(مرفوع) اخبرني محمد بن علي بن ميمون، قال: حدثنا الفريابي، قال: حدثنا جرير بن حازم، عن ثابت البناني، عن انس، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عن المنبر فيعرض له الرجل فيكلمه، فيقوم معه النبي صلى الله عليه وسلم حتى يقضي حاجته، ثم يتقدم إلى مصلاه فيصلي". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، قال: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، قال: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ فَيَعْرِضُ لَهُ الرَّجُلُ فَيُكَلِّمُهُ، فَيَقُومُ مَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ، ثُمَّ يَتَقَدَّمُ إِلَى مُصَلَّاهُ فَيُصَلِّي".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترتے پھر کوئی آدمی آپ کے سامنے آ جاتا تو آپ اس سے گفتگو کرتے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اپنی ضرورت پوری نہ کر لیتا یعنی اپنی بات ختم نہ کر لیتا، پھر آپ اپنی جائے نماز کی طرف بڑھتے، اور نماز پڑھاتے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 240 (1120)، سنن الترمذی/الصلاة 256 (الجمعة 21) (517)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 89 (1117)، (تحفة الأشراف: 260)، مسند احمد 3/119، 127، 213 (شاذ) (صحیح بات یہ ہے کہ واقعہ عشاء کی صلاة میں پیش آیا تھا، بقول امام بخاری اس میں جریر بن حازم سے وہم ہو گیا ہے، کما نقل عنہ الترمذی)»
قال الشيخ الألباني: شاذ والمحفوظ أن ذلك كان في صلاة العشاء
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1120) ترمذي (517) ابن ماجه (1117) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 332
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1420
1420۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم اس قسم کا ایک واقعہ صحیح مسلم میں ہے، جس میں دوران خطبہ میں، خطبہ چھوڑ کر سائل سے گفتگو کرنے کا ذکر ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 876] علاوہ ازیں اس قسم کا واقعہ کسی نماز کے موقع پر بھی پیش آیا تھا جیسا کہ جامع ترمذی میں ہے کہ نماز کی اقامت کہہ دی گئی تو ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ سے باتیں کرنے لگا حتیٰ کہ کچھ لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔ دیکھیے: [جامع الترمذي، الجمعة، حدیث: 518] نیز محققین علماء کے نزدیک مذکورہ روایت میں جمعے کا ذکر شاذ ہے، یعنی یہ واقعہ جمعے کا نہیں بلکہ عشاء کی نماز کا ہے۔ بنابریں اگر کوئی شخص یا امام کوئی ضروری بات کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں مگر دیگر لوگوں کی مصروفیت اور اذیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ضعیف سنن النسائي، للألباني، رقم: 1418، و ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 277/16]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1420
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1120
´منبر سے اترنے کے بعد امام بات چیت کر سکتا ہے۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ (خطبہ دے کر) منبر سے اترتے تو آدمی کوئی ضرورت آپ کے سامنے رکھتا تو آپ اس کے ساتھ کھڑے باتیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت پوری کر لیتا، یعنی اپنی گفتگو مکمل کر لیتا، پھر آپ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھاتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ثابت سے معروف نہیں ہے، یہ جریر بن حازم کے تفردات میں سے ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1120]
1120۔ اردو حاشیہ: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم اس قسم کا ایک واقعہ جس میں دوران خطبہ، خطبہ چھوڑ کر سائل سے گفتگو کرنے کا ذکر ہے۔ صحیح مسلم حدیث [876] میں ہے۔ علاوہ ازیں اس قسم کا واقعہ کسی نماز کے موقع پر بھی پیش آیا تھا۔ جیسے کہ جامع ترمذی میں ہے کہ نماز کی اقامت کہہ دی گئی تو ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنے لگا۔ حتیٰ کہ کچھ لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔ [ترمذي، حديث: 518، ابوداؤد، حديث: 201] اور مسئلہ یوں ہی ہے کہ اگر امام یا کوئی اور شخص کوئی ضرورت پوری کرنا چاہے، تو کوئی حرج نہیں مگر اہل جماعت کو اذیت نہیں ہونی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1120