ابوالزاہریہ کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے روز عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کے بغل میں بیٹھا تھا تو انہوں نے کہا: ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اے فلان! بیٹھ جاؤ تم نے (لوگوں کو) تکلیف دی ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ اس صورت میں ہے جب اگلی صفوں میں خالی جگہ نہ ہو لیکن اگر لوگوں نے خالی جگہ چھوڑ رکھی ہو تو گردنیں پھلانگ کر جانا درست ہو گا، یا یہ اس وقت کے ساتھ خاص ہے جب امام منبر پر بیٹھا ہو۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1400
1400۔ اردو حاشیہ: یہ تب ہے جب آگے صفوں میں جگہ خالی نہ ہو۔ اگر آگے جگہ خالی ہے مگر لوگوں کی گردنیں پھلانگے بغیر وہاں پہنچا نہیں جا سکتا تو گردنیں پھلانگنا جائز ہے کیونکہ اس میں ان لوگوں کا قصور ہے کہ خالی جگہ چھوڑ کر پیچھے بیٹھے۔ اسی طرح امام بھی لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر منبر تک پہنچ سکتا ہے کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1400
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1118
´جمعہ کے دن خطبہ میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانا منع ہے۔` ابوزاہریہ کہتے ہیں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کے دن (مسجد میں) تھے، اتنے میں ایک شخص لوگوں کی گردنیں پھاندتا ہوا آیا تو عبداللہ بن بسر نے کہا: ایک شخص (اسی طرح) جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندتا ہوا آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے اس شخص سے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ، تم نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی ہے۔“[سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1118]
1118۔ اردو حاشیہ: ➊ جمعہ میں دیر سے آنا اور پھر لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے جگہ لینے کی کوشش کرنا انتہائی مکروہ کام ہے۔ مسلمان کا اکرام واجب ہے اور اسے ایذا دینا حرام ہے۔ ➋ ہاں اگر لوگ جہالت کی وجہ سے اگلی صفیں چھوڑ کر پیچھے بیٹھ جائیں تو ایسے لوگوں کی گردنیں پھلانگنا جائز ہو گا۔ کیونکہ انہوں نے از خود اپنی حرمت پامال کی پیچھے بیٹھے اور اگلی صفیں پوری نہیں کیں۔ ➌ البتہ خطیب امام کو شرعی ضرورت کے تحت اس عمل کی رخصت ہے۔ ایسے ہی جو بےوضو ہو جائے تو باہر جانا اس کے لئے ضروری ہو جاتا ہے۔ مگر پھر بھی ادب و اکرام سے گزرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1118