سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: اذان کے احکام و مسائل
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
حدیث نمبر: 677
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن قدامة، حدثنا جرير، عن مسعر، عن مجمع، عن ابي امامة بن سهل، قال: سمعت معاوية رضي الله عنه، يقول: سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمع المؤذن، فقال مثل ما قال.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ مُجَمِّعٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، قال: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعَ الْمُؤَذِّنَ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ.
ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنا تو جیسے اس نے کہا ویسے ہی آپ نے بھی کہا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، وقد أخرجہ المؤلف فی الیوم واللیلة برقم: (349) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: سكت عنه الشيخ

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
36. بَابُ: الْقَوْلِ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ حَىَّ عَلَى الصَّلاَةِ حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ
36. باب: جب مؤذن «حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح» کہے تو سننے والا کیا کہے؟
Chapter: What Is To Be Said When The Mu'adhdhin Says Hayya 'Alas-Salah, Hayya 'Alal-Falah (Come to Prayer; Co
حدیث نمبر: 678
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى وإبراهيم بن الحسن المقسمي، قالا: حدثنا حجاج، قال ابن جريج: اخبرني عمرو بن يحيى، ان عيسى بن عمر اخبره، عن عبد الله بن علقمة بن وقاص، عن علقمة بن وقاص، قال: إني عند معاوية إذ اذن مؤذنه، فقال معاوية كما قال المؤذن، حتى إذا قال:" حي على الصلاة، قال: لا حول ولا قوة إلا بالله، فلما قال: حي على الفلاح، قال: لا حول ولا قوة إلا بالله، وقال بعد ذلك ما قال المؤذن"، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول مثل ذلك.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِقْسَمِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قال ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، أَنَّ عِيسَى بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، قال: إِنِّي عِنْدَ مُعَاوِيَةَ إِذْ أَذَّنَ مُؤَذِّنُهُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ كَمَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ، حَتَّى إِذَا قَالَ:" حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَلَمَّا قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، وَقَالَ بَعْدَ ذَلِكَ مَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ"، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مِثْلَ ذَلِكَ.
علقمہ بن وقاص کہتے ہیں کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ان کے مؤذن نے اذان دی، تو آپ ویسے ہی کہتے رہے جیسے مؤذن کہہ رہا تھا یہاں تک کہ جب اس نے «حى على الصلاة» کہا تو انہوں نے: «لا حول ولا قوة إلا باللہ» کہا، پھر جب اس نے «حى على الفلاح» کہا تو انہوں نے: «لا حول ولا قوة إلا باللہ» کہا، اور اس کے بعد مؤذن جس طرح کہتا رہا وہ بھی ویسے کہتے رہے پھر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کہتے ہوئے سنا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11431)، مسند احمد 4/91، 98، سنن الدارمی/الصلاة 10 (1239) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
37. بَابُ: الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ الأَذَانِ
37. باب: اذان کے بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر درود (صلاۃ) بھیجنے کا بیان۔
Chapter: Saying Salah Upon The Prophet (PBUH) After The Adhan
حدیث نمبر: 679
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا سويد، قال: انبانا عبد الله، عن حيوة بن شريح، ان كعب بن علقمة، سمع عبد الرحمن بن جبير مولى نافع بن عمرو القرشي، يحدث، انه سمع عبد الله بن عمرو، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا سمعتم المؤذن، فقولوا مثل ما يقول وصلوا علي، فإنه من صلى علي صلاة صلى الله عليه عشرا، ثم سلوا الله لي الوسيلة فإنها منزلة في الجنة لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله ارجو ان اكون انا هو، فمن سال لي الوسيلة حلت له الشفاعة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدٌ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، أَنَّ كَعْبَ بْنَ عَلْقَمَةَ، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ مَوْلَى نَافِعِ بْنِ عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ، يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ وَصَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: جب مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے، اور مجھ پر صلاۃ و سلام ۱؎ بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک بار صلاۃ بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت و برکت بھیجتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ ۲؎ طلب کرو کیونکہ وہ جنت میں ایک درجہ و مرتبہ ہے جو کسی کے لائق نہیں سوائے اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کے، اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں، تو جو میرے لیے وسیلہ طلب کرے گا، اس پر میری شفاعت واجب ہو جائے گی ۳؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 7 (384)، سنن ابی داود/الصلاة 36 (523)، سنن الترمذی/المناقب 1 (3614)، (تحفة الأشراف: 8871)، مسند احمد 2/168، وفی الیوم واللیلة (45) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صلاۃ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کے معنی رحمت و مغفرت کے ہیں، اور فرشتوں کی طرف ہو تو مغفرت طلب کرنے کے ہیں، اور بندوں کی طرف ہو تو دعا کرنے کے ہیں۔ ۲؎: وسیلہ کے معنی قرب کے، اور اس طریقہ کے ہیں جس سے انسان اپنے مقصود تک پہنچ جائے، یہاں مراد جنت کا وہ درجہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا۔ ۳؎: بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان اور توحید پر ہوا ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
38. بَابُ: الدُّعَاءِ عِنْدَ الأَذَانِ
38. باب: اذان سننے کے بعد کی دعا کا بیان۔
Chapter: The Supplication Following The Adhan
حدیث نمبر: 680
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن الليث، عن الحكيم بن عبد الله، عن عامر بن سعد، عن سعد بن ابي وقاص، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من قال حين يسمع المؤذن: وانا اشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له وان محمدا عبده ورسوله، رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا، غفر له ذنبه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ اللَّيْثِ، عَنْ الْحُكَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ: وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مؤذن (کی اذان) سن کر یہ کہا: «وأنا أشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله رضيت باللہ ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا» اور میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے، اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 7 (386)، سنن ابی داود/الصلاة 36 (525)، سنن الترمذی/الصلاة 42 (210)، سنن ابن ماجہ/الأذان 4 (721)، (تحفة الأشراف: 3877)، مسند احمد 1/181، فی الیوم واللیلة (73) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 681
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور، قال: حدثنا علي بن عياش، قال: حدثنا شعيب، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قال حين يسمع النداء: اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة، آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه المقام المحمود الذي وعدته، إلا حلت له شفاعتي يوم القيامة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ: اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ الَّذِي وَعَدْتَهُ، إِلَّا حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی: «اللہم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه المقام المحمود الذي وعدته إلا حلت له شفاعتي يوم القيامة» اے اللہ! اس کامل پکار اور قائم رہنے والی صلاۃ کے رب! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ ۱؎ اور فضیلت ۲؎ عطا فرما، اور مقام محمود ۳؎ میں پہنچا جس کا تو نے وعدہ کیا ہے ۴؎ تو قیامت کے دن اس پر میری شفاعت نازل ہو گی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 8 (614)، تفسیر الإسراء 11 (4719)، سنن ابی داود/الصلاة 38 (529)، سنن الترمذی/الصلاة 43 (211)، سنن ابن ماجہ/الأذان 4 (723)، (تحفة الأشراف: 3046)، وفی الیوم واللیلة (46) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: وسیلہ جنت کے درجات میں سے ایک اعلی درجہ کا نام ہے۔ ۲؎: فضیلت وہ اعلی مرتبہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصیت کے ساتھ تمام مخلوق پر حاصل ہو گا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ وسیلہ ہی کی تفسیر ہو۔ ۳؎: مقام محمود یہ وہ مقام ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کرے گا، اور اسی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ شفاعت عظمی فرمائیں گے جس کے بعد لوگوں کا حساب و کتاب ہو گا۔ ۴؎: بیہقی کی روایت میں اس دعا کے بعد «إنك لا تخلف الميعاد» کا اضافہ ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، اسی طرح اس دعا کے پڑھتے وقت کچھ لوگ «یا ا ٔرحم الراحمین» کا اضافہ کرتے ہیں، اس اضافہ کا بھی کتب حدیث میں کہیں وجود نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
39. بَابُ: الصَّلاَةِ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ
39. باب: اذان اور اقامت کے درمیان سنت (نفل نماز) پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Prayer Between The Adhan And The Iqamah
حدیث نمبر: 682
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، عن يحيى، عن كهمس، قال: حدثنا عبد الله بن بريدة، عن عبد الله بن مغفل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بين كل اذانين صلاة، بين كل اذانين صلاة، بين كل اذانين صلاة لمن شاء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ كَهْمَسٍ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ لِمَنْ شَاءَ".
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دو اذان ۱؎ کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذان کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذان کے درمیان ایک نماز ہے، جو چاہے اس کے لیے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 14 (624)، 16 (627)، صحیح مسلم/المسافرین 56 (838)، سنن ابی داود/الصلاة 300 (1283)، سنن الترمذی/الصلاة 22 (185) مختصراً، سنن ابن ماجہ/إقامة 110 (1162)، (تحفة الأشراف: 9658)، مسند احمد 4/86 و 5/54، 55، 57، سنن الدارمی/الصلاة 145 (1480) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ہر دو اذان سے مراد اذان اور اقامت ہے جیسا کہ مؤلف نے ترجمۃ الباب میں اشارہ کیا ہے، اس حدیث سے مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا استحباب ثابت ہو رہا ہے، جس کے لیے دوسرے دلائل موجود ہیں «واللہ أعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 683
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا ابو عامر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن عامر الانصاري، عن انس بن مالك، قال:" كان المؤذن إذا اذن قام ناس من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيبتدرون السواري يصلون حتى يخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهم كذلك، ويصلون قبل المغرب، ولم يكن بين الاذان والإقامة شيء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال:" كَانَ الْمُؤَذِّنُ إِذَا أَذَّنَ قَامَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ يُصَلُّونَ حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ كَذَلِكَ، وَيُصَلُّونَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ شَيْءٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مؤذن جب اذان دیتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ کھڑے ہوتے، اور ستون کے پاس جانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے، اور نماز پڑھتے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلتے، اور وہ اسی طرح (نماز کی حالت میں) ہوتے، اور مغرب سے پہلے بھی پڑھتے، اور اذان و اقامت کے بیچ کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 95 (503)، الأذان 14 (625)، (تحفة الأشراف: 1112)، وقد أخرجہ: مسند احمد 3/280، سنن الدارمی/الصلاة 145 (1481) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے میں جلدی کرتے کیونکہ اذان اور اقامت میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
40. بَابُ: التَّشْدِيدِ فِي الْخُرُوجِ مِنَ الْمَسْجِدِ بَعْدَ الأَذَانِ
40. باب: اذان کے بعد مسجد سے باہر نکلنے کی برائی کا بیان۔
Chapter: The Stern Warning Against Leaving The Masjid After The Adhan
حدیث نمبر: 684
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، عن سفيان، عن عمر بن سعيد، عن اشعث بن ابي الشعثاء، عن ابيه، قال:" رايت ابا هريرة ومر رجل في المسجد بعد النداء حتى قطعه، فقال ابو هريرة:" اما هذا فقد عصى ابا القاسم صلى الله عليه وسلم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، قال:" رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ وَمَرَّ رَجُلٌ فِي الْمَسْجِدِ بَعْدَ النِّدَاءِ حَتَّى قَطَعَهُ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:" أَمَّا هَذَا فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوالشعثاء کہتے ہیں: میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ایک شخص اذان کے بعد مسجد سے گزرنے لگا یہاں تک کہ مسجد سے باہر نکل گیا، تو انہوں نے کہا: رہا یہ شخص تو اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 45 (655)، سنن ابی داود/الصلاة 43 (536)، سنن الترمذی/الصلاة 36 (204)، سنن ابن ماجہ/الأذان 7 (733)، (تحفة الأشراف: 13477)، مسند احمد 2/410، 416، 471، 506، 537، سنن الدارمی/الصلاة 12 (1241) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 685
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عثمان بن حكيم، قال: حدثنا جعفر بن عون، عن ابي عميس، قال: اخبرنا ابو صخرة، عن ابي الشعثاء، قال: خرج رجل من المسجد بعد ما نودي بالصلاة، فقال ابو هريرة:" اما هذا فقد عصى ابا القاسم صلى الله عليه وسلم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، قال: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ، قال: أَخْبَرَنَا أَبُو صَخْرَةَ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، قال: خَرَجَ رَجُلٌ مِنَ الْمَسْجِدِ بَعْدَ مَا نُودِيَ بِالصَّلَاةِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:" أَمَّا هَذَا فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ایک شخص نماز کی اذان ہو جانے کے بعد مسجد سے باہر نکلا، تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 684 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
41. بَابُ: إِيذَانِ الْمُؤَذِّنِينَ الأَئِمَّةَ بِالصَّلاَةِ
41. باب: مؤذن کا امام کو نماز کی خبر دینے کا بیان۔
Chapter: The Mu'adhdhins Notifying The Imams Of The Prayer
حدیث نمبر: 686
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عمرو بن السرح، قال: انبانا ابن وهب، قال: اخبرني ابن ابي ذئب، ويونس، وعمرو بن الحارث، ان ابن شهاب اخبرهم، عن عروة، عن عائشة، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم" يصلي فيما بين ان يفرغ من صلاة العشاء إلى الفجر إحدى عشرة ركعة، يسلم بين كل ركعتين ويوتر بواحدة ويسجد سجدة قدر ما يقرا احدكم خمسين آية، ثم يرفع راسه، فإذا سكت المؤذن من صلاة الفجر وتبين له الفجر، ركع ركعتين خفيفتين ثم اضطجع على شقه الايمن حتى ياتيه المؤذن بالإقامة، فيخرج معه". وبعضهم يزيد على بعض في الحديث.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، وَيُونُسُ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ وَيَسْجُدُ سَجْدَةً قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ، رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ بِالْإِقَامَةِ، فَيَخْرُجُ مَعَهُ". وَبَعْضُهُمْ يَزِيدُ عَلَى بَعْضٍ فِي الْحَدِيثِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہونے سے لے کر فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے ۱؎ اور ایک اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ اتنی دیر میں تم میں کا کوئی پچاس آیتیں پڑھ لے، پھر اپنا سر اٹھاتے، اور جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فجر عیاں اور ظاہر ہو جاتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آ کر آپ کو خبر کر دیتا کہ اب اقامت ہونے والی ہے، تو آپ اس کے ساتھ نکلتے۔ بعض راوی ایک دوسرے پر اس حدیث میں اضافہ کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 17 (736)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1337)، (تحفة الأشراف: 16573)، مسند احمد 6/34، 74، 83، 85، 88، 143، 215، 248، ویأتي عند المؤلف في السھو 74 (برقم: 1329) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے صراحت کے ساتھ ایک رکعت کے وتر کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.