(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا ابو عامر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن عامر الانصاري، عن انس بن مالك، قال:" كان المؤذن إذا اذن قام ناس من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيبتدرون السواري يصلون حتى يخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهم كذلك، ويصلون قبل المغرب، ولم يكن بين الاذان والإقامة شيء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال:" كَانَ الْمُؤَذِّنُ إِذَا أَذَّنَ قَامَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ يُصَلُّونَ حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ كَذَلِكَ، وَيُصَلُّونَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ شَيْءٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مؤذن جب اذان دیتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ کھڑے ہوتے، اور ستون کے پاس جانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے، اور نماز پڑھتے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلتے، اور وہ اسی طرح (نماز کی حالت میں) ہوتے، اور مغرب سے پہلے بھی پڑھتے، اور اذان و اقامت کے بیچ کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے میں جلدی کرتے کیونکہ اذان اور اقامت میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 683
683 ۔ اردو حاشیہ: ➊ ستونوں کارخ اس لیے کرتے تھے کہ انہیں سترہ بنا سکیں کیونکہ جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے سامنے سترے کا ہونا ضروری ہے۔ اگر جماعت ہو رہی ہو تو صرف امام کے سامنے سترہ کافی ہوتا ہے۔ ➋ آپ تشریف لاتے تو وہ اسی حال میں ہوتے تھے، یعنی نوافل پڑھ رہے ہوتے تھے، مگر آپ انہیں منع نہ فرماتے تھے۔ اسے سنت تقریری کہتے ہیں، یعنی آپ نے اس کام پر انہیں برقرار رکھا، روکا نہیں۔ ➌ ”زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا۔“ دو رکعت پڑھنے کے لیے زیادہ وقت کی ضرورت بھی نہ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے تک وہ تقریباً تقریباً فارغ ہو جاتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 683