(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن بزيع، قال: حدثنا يزيد يعني ابن زريع، قال: حدثنا إسرائيل، قال: حدثنا سماك، عن جابر بن سمرة، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة قائما، ثم يقعد قعدة لا يتكلم، ثم يقوم فيخطب خطبة اخرى، فمن حدثكم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخطب قاعدا فقد كذب. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، قال: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قال:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَائِمًا، ثُمَّ يَقْعُدُ قِعْدَةً لَا يَتَكَلَّمُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ خُطْبَةً أُخْرَى، فَمَنْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْطُبُ قَاعِدًا فَقَدْ كَذَبَ.
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیتے دیکھا، پھر آپ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے اور دوسرا خطبہ دیتے، جو تم سے بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو وہ غلط گو جھوٹا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، عن عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان، عن سماك، عن جابر بن سمرة، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يخطب قائما، ثم يجلس، ثم يقوم ويقرا آيات ويذكر الله عز وجل، وكانت خطبته قصدا وصلاته قصدا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قال:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ وَيَقْرَأُ آيَاتٍ وَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَكَانَتْ خُطْبَتُهُ قَصْدًا وَصَلَاتُهُ قَصْدًا".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ بیچ میں بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے، اور کچھ آیتیں پڑھتے، اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ۱؎ اور آپ کا خطبہ درمیانی ہوتا تھا، اور نماز بھی درمیانی ہوتی تھی۔
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک روایت میں یہ صراحت ہے کہ آپ جمعہ میں دو خطبے دیتے تھے، اور دونوں میں تلاوت قرآن اور وعظ و تذکیر کیا کرتے تھے، اس لیے وعظ و تذکیر کے لیے صرف پہلے خطبے کو خاص کر لینا خلاف سنت ہے۔
(مرفوع) اخبرني محمد بن علي بن ميمون، قال: حدثنا الفريابي، قال: حدثنا جرير بن حازم، عن ثابت البناني، عن انس، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عن المنبر فيعرض له الرجل فيكلمه، فيقوم معه النبي صلى الله عليه وسلم حتى يقضي حاجته، ثم يتقدم إلى مصلاه فيصلي". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، قال: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، قال: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ فَيَعْرِضُ لَهُ الرَّجُلُ فَيُكَلِّمُهُ، فَيَقُومُ مَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ، ثُمَّ يَتَقَدَّمُ إِلَى مُصَلَّاهُ فَيُصَلِّي".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترتے پھر کوئی آدمی آپ کے سامنے آ جاتا تو آپ اس سے گفتگو کرتے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اپنی ضرورت پوری نہ کر لیتا یعنی اپنی بات ختم نہ کر لیتا، پھر آپ اپنی جائے نماز کی طرف بڑھتے، اور نماز پڑھاتے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 240 (1120)، سنن الترمذی/الصلاة 256 (الجمعة 21) (517)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 89 (1117)، (تحفة الأشراف: 260)، مسند احمد 3/119، 127، 213 (شاذ) (صحیح بات یہ ہے کہ واقعہ عشاء کی صلاة میں پیش آیا تھا، بقول امام بخاری اس میں جریر بن حازم سے وہم ہو گیا ہے، کما نقل عنہ الترمذی)»
قال الشيخ الألباني: شاذ والمحفوظ أن ذلك كان في صلاة العشاء
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1120) ترمذي (517) ابن ماجه (1117) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 332
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا شريك، عن زبيد، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، قال: قال عمر:" صلاة الجمعة ركعتان، وصلاة الفطر ركعتان، وصلاة الاضحى ركعتان، وصلاة السفر ركعتان، تمام غير قصر على لسان محمد صلى الله عليه وسلم" , قال ابو عبد الرحمن: عبد الرحمن بن ابي ليلى لم يسمع من عمر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قال: قَالَ عُمَرُ:" صَلَاةُ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَانِ، وَصَلَاةُ الْفِطْرِ رَكْعَتَانِ، وَصَلَاةُ الْأَضْحَى رَكْعَتَانِ، وَصَلَاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ، تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ.
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جمعہ کی نماز، عید الفطر کی نماز، اور عید الاضحی کی نماز، اور سفر کی نماز، دو دو رکعتیں ہیں، اور یہ بزبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 73 (1063)، (تحفة الأشراف: 10596)، مسند احمد 1/37، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 1441 و 1567 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: محقق بات یہ ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کا سماع عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، دیکھئیے مسند احمد، ونصب الرایہ (۲/۱۸۹) نیز ابن ماجہ کی دوسری سند (۱۰۶۴) میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان ”کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ“ کا واسطہ ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز نماز فجر میں «الم * تنزيل» اور «هل أتى على الإنسان» پڑھتے، اور جمعہ کی صلاۃ میں سورۃ ”جمعہ“ اور سورۃ ”منافقون“ پڑھتے تھے۔
39. باب: نماز جمعہ میں «سبح اسم ربک الأعلی» اور «ھل أتاک حدیث الغاشیۃ» پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Reciting "Glorify The Name Of Your Lord, The Most High" And "Has There Come To You The Narration Of The Overwhelming (I.E. The Day of Resurrection)?" In Jumu'ah Prayer
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں اور اس سے پہلے والے باب کی روایت میں بظاہر تعارض ہے، پر یہ اختلاف دونوں کے جواز اور دونوں کے مسنون ہونے پر دلالت کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ کبھی آپ جمعہ کی پہلی رکعت میں ”سورۃ جمعہ“ اور دوسری رکعت میں ”سورۃ منافقون“ پڑھتے اور کبھی «سبح اسم ربك الأعلى» اور «هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے۔
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ضحاک بن قیس نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن سورۃ الجمعہ کے بعد کون سی سورۃ پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ «هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے۔
حبیب بن سالم نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے اور جب کبھی عید اور جمعہ دونوں جمع ہو جاتے تو ان دونوں میں بھی آپ انہی دونوں سورتوں کو پڑھتے تھے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کی نماز میں سے ایک رکعت پا لی تو اس نے (جمعہ کی نماز) پا لی“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 30 (607)، سنن الترمذی/الصلاة 260 (524)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 91 (1122)، (تحفة الأشراف: 15143)، مسند احمد 2/241، سنن الدارمی/الصلاة 22 (1256) (شاذ بذکر الجمعة) (جمعہ کا لفظ صرف مؤلف کے یہاں ہے، باقی تمام محدثین کے یہاں صرف ”صلاة“ کا لفظ ہے، تفاصیل کے لیے مذکور تخریج ملاحظہ فرمائیں، اس لیے جمعہ کا لفظ شاذ ہے)»
قال الشيخ الألباني: شاذ بذكر الجمعة والمحفوظ الصلاة
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا صلى احدكم الجمعة فليصل بعدها اربعا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمُ الْجُمُعَةَ فَلْيُصَلِّ بَعْدَهَا أَرْبَعًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھے تو اسے چاہیئے کہ اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں چار رکعت کا ذکر ہے، اور اس کے بعد والی حدیث میں دو رکعت کا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں بعض لوگوں نے دونوں رایتوں میں اس طرح سے تطبیق دی ہے کہ جو مسجد میں پڑھے وہ چار رکعت پڑھے، اور جو گھر جا کر پڑھے وہ دو رکعت پڑھے، اسی طرح چار رکعت کس طرح پڑھی جائیں، اس میں بھی دو رائے ہے ایک رائے تو یہ ہے کہ ایک سلام کے ساتھ چاروں رکعتیں پڑھی جائیں، اور دوسری رائے یہ ہے کہ دو دو کر کے چار رکعتیں پڑھی جائیں، کیونکہ صحیح حدیث میں ہے «صلاۃ اللیل والنہارمثنیٰ مثنیٰ» رات اور دن کی (نفلی نمازیں) دو دو کر کے ہیں۔