یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت اور نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: تم کہاں اور آپ کی نماز کہاں! پھر انہوں نے آپ کی قرأت بیان کی جس کا ایک ایک حرف بالکل واضح تھا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 355 (1466) مطولاً، سنن الترمذی/فضائل القرآن 23 (2923) مطولاً، (تحفة الأشراف: 18226)، مسند احمد 6/294، 297، 300، 308، وأعادہ المؤلف برقم: 1630 (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ اس کے راوی ’’یعلی‘‘ لین الحدیث ہیں، دیکھئے إرواء رقم: 343)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1023
1023۔ اردو حاشیہ: قرأت صاف ستھری ہونی چاہیے۔ ہر ایک لفظ الگ الگ سمجھ میں آنا چاہیے۔ ہر آیت اور جملے پر ٹھہرنا چاہیے تاکہ پڑھتے اور سنتے وقت معانی و مفہوم کی طرف توجہ ہو۔ معانی دل میں نقش ہوں اور دل پر اثر ہو اور نصیحت حاصل ہو جو قرآن کا اصل مقصد ہے، ورنہ خالی تجوید سے تو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1023
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2927
´سورۃ فاتحہ کی قرأت کا بیان۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے، آپ: «الحمد لله رب العالمين» پڑھتے، پھر رک جاتے، پھر «الرحمن الرحيم» پڑھتے پھر رک جاتے، اور «ملك يوم الدين» پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب القراءات/حدیث: 2927]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: رسول اکرمﷺیعنی ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ کی جگہ ﴿مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ پڑھتے تھے۔
2؎: یعنی: ابوعبید قاسم بن سلام ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ کی بجائے ﴿مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ کو پڑھنا پسند کرتے تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2927