ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تلاوت قرآن کے سجدوں میں کہتے: «سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته»”میرے چہرہ نے سجدہ کیا اس ذات کے لیے جس نے اسے پیدا کیا، اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں اپنی قوت و طاقت سے بنائیں“۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم. قال: انبانا جرير، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن عائشة، قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فوجدته وهو ساجد وصدور قدميه نحو القبلة فسمعته يقول:" اعوذ برضاك من سخطك واعوذ بمعافاتك من عقوبتك واعوذ بك منك لا احصي ثناء عليك انت كما اثنيت على نفسك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. قال: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَوَجَدْتُهُ وَهُوَ سَاجِدٌ وَصُدُورُ قَدَمَيْهِ نَحْوَ الْقِبْلَةِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنَتْ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر پر) موجود نہیں پایا، تو دیکھا کہ آپ سجدے کی حالت میں ہیں، اور آپ کے دونوں قدموں کے پنجے قبلہ رخ ہیں، تو میں نے آپ کو سجدہ میں کہتے سنا: «أعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»”میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیری ناراضگی سے، میں پناہ مانگتا ہوں تیری معافی کی تیری سزا سے، اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری تجھ سے، میں تیری حمد و ثنا کا حق نہیں ادا کر سکتا، تو ایسے ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود کی ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا إبراهيم بن الحسن المصيصي المقسمي، قال: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، عن عطاء، قال: اخبرني ابن ابي مليكة، عن عائشة قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فظننت انه ذهب إلى بعض نسائه فتحسسته فإذا هو راكع او ساجد يقول:" سبحانك اللهم وبحمدك لا إله إلا انت" فقالت بابي انت وامي إني لفي شان وإنك لفي آخر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِصِّيصِيُّ الْمِقْسَمِيُّ، قال: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قال: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قالت: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ فَتَحَسَّسْتُهُ فَإِذَا هُوَ رَاكِعٌ أَوْ سَاجِدٌ يَقُولُ:" سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ" فَقَالَتْ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنِّي لَفِي شَأْنٍ وَإِنَّكَ لَفِي آخَرَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات (بستر پر) موجود نہیں پایا، تو میں نے گمان کیا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس چلے گئے ہیں، پھر میں نے آپ کو تلاش کیا تو اچانک کیا دیکھتی ہوں کہ آپ رکوع یا سجدہ کی حالت میں کہہ رہے ہیں: «سبحانك اللہم وبحمدك لا إله إلا أنت»”اے اللہ! تو پاک ہے، میں تیری تعریف کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتا ہوں، نہیں ہے کوئی معبود برحق مگر تو ہی“، تو وہ کہنے لگیں: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! میں کس خیال میں تھی اور آپ کس حال میں ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 42 (485)، (تحفة الأشراف: 16256)، مسند احمد 6/151، ویأتی عند المؤلف في عشرة النساء 4 برقم: (3413) (صحیح)»
(مرفوع) اخبرني هارون بن عبد الله، قال: حدثنا الحسن بن سوار، قال: حدثنا ليث بن سعد، عن معاوية بن صالح، عن عمرو بن قيس الكندي، انه سمع عاصم بن حميد يقول: سمعت عوف بن مالك يقول: قمت مع النبي صلى الله عليه وسلم فبدا فاستاك وتوضا، ثم قام فصلى فبدا فاستفتح من البقرة لا يمر بآية رحمة إلا وقف وسال ولا يمر بآية عذاب إلا وقف يتعوذ، ثم ركع فمكث راكعا بقدر قيامه يقول: في ركوعه سبحان ذي الجبروت والملكوت والكبرياء والعظمة، ثم سجد بقدر ركوعه يقول:" في سجوده سبحان ذي الجبروت والملكوت والكبرياء والعظمة، ثم قرا آل عمران ثم سورة ثم سورة فعل مثل ذلك". (مرفوع) أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ الْكِنْدِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَاصِمَ بْنَ حُمَيْدٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قُمْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَدَأَ فَاسْتَاكَ وَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى فَبَدَأَ فَاسْتَفْتَحَ مِنَ الْبَقَرَةِ لَا يَمُرُّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ وَسَأَلَ وَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ يَتَعَوَّذُ، ثُمَّ رَكَعَ فَمَكَثَ رَاكِعًا بِقَدْرِ قِيَامِهِ يَقُولُ: فِي رُكُوعِهِ سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ، ثُمَّ سَجَدَ بِقَدْرِ رُكُوعِهِ يَقُولُ:" فِي سُجُودِهِ سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ، ثُمَّ قَرَأَ آلَ عِمْرَانَ ثُمَّ سُورَةً ثُمَّ سُورَةً فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ".
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھا، پہلے آپ نے مسواک کی، پھر وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے، تو آپ نے سورۃ البقرہ شروع کی، آپ جب بھی کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ سے اس پر رحمت کا سوال کرتے، اور جب بھی عذاب کی کسی آیت سے گزرتے تو ٹھہرتے، اور اس کے عذاب سے اس کی پناہ مانگتے، پھر آپ نے رکوع کیا، تو رکوع میں اپنے قیام کے بقدر ٹھہرے رہے، آپ اپنے رکوع میں کہہ رہے تھے: «سبحان ذي الجبروت والملكوت والكبرياء والعظمة» پھر آپ نے اپنے رکوع کے بقدر سجدہ کیا، اور اپنے سجدے میں آپ کہہ رہے تھے: «سبحان ذي الجبروت والملكوت والكبرياء والعظمة»، پھر آپ نے دوسری رکعت میں سورۃ آل عمران پڑھی، پھر ایک اور سورۃ پڑھی، پھر ایک اور سورۃ پڑھی، آپ نے اسی طرح کیا۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن الاعمش، عن سعد بن عبيدة، عن المستورد بن الاحنف، عن صلة بن زفر، عن حذيفة، قال:" صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فاستفتح بسورة البقرة فقرا بمائة آية لم يركع فمضى قلت يختمها في الركعتين فمضى قلت يختمها، ثم يركع فمضى حتى قرا سورة النساء، ثم قرا سورة آل عمران، ثم ركع نحوا من قيامه يقول في ركوعه: سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم، ثم رفع راسه فقال: سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد واطال القيام، ثم سجد فاطال السجود يقول في سجوده سبحان ربي الاعلى سبحان ربي الاعلى سبحان ربي الاعلى لا يمر بآية تخويف او تعظيم لله عز وجل إلا ذكره". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الْأَحْنَفِ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قال:" صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَاسْتَفْتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَقَرَأَ بِمِائَةِ آيَةٍ لَمْ يَرْكَعْ فَمَضَى قُلْتُ يَخْتِمُهَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ فَمَضَى قُلْتُ يَخْتِمُهَا، ثُمَّ يَرْكَعُ فَمَضَى حَتَّى قَرَأَ سُورَةَ النِّسَاءِ، ثُمَّ قَرَأَ سُورَةَ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى لَا يَمُرُّ بِآيَةِ تَخْوِيفٍ أَوْ تَعْظِيمٍ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا ذَكَرَهُ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ نے سورۃ البقرہ شروع کر دی، آپ نے سو آیتیں پڑھ لیں لیکن رکوع نہیں کیا، اور آگے بڑھ گئے، میں نے اپنے جی میں کہا: لگتا ہے کہ آپ اسے دونوں رکعتوں میں ختم کر دیں گے، لیکن آپ برابر آگے بڑھتے رہے، تو میں نے اپنے جی میں کہا کہ آپ اسے ختم کر کے ہی پھر رکوع کریں گے، لیکن آپ سورت ختم کر کے آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ پوری سورۃ نساء آپ نے پڑھ ڈالی، پھر سورۃ اٰل عمران بھی پڑھ ڈالی، پھر تقریباً اپنے قیام ہی کے برابر رکوع میں رہے، اپنے رکوع میں کہہ رہے تھے: «سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم» پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، اور «سمع اللہ لمن حمده ربنا لك الحمد» کہا، اور دیر تک کھڑے رہے، پھر آپ نے سجدہ کیا تو دیر تک سجدہ میں رہے، آپ سجدے میں کہہ رہے تھے: «سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى» جب آپ کسی خوف کی یا اللہ تعالیٰ کی بڑائی کی آیت پر سے گزرتے، تو اللہ کا ذکر کرتے یعنی اس کی حمد و ثنا کرتے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں «سبوح قدوس رب الملائكة والروح»”تمام فرشتے اور جبرائیل کا رب ہر نقص و عیب سے پاک ہے“ کہتے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع قال حدثنا عبد الله بن إبراهيم بن عمر بن كيسان قال حدثني ابي عن وهب بن مانوس قال سمعت سعيد بن جبير قال سمعت انس بن مالك يقول: ما رايت احدا اشبه صلاة بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من هذا الفتى يعني عمر بن عبد العزيز فحزرنا في ركوعه عشر تسبيحات وفي سجوده عشر تسبيحات . (مرفوع) أخبرنا محمد بن رافع قال حدثنا عبد الله بن إبراهيم بن عمر بن كيسان قال حدثني أبي عن وهب بن مأنوس قال سمعت سعيد بن جبير قال سمعت أنس بن مالك يقول: ما رأيت أحدا أشبه صلاة بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من هذا الفتى يعني عمر بن عبد العزيز فحزرنا في ركوعه عشر تسبيحات وفي سجوده عشر تسبيحات .
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے اس نوجوان یعنی عمر بن عبدالعزیز سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ نماز کسی کی نہیں دیکھی، تو ہم نے ان کے رکوع میں دس تسبیحوں کا، اور سجدے میں بھی دس تسبیحوں کا اندازہ لگایا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 154 (888)، (تحفة الأشراف: 859)، مسند احمد 3/162، وانظر حدیث رقم: 982 (ضعیف) (اس کے راوی ’’وہب‘‘ مجہول الحال ہیں، لیکن ’’عمر بن عبدالعزیز‘‘ کی نماز کے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نماز سے مشابہ ہونے کی تائید ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ہے (رقم: 983) سے ہوتی ہے)»
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن يزيد المقرئ ابو يحيى بمكة وهو بصري، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا همام، قال: حدثنا إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، ان علي بن يحيى بن خلاد بن مالك بن رافع بن مالك حدثه، عن ابيه، عن عمه رفاعة بن رافع، قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس ونحن حوله إذ دخل رجل فاتى القبلة فصلى فلما قضى صلاته جاء فسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى القوم فقال له: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وعليك اذهب فصل فإنك لم تصل" فذهب فصلى فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يرمق صلاته ولا يدري ما يعيب منها فلما قضى صلاته جاء فسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى القوم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وعليك اذهب فصل فإنك لم تصل" فاعادها مرتين او ثلاثا فقال الرجل يا رسول الله ما عبت من صلاتي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم" إنها لم تتم صلاة احدكم حتى يسبغ الوضوء كما امره الله عز وجل فيغسل وجهه ويديه إلى المرفقين ويمسح براسه ورجليه إلى الكعبين ثم يكبر الله عز وجل ويحمده ويمجده قال همام وسمعته يقول ويحمد الله ويمجده ويكبره قال فكلاهما قد سمعته يقول قال ويقرا ما تيسر من القرآن مما علمه الله واذن له فيه ثم يكبر ويركع حتى تطمئن مفاصله وتسترخي، ثم يقول سمع الله لمن حمده، ثم يستوي قائما حتى يقيم صلبه، ثم يكبر ويسجد حتى يمكن وجهه وقد سمعته يقول جبهته حتى تطمئن مفاصله وتسترخي ويكبر فيرفع حتى يستوي قاعدا على مقعدته ويقيم صلبه، ثم يكبر فيسجد حتى يمكن وجهه ويسترخي فإذا لم يفعل هكذا لم تتم صلاته". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ أَبُو يَحْيَى بِمَكَّةَ وَهُوَ بَصْرِيٌّ، قال: حَدَّثَنَا أَبِي، قال: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قال: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ يَحْيَى بْنِ خَلَّادِ بْنِ مَالِكِ بْنِ رَافِعِ بْنِ مَالِكٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، قال: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَنَحْنُ حَوْلَهُ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَأَتَى الْقِبْلَةَ فَصَلَّى فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى الْقَوْمِ فَقَالَ لَهُ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَعَلَيْكَ اذْهَبْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ" فَذَهَبَ فَصَلَّى فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمُقُ صَلَاتَهُ وَلَا يَدْرِي مَا يَعِيبُ مِنْهَا فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى الْقَوْمِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَعَلَيْكَ اذْهَبْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ" فَأَعَادَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَقَالَ الرَّجُلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عِبْتَ مِنْ صَلَاتِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّهَا لَمْ تَتِمَّ صَلَاةُ أَحَدِكُمْ حَتَّى يُسْبِغَ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَيَغْسِلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ وَيَمْسَحَ بِرَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ثُمَّ يُكَبِّرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَحْمَدَهُ وَيُمَجِّدَهُ قَالَ هَمَّامٌ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ وَيَحْمَدَ اللَّهَ وَيُمَجِّدَهُ وَيُكَبِّرَهُ قَالَ فَكِلَاهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يَقُولُ قَالَ وَيَقْرَأَ مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ وَأَذِنَ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُكَبِّرَ وَيَرْكَعَ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ وَتَسْتَرْخِيَ، ثُمَّ يَقُولَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَسْتَوِيَ قَائِمًا حَتَّى يُقِيمَ صُلْبَهُ، ثُمَّ يُكَبِّرَ وَيَسْجُدَ حَتَّى يُمَكِّنَ وَجْهَهُ وَقَدْ سَمِعْتُهُ يَقُولُ جَبْهَتَهُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ وَتَسْتَرْخِيَ وَيُكَبِّرَ فَيَرْفَعَ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا عَلَى مَقْعَدَتِهِ وَيُقِيمَ صُلْبَهُ، ثُمَّ يُكَبِّرَ فَيَسْجُدَ حَتَّى يُمَكِّنَ وَجْهَهُ وَيَسْتَرْخِيَ فَإِذَا لَمْ يَفْعَلْ هَكَذَا لَمْ تَتِمَّ صَلَاتُهُ".
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے، اور ہم لوگ آپ کے اردگرد تھے، اتنے میں ایک شخص آیا اور وہ قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھنے لگا، جب وہ اپنی نماز پوری کر چکا تو آیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو سلام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تم پر بھی سلامتی ہو، جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“، تو وہ گیا، اور اس نے جا کر پھر سے نماز پڑھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز کو کنکھیوں سے دیکھ رہے تھے لیکن وہ یہ جان نہیں رہا تھا کہ اس میں وہ کیا غلطی کر رہا ہے؟ تو جب وہ اپنی نماز پوری کر چکا تو آیا، اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو سلام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس سے فرمایا: ”تم پر بھی سلامتی ہو، جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“، چنانچہ اس نے دو یا تین بار نماز دہرائی، پھر اس شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! میری نماز میں آپ نے کیا خامی پائی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کی نماز پوری نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کر لے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کے کرنے کا حکم دیا ہے، وہ اپنا چہرہ دھوئے، اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئے، اپنے سر کا مسح کرے، اور اپنے دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھوئے، پھر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرے (یعنی تکبیر تحریمہ کہے) اور اس کی حمد و ثناء اور بزرگی بیان کرے“(یعنی دعائے ثناء پڑھے)۔ ہمام کہتے ہیں: میں نے اسحاق کو «ويحمد اللہ ويمجده ويكبره» بھی کہتے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دونوں طرح سے انہیں کہتے سنا ہے۔ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور قرآن میں سے حسب توفیق اور مرضی الٰہی جو آسان ہو پڑھے، پھر ”اللہ اکبر“ کہے، اور رکوع کرے یہاں تک کہ اس کے تمام جوڑ اپنی جگہ آ جائیں، اور ڈھیلے پڑ جائیں، پھر «سمع اللہ لمن حمده» کہے، پھر سیدھا کھڑا ہو جائے یہاں تک اس کی پیٹھ برابر ہو جائے، پھر ”اللہ اکبر“ کہے، اور سجدہ کرے یہاں تک کہ وہ اپنا چہرہ زمین پر ٹکا دے“، (میں نے اسحاق کو ”اپنی پیشانی بھی“ کہتے سنا ہے)، ”اور تمام جوڑ اپنی جگہ آ جائیں اور ڈھیلے پڑ جائیں، پھر اللہ اکبر کہے، اور اپنا سر اٹھائے یہاں تک کہ اپنی سرین پر سیدھا ہو کر بیٹھ جائے، اور اپنی پیٹھ سیدھی کر لے، پھر ”اللہ اکبر“ کہے، اور سجدہ کرے یہاں تک کہ وہ اپنا چہرہ زمین سے اچھی طرح ٹکا دے، اور ڈھیلا پڑ جائے، اگر اس نے اس طرح نہیں کیا تو اس کی نماز پوری نہیں ہوئی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مؤلف نے اس سے سجدے میں تسبیحات نہ پڑھنے پر استدلال اس طرح کیا ہے کہ اس میں تسبیحات کا ذکر نہیں ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں دیگر بہت سی واجبات کا بھی ذکر نہیں کیا ہے، یہاں صرف تعدیل ارکان پر توجہ دلانا مقصود ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے، لہٰذا (سجدے میں) تم لوگ بکثرت دعا کیا کرو“۔
ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے وضو اور آپ کی حاجت کا پانی لے کر آتا تھا، تو ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مانگنا ہو مجھ سے مانگو“، میں نے کہا: میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے علاوہ اور بھی کچھ؟“ میں نے عرض کیا: بس یہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنے اوپر کثرت سجدہ کو لازم کر کے میری مدد کرو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کثرت سے سجدے کیا کرو اس لیے کہ نماز کی عبادت اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، شاید تمہاری کثرت سجود سے مجھے تمہارے لیے اپنی رفاقت کی سفارش کا موقع مل جائے۔