سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
1. بَابُ : وُجُوبِ الْحَجِّ
باب: حج کی فرضیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2620
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ وَاسْمُهُ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَة , قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَرَضَ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ"، فَقَالَ رَجُلٌ: فِي كُلِّ عَام؟ فَسَكَتَ عَنْهُ حَتَّى أَعَادَهُ ثَلاثًا، فَقَالَ:" لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ، وَلَوْ وَجَبَتْ مَا قُمْتُمْ بِهَا، ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالشَّيْءِ، فَخُذُوا بِهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا تو فرمایا: ”اللہ عزوجل نے تم پر حج فرض کیا ہے“ ایک شخص نے پوچھا: کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے یہاں تک اس نے اسے تین بار دہرایا تو آپ نے فرمایا: ”اگر میں کہہ دیتا ہاں، تو وہ واجب ہو جاتا، اور اگر واجب ہو جاتا تو تم اسے ادا نہ کر پاتے، تم مجھے میرے حال پر چھوڑے رہو جب تک کہ میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھوں ۱؎، تم سے پہلے لوگ بکثرت سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کے سبب ہلاک ہوئے، جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اس پر عمل کرو۔ اور جب کسی چیز سے روکوں تو اس سے باز آ جاؤ“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 73 (1337)، (تحفة الأشراف: 14367)، مسند احمد (2/508) وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاعتصام 2 (7288)، سنن الترمذی/العلم 17 (2679)، سنن ابن ماجہ/المقدمة1 (2)، مسند احمد (2/247، 258، 313، 428، 448، 457، 467، 482، 495، 502) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ غیر ضروری سوال نہ کیا کرو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2620 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2620
اردو حاشہ:
(1) حج کی فرضیت تو اجماعی اور قطعی مسئلہ ہے، اختلاف ہے یہ کہ کب فرض ہوا۔ مشہور قول 5 یا 6 ہجری کا ہے مگر محقق بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ 9 ہجری میں فرض ہوا، ورنہ آپ 6ہجری میں عمرے کی بجائے حج کو جاتے۔ 8 ہجری میں بھی فتح مکہ کے بعد آپ عمرہ کر کے واپس تشریف لے آئے، حالانکہ حج کے دن قریب تھے۔
(2) ”ایک آدمی۔“ یہ حضرت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ تھے۔
(3) ”واجب ہو جاتا۔“ گویا حج کا حکم مطلق اترا تھا۔ اس میں ایک دفعہ یا ہر سال کی صراحت نہیں تھی۔ اس کا فیصلہ مصلحت مسلمین پر موقوف تھا۔ اگر آپ ”ہر سال“ میں مصلحت محسوس فرماتے تو ہر سال فرض ہو جاتا مگر یہ بات مصلحت کے خلاف تھی، اس لیے آپ نے اس شخص کی تائید نہ کی۔
(4) بعض مسائل میں شارع علیہ السلام نے جان بوجھ کر خاموشی اختیار فرمائی ہے تاکہ مسلمانوں کو سہولت رہے۔ ایسے مسائل میں سوال کے ذریعے سے تنگی پیدا کرنا بری بات ہے۔ اسی طرح شریعت کی عطا کردہ وسعت کوختم کر دینا بھی بے جا تشدد ہے۔ جن مسائل میں شریعت نے معاملہ کھلا چھوڑا ہے، اسے کھلا ہی رکھنا چاہیے۔ اپنی طرف سے پابندیاں نہ لگائی جائیں، مثلاً: لباس، حجامت، بود وباش اور دیگر عادات۔ اسی طرح نفلی عبادات میں شریعت کے صریح احکام ہی کو کافی سمجھا جائے اور لوگوں کو خواہ مخواہ تنگ نہ کیا جائے۔ کسی قوم کے رسوم و رواج جب تک صراحتاً شریعت کے خلاف نہ ہوں، ان پر پابندی نہ لگائی جائے اور نہ ان کا ثبوت ہی شریعت سے تلاش کیا جائے کیونکہ ثبوت کی ضرورت عبادات میں ہے نہ کہ عادات میں۔ عادات میں پابندی کا نہ ہونا ہی کافی ہے۔
(5) ”طاقت کے مطابق“ معلوم ہوا کہ ایک آدمی اپنی بساط اور طاقت کے مطابق ایک مامور بہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر مکمل طور پر بجا نہیں لا پاتا، تو جتنے کام سے وہ عاجز آگیا ہو، وہ اس سے ساقط ہو جائے گا۔ یہ بات نیکی کے کاموں کی ہے جنھیں کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، البتہ جن کاموں سے روکا گیا ہے، ان میں استطاعت کی قید نہیں، ان سے ہر صورت میں مکمل طور پر بچنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم
(6) امر ہر جگہ تکرار کا تقاضا نہیں کرتا اور نہ ہر جگہ عدم تکرار کا تقاضا کرتا ہے بلکہ موقع محل، سیاق، قرائن یا دلائل سے تعین کیا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2620