مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: ”جب تم میں سے کوئی کسی قوم کی زیارت کے لیے جائے تو وہ انہیں ہرگز نماز نہ پڑھائے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: إلا یہ کہ وہ لوگ اس کی اجازت دیں جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے، جو اوپر گزر چکی ہے جس میں «إلا بإذنہ» کے الفاظ وارد ہیں۔
(مرفوع) اخبرنا هارون بن عبد الله، قال: حدثنا معن، قال: حدثنا مالك. ح، قال: وحدثنا الحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له، عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن محمود بن الربيع، ان عتبان بن مالك كان يؤم قومه وهو اعمى وانه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنها تكون الظلمة والمطر والسيل وانا رجل ضرير البصر فصل يا رسول الله في بيتي مكانا اتخذه مصلى فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" اين تحب ان اصلي لك" فاشار إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قال: حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح، قال: وَحَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ كَانَ يَؤُمُّ قَوْمَهُ وَهُوَ أَعْمَى وَأَنَّهُ قال لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهَا تَكُونُ الظُّلْمَةُ وَالْمَطَرُ وَالسَّيْلُ وَأَنَا رَجُلٌ ضَرِيرُ الْبَصَرِ فَصَلِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ لَكَ" فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ مِنَ الْبَيْتِ فَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
محمود بن ربیع سے روایت ہے کہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے قبیلہ کی امامت کرتے تھے اور وہ نابینا تھے، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: رات میں تاریکی ہوتی ہے اور کبھی بارش ہوتی ہے اور راستے پانی میں بھر جاتا ہے، اور میں آنکھوں کا اندھا آدمی ہوں، تو اللہ کے رسول! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں اسے مصلیٰ بنا لوں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اور آپ نے پوچھا: ”تم کہاں نماز پڑھوانی چاہتے ہو؟“ انہوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ میں نماز پڑھی ۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا موسى بن عبد الرحمن المسروقي، حدثنا حسين بن علي، عن زائدة، عن سفيان، عن ايوب، قال: حدثني عمرو بن سلمة الجرمي، قال: كان يمر علينا الركبان فنتعلم منهم القرآن فاتى ابي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ليؤمكم اكثركم قرآنا فجاء ابي فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" ليؤمكم اكثركم قرآنا فنظروا فكنت اكثرهم قرآنا فكنت اؤمهم وانا ابن ثمان سنين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْرُوقِيُّ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَيُّوبَ، قال: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ الْجَرْمِيُّ، قال: كَانَ يَمُرُّ عَلَيْنَا الرُّكْبَانُ فَنَتَعَلَّمُ مِنْهُمُ الْقُرْآنَ فَأَتَى أَبِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لِيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا فَجَاءَ أَبِي فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لِيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا فَنَظَرُوا فَكُنْتُ أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا فَكُنْتُ أَؤُمُّهُمْ وَأَنَا ابْنُ ثَمَانِ سِنِينَ".
عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے قرآن سیکھتے تھے (جب) میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو“، تو جب میرے والد لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو“، تو لوگوں نے نگاہ دوڑائی تو ان میں سب سے بڑا قاری میں ہی تھا، چنانچہ میں ہی ان کی امامت کرتا تھا، اور اس وقت میں آٹھ سال کا بچہ تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 637 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوداؤد کی روایت میں ۷ سال کا ذکر ہے، اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مکلف نابالغ بچہ مکلف لوگوں کی امامت کر سکتا ہے، اس لیے کہ «یؤم القوم أقراہم لکتاب اللہ» کہ عموم میں صبی ممیز (باشعور بچہ) بھی داخل ہے، اور کتاب و سنت میں کوئی بھی نص ایسا نہیں جو اس سے متعارض و متصادم ہو، رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ نے انہیں اپنے اجتہاد سے اپنا امام بنایا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں تھی، تو یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ نزول وحی کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا، اگر یہ چیز درست نہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دے دی جاتی، اور آپ اس سے ضرور منع فرما دیتے۔
(مرفوع) اخبرنا زياد بن ايوب، قال: حدثنا إسماعيل، قال: حدثنا عبد العزيز، عن انس، قال:" اقيمت الصلاة ورسول الله صلى الله عليه وسلم نجي لرجل فما قام إلى الصلاة حتى نام القوم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، قال:" أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَجِيٌّ لِرَجُلٍ فَمَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ حَتَّى نَامَ الْقَوْمُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص سے راز داری کی باتیں کر رہے تھے، تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ سونے لگے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ہو سکتا ہے یہ گفتگو کسی ضروری امر پر مشتمل رہی ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان جواز کے لیے ایسا کیا ہو، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اقامت میں اور نماز شروع کرنے میں فصل کرنا نماز کے لیے مضر نہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی، تو لوگوں نے اپنی صفیں درست کیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے سے نکل کر نماز پڑھنے کی جگہ پر آ کر کھڑے ہوئے، پھر آپ کو یاد آیا کہ غسل نہیں کیا ہے ۱؎ تو آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”تم اپنی جگہوں پر رہو“، پھر آپ واپس اپنے گھر گئے پھر نکل کر ہمارے پاس آئے، اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور ہم صف باندھے کھڑے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عبدة، عن حماد بن زيد، ثم ذكر كلمة معناها قال: حدثنا ابو حازم، قال سهل بن سعد كان قتال بين بني عمرو بن عوف فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فصلى الظهر ثم اتاهم ليصلح بينهم ثم قال لبلال:" يا بلال، إذا حضر العصر ولم آت فمر ابا بكر فليصل بالناس" فلما حضرت اذن بلال، ثم اقام فقال لابي بكر رضي الله عنه تقدم فتقدم ابو بكر فدخل في الصلاة، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم: فجعل يشق الناس حتى قام خلف ابي بكر وصفح القوم وكان ابو بكر إذا دخل في الصلاة لم يلتفت فلما راى ابو بكر التصفيح لا يمسك عنه التفت فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده فحمد الله عز وجل على قول رسول الله صلى الله عليه وسلم له امضه، ثم مشى ابو بكر القهقرى على عقبيه فتاخر فلما راى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم تقدم فصلى بالناس فلما قضى صلاته قال:" يا ابا بكر ما منعك إذ اومات إليك ان لا تكون مضيت"، فقال: لم يكن لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال للناس:" إذا نابكم شيء فليسبح الرجال النساء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا قال: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قال سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَتَاهُمْ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ قَالَ لِبِلَالٍ:" يَا بِلَالُ، إِذَا حَضَرَ الْعَصْرُ وَلَمْ آتِ فَمُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" فَلَمَّا حَضَرَتْ أَذَّنَ بِلَالٌ، ثُمَّ أَقَامَ فَقَالَ لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَقَدَّمْ فَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَدَخَلَ فِي الصَّلَاةِ، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَجَعَلَ يَشُقُّ النَّاسَ حَتَّى قَامَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ وَصَفَّحَ الْقَوْمُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ لَمْ يَلْتَفِتْ فَلَمَّا رَأَى أَبُو بَكْرٍ التَّصْفِيحَ لَا يُمْسَكُ عَنْهُ الْتَفَتَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ امْضِهْ، ثُمَّ مَشَى أَبُو بَكْرٍ الْقَهْقَرَى عَلَى عَقِبَيْهِ فَتَأَخَّرَ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقَدَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَنْ لَا تَكُونَ مَضَيْتَ"، فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ لِلنَّاسِ:" إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فَلْيُسَبِّحِ الرِّجَالُ النِّسَاءُ".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں آپس میں لڑائی ہوئی، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی تو آپ نے ظہر پڑھی، پھر ان کے پاس آئے تاکہ ان میں صلح کرا دیں، اور بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”بلال! جب عصر کا وقت آ جائے اور میں نہ آ سکوں تو ابوبکر سے کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں“، چنانچہ جب عصر کا وقت آیا، تو بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر اقامت کہی، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آگے بڑھیے، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اور نماز پڑھانے لگے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور لوگوں کو چیرتے ہوئے آگے آئے ۱؎ یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے، تو لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کر دیں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ جب وہ نماز شروع کر دیتے تو کسی اور طرف متوجہ نہیں ہوتے، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ برابر تالی بج رہی ہے تو وہ متوجہ ہوئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ”تم نماز جاری رکھو“، تو اس بات پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ اپنی ایڑیوں کے بل الٹے چل کر پیچھے آ گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ نے آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر جب اپنی نماز پوری کر چکے تو آپ نے فرمایا: ”ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی؟“ تو انہوں نے عرض کیا: ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کرے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ”جب تمہیں نماز کے اندر کوئی بات پیش آ جائے، تو مرد سبحان اللہ کہیں، اور عورتیں تالی بجائیں“۔
وضاحت: ۱؎: صفوں کو چیر کر اندر داخل ہونا درست نہیں، پھر یا تو امام کے لیے یہ جائز ہو، یا پھر آپ نے پہلی صف میں خالی جگہ دیکھی ہو اُسے پُر کرنے کے لیے آپ نے ایسا کیا ہو۔
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن ابن عيينة، عن الزهري، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سقط من فرس على شقه الايمن فدخلوا عليه يعودونه فحضرت الصلاة فلما قضى الصلاة قال:" إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا سجد فاسجدوا وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا لك الحمد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ مِنْ فَرَسٍ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ يَعُودُونَهُ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے اپنے داہنے پہلو پر گر پڑے، تو لوگ آپ کی عیادت کرنے آئے، اور نماز کا وقت آپ پہنچا، جب آپ نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: ”امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 18 (378)، والأذان 51 (689)، 82 (732)، 128 (805) مطولاً، تقصیر الصلاة 17 (1114)، صحیح مسلم/الصلاة 19 (411)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة 144 (1238)، (تحفة الأشراف: 1485)، موطا امام مالک/الجماعة 5 (16)، مسند احمد 3/110، 162، سنن الدارمی/الصلاة 44 (1291)، ویأتی عند المؤلف برقم: 1062 (صحیح)»
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں پیچھے رہنے کا عمل دیکھا تو آپ نے فرمایا: ”تم لوگ آگے آؤ اور میری اقتداء کرو، اور جو تمہارے بعد ہیں وہ تمہاری اقتداء کریں، یاد رکھو کچھ لوگ برابر (اگلی صفوں سے) پیچھے رہتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی انہیں (اپنی رحمت سے یا اپنی جنت سے) پیچھے کر دیتا ہے“۱؎۔