(موقوف) اخبرنا احمد بن عبد الله بن الحكم قال حدثنا محمد بن جعفر قال حدثنا شعبة عن منصور عن عمرو بن مرة عن ابي عبيدة عن كعب بن عجرة قال: دخل المسجد وعبد الرحمن بن ام الحكم يخطب قاعدا فقال انظروا إلى هذا يخطب قاعدا وقد قال الله عز وجل {وإذا راوا تجارة او لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما} . (موقوف) أخبرنا أحمد بن عبد الله بن الحكم قال حدثنا محمد بن جعفر قال حدثنا شعبة عن منصور عن عمرو بن مرة عن أبي عبيدة عن كعب بن عجرة قال: دخل المسجد وعبد الرحمن بن أم الحكم يخطب قاعدا فقال انظروا إلى هذا يخطب قاعدا وقد قال الله عز وجل {وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما} .
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ مسجد میں آئے اور عبدالرحمٰن بن ام الحکم بیٹھ کر خطبہ دے رہے تھے تو انہوں نے کہا: اس شخص کو دیکھو بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما»”اور جب وہ کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں“(الجمعہ: ۱۱)۔
اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص غسل کرائے اور خود بھی غسل کرے، اور مسجد کے لیے سویرے نکل جائے، اور امام سے قریب رہے، اور خاموشی سے خطبہ سنے، پھر کوئی لغو کام نہ کرے، تو اسے ہر قدم کے عوض ایک سال کے روزے، اور قیام کا ثواب ملے گا“۔
ابوالزاہریہ کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے روز عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کے بغل میں بیٹھا تھا تو انہوں نے کہا: ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اے فلان! بیٹھ جاؤ تم نے (لوگوں کو) تکلیف دی ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ اس صورت میں ہے جب اگلی صفوں میں خالی جگہ نہ ہو لیکن اگر لوگوں نے خالی جگہ چھوڑ رکھی ہو تو گردنیں پھلانگ کر جانا درست ہو گا، یا یہ اس وقت کے ساتھ خاص ہے جب امام منبر پر بیٹھا ہو۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تھے، ایک آدمی (مسجد میں) آیا تو آپ نے اس سے پوچھا: ”کیا تم نے دو رکعتیں پڑھ لیں؟“ اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: ”تو پڑھ لو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کہ جمعہ سے پہلے کتنی سنتیں ہیں، اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں آنے والا دو رکعت پڑھ کر بیٹھے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص خطبہ جمعہ کے دوران بھی آئے تو وہ بھی مختصر طور پر دو رکعت ضرور پڑھے پھر خطبہ سنے تاہم خطبہ سے پہلے آنے والا شخص دو رکعت تحیۃالمسجد ادا کرنے کے بعد دو دو کر کے جتنے چاہے نوافل پڑھ سکتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے کہا: ”خاموش رہو“ اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اس نے لغو حرکت کی“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب تم اپنے ساتھ والے سے جمعہ کے دن کہو: ”خاموش رہو“ اور امام خطبہ دے رہا ہو تو تم نے لغو کام کیا“۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن منصور، عن ابي معشر زياد بن كليب، عن إبراهيم، عن علقمة، عن القرثع الضبي، وكان من القراء الاولين، عن سلمان، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من رجل يتطهر يوم الجمعة كما امر، ثم يخرج من بيته حتى ياتي الجمعة وينصت حتى يقضي صلاته، إلا كان كفارة لما قبله من الجمعة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنِ الْقَرْثَعِ الضَّبِّيِّ، وَكَانَ مِنَ الْقُرَّاءِ الْأَوَّلِينَ، عَنْ سَلْمَانَ، قال: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ رَجُلٍ يَتَطَهَّرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ كَمَا أُمِرَ، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ حَتَّى يَأْتِيَ الْجُمُعَةَ وَيُنْصِتُ حَتَّى يَقْضِيَ صَلَاتَهُ، إِلَّا كَانَ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ".
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی آدمی پاکی حاصل کرتا ہے جیسا کہ اسے حکم دیا گیا، پھر وہ اپنے گھر سے نکلتا ہے یہاں تک کہ وہ جمعہ میں آتا ہے، اور خاموش رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز ختم کر لے، تو (اس کا یہ عمل) اس کے ان گناہوں کے لیے کفارہ ہو گا جو اس سے پہلے کے جمعہ سے اس جمعہ تک ہوئے ہیں“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار , قالا: حدثنا محمد بن جعفر، قال: حدثنا شعبة، قال: سمعت ابا إسحاق يحدث، عن ابي عبيدة، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" علمنا خطبة الحاجة، الحمد لله نستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور انفسنا وسيئات اعمالنا، من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له، واشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله، ثم يقرا ثلاث آيات يايها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وانتم مسلمون سورة آل عمران آية 102، يايها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا الله الذي تساءلون به والارحام إن الله كان عليكم رقيبا سورة النساء آية 1، يايها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا سورة الاحزاب آية 70 , قال ابو عبد الرحمن: ابو عبيدة لم يسمع من ابيه شيئا , ولا عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود , ولا عبد الجبار بن وائل بن حجر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قال: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" عَلَّمَنَا خُطْبَةَ الْحَاجَةِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَقْرَأُ ثَلَاثَ آيَاتٍ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 102، يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا سورة النساء آية 1، يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا سورة الأحزاب آية 70 , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ شَيْئًا , وَلَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَلَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ حاجة ۱؎ سکھایا، اور وہ یہ ہے: «الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا من يهده اللہ فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله»”تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد اور گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، اور ہم اپنے نفسوں کی شر انگیزیوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں“، پھر آپ یہ تین آیتیں پڑھتے: «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون»”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا کہ اس سے ڈرنا چاہیئے، اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا“(آل عمران: ۱۰۲)۔ «يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا اللہ الذي تساءلون به والأرحام إن اللہ كان عليكم رقيبا»”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اور اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو، اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے“(الاحزاب: ۷۰) «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سديدا»”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صحیح و درست بات کہو“(النساء: ۱)۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ابوعبیدہ نے اپنے والد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے، نہ ہی عبدالرحمٰن بن عبداللہ ابن مسعود نے، اور نہ ہی عبدالجبار بن وائل بن حجر نے، (یعنی ان تینوں کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے)۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 33 (2118)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/النکاح 17 (1105)، سنن ابن ماجہ/النکاح 19 (1892)، (تحفة الأشراف: 9618)، مسند احمد 1/392، 432، سنن الدارمی/النکاح 20 (2248) (صحیح) (متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ’’ابو عبیدہ‘‘ اور ان کے باپ ”ابن مسعود‘‘ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، دیکھئے البانی کا رسالہ خطبة الحاجہ)»
وضاحت: ۱؎: حاجۃ کا لفظ عام ہے نکاح اور بیع وغیرہ سبھی چیزوں کو شامل ہے، اسی وجہ سے امام شافعی نے بیع و نکاح وغیرہ تمام عقود میں اس خطبہ کے پڑھنے کو مسنون قرار دیا ہے۔ نسائی کی اس سند میں بھی ابوعبیدہ ہیں، مگر ابوداؤد اور دیگر کی سندوں میں ”ابو عبیدہ“ کی جگہ ابوالاحوص ہیں، جن کا سماع ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (2118) ترمذي (1105) ابن ماجه (1892) وانظر الحديث الآتي (3279) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 332
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے جائے تو اسے چاہیئے کہ غسل کر لے“۔
ابراہیم بن نشیط سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن شہاب زہری سے جمعہ کے دن کے غسل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: سنت ہے، اور اسے مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا ہے، اور انہوں نے اپنے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منبر پر بیان کیا ہے۔