ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ کوئی چیز اتنی پسندیدگی سے نہیں سنتا جتنی خوش الحان نبی کی زبان سے قرآن سنتا ہے، جو اسے خوش الحانی کے ساتھ بلند آواز سے پڑھتا ہو“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ما اذن الله عز وجل لشيء يعني اذنه لنبي يتغنى بالقرآن". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا أَذِنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِشَيْءٍ يَعْنِي أَذَنَهُ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نبی کے خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کو اللہ تعالیٰ جس طرح سنتا ہے اس طرح کسی اور چیز کو نہیں سنتا“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی قرأت سنی تو فرمایا: ”انہیں آل داود کے لحن (سُر) میں سے ایک لحن عطا کیا گیا ہے“۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی قرأت سنی تو فرمایا: ”یقیناً انہیں آل داود کے لحن (سُر) میں سے ایک لحن عطا کیا گیا ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: حدثنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قراءة ابي موسى فقال:" لقد اوتي هذا مزمارا من مزامير آل داود عليه السلام". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةَ أَبِي مُوسَى فَقَالَ:" لَقَدْ أُوتِيَ هَذَا مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی قرأت سنی تو فرمایا: ”انہیں داود کے لحن (سُر) میں سے ایک لحن عطا کیا گیا ہے“۔
یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت اور نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: تم کہاں اور آپ کی نماز کہاں! پھر انہوں نے آپ کی قرأت بیان کی جس کا ایک ایک حرف بالکل واضح تھا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 355 (1466) مطولاً، سنن الترمذی/فضائل القرآن 23 (2923) مطولاً، (تحفة الأشراف: 18226)، مسند احمد 6/294، 297، 300، 308، وأعادہ المؤلف برقم: 1630 (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ اس کے راوی ’’یعلی‘‘ لین الحدیث ہیں، دیکھئے إرواء رقم: 343)»
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله بن المبارك، عن يونس، عن الزهري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، ان ابا هريرة حين استخلفه مروان على المدينة:" كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة كبر، ثم يكبر حين يركع فإذا رفع راسه من الركعة قال: سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ثم يكبر حين يهوي ساجدا ثم يكبر حين يقوم من الثنتين بعد التشهد يفعل مثل ذلك حتى يقضي صلاته فإذا قضى صلاته وسلم اقبل على اهل المسجد فقال والذي نفسي بيده إني لاشبهكم صلاة برسول الله صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حِينَ اسْتَخْلَفَهُ مَرْوَانُ عَلَى الْمَدِينَةِ:" كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنَ الثِّنْتَيْنِ بَعْدَ التَّشَهُّدِ يَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى يَقْضِيَ صَلَاتَهُ فَإِذَا قَضَى صَلَاتَهُ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَى أَهْلِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَشْبَهُكُمْ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ جس وقت مروان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا، وہ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب وہ رکوع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو «سمع اللہ لمن حمده»، «ربنا ولك الحمد» کہتے، پھر جب سجدہ کے لیے جھکتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب تشہد کے بعد دوسری رکعت سے اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے، (ہر رکعت میں) اسی طرح کرتے یہاں تک کہ اپنی نماز پوری کر لیتے، (ایک بار) جب انہوں نے اپنی نماز پوری کر لی اور سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہت رکھتا ہوں۔
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے، تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ آپ کی کانوں کی لو تک پہنچ جاتے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا افتتح الصلاة يرفع يديه حتى يحاذي منكبيه وإذا ركع وإذا رفع راسه من الركوع". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، یہاں تک کہ آپ انہیں اپنے مونڈھوں کے بالمقابل لے جاتے ۱؎، اور جب رکوع کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے۔
وضاحت: ۱؎: ان دونوں روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں توسّع ہے کہ کبھی آپ دونوں ہاتھ کانوں کے اطراف تک اٹھاتے اور کبھی مونڈھوں کے بالمقابل لے جاتے، اور بعض نے دونوں میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ ہاتھوں کی ہتھیلیاں تو مونڈھوں کے بالمقابل رکھتے، اور انگلیوں کے سرے کانوں کے بالمقابل رکھتے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور پہلی بار اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر انہوں نے دوبارہ ایسا نہیں کیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎ ایسا ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرتے رہے ہوں، کیونکہ یہ فرض و واجب تو ہے نہیں، اس لیے ممکن ہے بیان جواز کے لیے کبھی آپ نے رفع یدین نہ کیا ہو، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسی حالت میں آپ کو دیکھا ہو، ویسے ان سے تو کچھ ایسی باتیں بھی منقول ہیں کہ جن کا کوئی بھی امام قائل نہیں ہے، جیسے رکوع میں تطبیق (دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملا کر دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھنا) اور معوّذتین کا ان کے مصحف (قرآن) میں نہ ہونا، وغیرہ، تو ممکن ہے ان کی یہ روایت بھی انہی باتوں میں سے ہو، رفع یدین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مستمرہ و راتبہ میں سے نہ ہوتا تو آپ کی وفات کے بعد بیسیوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رفع یدین نہ کرتے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (748) ترمذي (257) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 328