(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: انبانا شريك، عن المقدام بن شريح، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" من حدثكم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بال قائما فلا تصدقوه، ما كان يبول إلا جالسا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" مَنْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالَ قَائِمًا فَلَا تُصَدِّقُوهُ، مَا كَانَ يَبُولُ إِلَّا جَالِسًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جو تم سے یہ بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا، تو تم اس کی تصدیق نہ کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ہی پیشاب کیا کرتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطہارة 8 (12)، سنن ابن ماجہ/فیہ 14 (307)، (تحفة الأشراف: 16147)، مسند احمد 6/136، 192، 213 (صحیح) (سند میں شریک بن عبداللہ القاضی حافظہ کے کمزور راوی ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی 201، تراجع الالبانی 2)»
وضاحت: ۱؎: حذیفہ اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم دونوں کی روایتوں میں تعارض ہے لیکن حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ سنداً وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، اور اگر دونوں روایتوں کو صحت میں برابر مان لیا جائے تو جواب یہ ہو گا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نفی حذیفہ رضی اللہ عنہا کے اثبات میں قادح نہیں کیونکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی نفی ان کی معلومات کی حد تک ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا عام دستور یہی تھا کہ آپ بیٹھ کر پیشاب کیا کرتے تھے، اور بیان جواز کے لیے آپ نے کھڑے ہو کر بھی پیشاب کیا ہے جیسا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے۔
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن ابي معاوية، عن الاعمش، عن زيد بن وهب، عن عبد الرحمن ابن حسنة، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي يده كهيئة الدرقة فوضعها ثم جلس خلفها فبال إليها. فقال بعض القوم: انظروا يبول كما تبول المراة، فسمعه، فقال:" او ما علمت ما اصاب صاحب بني إسرائيل، كانوا إذا اصابهم شيء من البول قرضوه بالمقاريض فنهاهم صاحبهم فعذب في قبره". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ حَسَنَةَ، قال: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي يَدِهِ كَهَيْئَةِ الدَّرَقَةِ فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَلَسَ خَلْفَهَا فَبَالَ إِلَيْهَا. فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: انْظُرُوا يَبُولُ كَمَا تَبُولُ الْمَرْأَةُ، فَسَمِعَهُ، فَقَالَ:" أَوَ مَا عَلِمْتَ مَا أَصَابَ صَاحِبُ بَنِي إِسْرَائِيلَ، كَانُوا إِذَا أَصَابَهُمْ شَيْءٌ مِنَ الْبَوْلِ قَرَضُوهُ بِالْمَقَارِيضِ فَنَهَاهُمْ صَاحِبُهُمْ فَعُذِّبَ فِي قَبْرِهِ".
عبدالرحمٰن بن حسنہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، آپ کے ہاتھ میں ڈھال کی طرح کوئی چیز تھی، تو آپ نے اسے رکھا، پھر اس کے پیچھے بیٹھے، اور اس کی طرف منہ کر کے پیشاب کیا، اس پر لوگوں نے کہا: ان کو دیکھو! یہ عورت کی طرح پیشاب کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: ”کیا تمہیں اس چیز کی خبر نہیں جو بنی اسرائیل کے ایک شخص کو پیش آئی، انہیں جب پیشاب میں سے کچھ لگ جاتا تو اسے قینچی سے کاٹ ڈالتے تھے، تو ان کے ایک شخص نے انہیں (ایسا کرنے سے) روکا، چنانچہ اس کی وجہ سے وہ اپنی قبر میں عذاب دیا گیا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 11 (22)، سنن ابن ماجہ/فیہ 26 (346)، (تحفة الأشراف: 9693)، مسند احمد 4/196 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (22) ابن ماجه (346) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 321
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن وكيع، عن الاعمش، قال: سمعت مجاهدا، يحدث عن طاوس، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قبرين، فقال:" إنهما يعذبان وما يعذبان في كبير، اما هذا فكان لا يستنزه من بوله، واما هذا فإنه كان يمشي بالنميمة، ثم دعا بعسيب رطب فشقه باثنين فغرس على هذا واحدا وعلى هذا واحدا، ثم قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا". خالفه منصور، رواه، عن مجاهد، عن ابن عباس، ولم يذكر طاوسا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قال: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، يُحَدِّثُ عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ، فَقَالَ:" إِنَّهُمَا يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا هَذَا فَكَانَ لَا يَسْتَنْزِهُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا هَذَا فَإِنَّهُ كَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ثُمَّ دَعَا بِعَسِيبٍ رَطْبٍ فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ فَغَرَسَ عَلَى هَذَا وَاحِدًا وَعَلَى هَذَا وَاحِدًا، ثُمَّ قَالَ: لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا". خَالَفَهُ مَنْصُورٌ، رَوَاهُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ طَاوُسًا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”یہ دونوں قبر والے عذاب دئیے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیے جا رہے ہیں ۱؎، رہا یہ شخص تو اپنے پیشاب کی چھینٹ سے نہیں بچتا تھا، اور رہا یہ (دوسرا) شخص تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی، اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: ”امید ہے کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہو جائیں ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے“۲؎۔
امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکڑی کا ایک پیالہ تھا، جس میں آپ پیشاب کرتے اور اسے تخت کے نیچے رکھ لیتے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: انبانا ازهر، انبانا ابن عون، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: يقولون: إن النبي صلى الله عليه وسلم اوصى إلى علي" لقد دعا بالطست ليبول فيها فانخنثت نفسه". وما اشعر فإلى من اوصى، قال الشيخ: ازهر هو ابن سعد السمان. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: أَنْبَأَنَا أَزْهَرُ، أَنْبَأَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: يَقُولُونَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى إِلَى عَلِيٍّ" لَقَدْ دَعَا بِالطَّسْتِ لِيَبُولَ فِيهَا فَانْخَنَثَتْ نَفْسُهُ". وَمَا أَشْعُرُ فَإِلَى مَنْ أَوْصَى، قَالَ الشَّيْخُ: أَزْهَرُ هُوَ ابْنُ سَعْدٍ السَّمَّانُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) علی رضی اللہ عنہ کو وصی بنایا، حقیقت یہ ہے کہ آپ نے تھال منگوایا کہ اس میں پیشاب کریں، مگر (اس سے قبل ہی) آپ کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ (آپ فوت ہو گئے) مجھے پتہ بھی نہ چلا، تو آپ نے کس کو وصیت کی؟
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 1 (2741)، المغازي 83 (4459)، صحیح مسلم/الوصیة 5 (1636)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 64 (1626)، (تحفة الأشراف: 15970)، مسند احمد 6/32، ویأتي عند المؤلف في الوصایا 2 (رقم: 3654) (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: انبانا معاذ بن هشام، قال: حدثني ابي، عن قتادة، عن عبد الله بن سرجس، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يبولن احدكم في جحر". قالوا لقتادة: وما يكره من البول في الجحر؟ قال: يقال: إنها مساكن الجن. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: أَنْبَأَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قال: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قال:" لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي جُحْرٍ". قَالُوا لِقَتَادَةَ: وَمَا يُكْرَهُ مِنَ الْبَوْلِ فِي الْجُحْرِ؟ قَالَ: يُقَالُ: إِنَّهَا مَسَاكِنُ الْجِنِّ.
عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی سوراخ میں ہرگز پیشاب نہ کرے“، لوگوں نے قتادہ سے پوچھا ؛ سوراخ میں پیشاب کرنا کیوں مکروہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: کہا جاتا ہے کہ یہ جنوں کی رہائش گاہیں ہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 16 (29)، (تحفة الأشراف: 5322)، مسند احمد 5/82 (ضعیف) (قتادہ کا سماع عبداللہ بن سرجس سے نہیں ہے، نیز قتادہ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، تراجع الالبانی 131)»
وضاحت: ۱؎: سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سانپ، بچھو وغیرہ سوراخ سے نکل کر ایذا نہ پہنچائیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (29) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 321
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن ابي الزبير، عن جابر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه" نهى عن البول في الماء الراكد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ" نَهَى عَنِ الْبَوْلِ فِي الْمَاءِ الرَّاكِدِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 28 (281)، سنن ابن ماجہ/فیہ 25 (343)، (تحفة الأشراف: 2911)، مسند احمد 3/350 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”ٹھہرے ہوئے پانی“ سے وہ پانی مراد ہے جو دریا کے پانی کی طرح جاری نہ ہو، جیسے گڈھا، جھیل، تالاب وغیرہ کا پانی، ان میں پیشاب کرنا منع ہے تو پاخانہ کرنا بطریق اولیٰ منع ہو گا، ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے ہی سڑاند اور بدبو پیدا ہو جاتی ہے، اگر اس میں مزید نجاست و غلاظت ڈال دی جائے تو یہ پانی مزید بدبودار ہو جائے گا، اور اس کی عفونت اور سڑاند سے قرب و جوار کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے غسل خانے میں پیشاب نہ کرے، کیونکہ زیادہ تر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے، تو اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ”سلام کا جواب نہیں دیا“ کا مطلب ہے فوری طور پر جواب نہیں دیا بلکہ وضو کرنے کے بعد دیا، جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے، نیز یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بطور تادیب سرے سے سلام کا جواب ہی نہ دیا ہو۔ «قال الألباني: (صحيح دون قوله: فإن عامة الوسواس منه» ۔
مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، اور آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا یہاں تک کہ وضو کیا، پھر جب آپ نے وضو کر لیا، تو ان کے سلام کا جواب دیا۔