عمل نہیں دیکھتی؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، لیکن (تمہارے لیے) سب سے بہتر اور کامیاب جہاد بیت اللہ کا حج مبرور (مقبول) ہے“۔