مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، اور آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا یہاں تک کہ وضو کیا، پھر جب آپ نے وضو کر لیا، تو ان کے سلام کا جواب دیا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 38
38۔ اردو حاشیہ: ➊ پیشاب کرتے شخص کو سلام کہنا مناسب تو نہیں، لیکن اگر کسی نے غلطی سے سلام کہہ دیا تو پیشاب سے فراغت کے بعد جواب دیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً باوضو رہتے تھے، اس لیے آپ نے فوراًً وضو فرمایا، پھر جواب دیا۔ ہر آدمی کے لیے ایسا ضروری نہیں کیونکہ سلام، جوابِ سلام اور اذکار و اور اد کے لیے وضو شرط نہیں، نیز جب سلام کہنے کے لیے باوضو ہونا ضروری نہیں تو جواب دینے کے لیے بھی ضروری نہیں۔ ➋ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے دیگر شواہد بھی ملتے ہیں، لیکن ان کے صحیح اور ضعیف ہونے کی طرف اشارہ نہیں کیا، غالباً انھی شواہد کی وجہ سے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔ مزید دیکھیے: [سلسلة الأحادیث الصحیحة، رقم: 834]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 38
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 17
´کیا پیشاب کرتے وقت آدمی سلام کا جواب دے؟` «. . . عَنْ الْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبُولُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ حَتَّى تَوَضَّأَ، ثُمَّ اعْتَذَرَ إِلَيْهِ، فَقَالَ:" إِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أَذْكُرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِلا عَلَى طُهْرٍ، أَوْ قَالَ: عَلَى طَهَارَةٍ . . .» ”مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے تو انہوں نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ وضو کیا پھر (سلام کا جواب دیا اور) مجھ سے معذرت کی اور فرمایا: مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ میں اللہ کا ذکر بغیر پاکی کے کروں۔ راوی کو شک ہے «على طهر» کہا، یا «على طهارة» کہا۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 17]
فوائد و مسائل: ➊ یہ روایت ایک دوسرے طریق سے آتی ہے اور وہ صحیح ہے، اس میں صرف یہاں تک بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کو جواب نہیں دیا۔ [صحيح مسلم، حديث: 370] اس لیے ابوداؤد کی حدیث نمبر [17] کا اگلا حصہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔۔۔۔۔ یہ صحیح نہیں، اس لیے یہ بات تو صحیح ثابت ہوئی کہ پیشاب پاخانہ کرتے ہوئے سلام کاجواب نہ دیا جائے۔ لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہو گا کہ سلام کا جواب یا اللہ کا ذکر وضو کے بغیر جائز نہیں۔ ➋ اس سے یہ بات بھی مستفاد ہوتی ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے شخص کو سلام نہ کیا جائے۔ [ص۔ ی]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 17
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث350
´پیشاب کے دوران سلام کا جواب۔` مہاجر بن قنفذ بن عمرو بن جدعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”تمہارے سلام کا جواب دینے میں رکاوٹ والی چیز یہ تھی کہ میں باوضو نہ تھا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 350]
اردو حاشہ: (1) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم یہی روایت ایک دوسرے طریقے سے صحیح مسلم میں ہے اس میں صرف یہاں تک بیان ہے کہ نبی ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، حيض، باب التيمم، حديث: 370) لہٰذا یہ بات تو صحیح ثابت ہوئی کہ پیشاب پاخانہ کرتے ہوئے سلام کا جواب نہ دیا جائے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ سلام کا جواب یا اللہ کا ذکر وضو کے بغیر جائز نہیں۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے شخص کو سلام نہ کیا جائے۔
(3) لیکن اگر کوئی شخص سلام کرے تو فوری طور پر اس کا جواب نہ دیا جائے البتہ مستحب ہے کہ فراغت کے بعد وضو یا تیمم کرکے سلام کا جواب دے دیا جائےجیسا کہ اگلی حدیث کے فوائد میں نبی ﷺ کے عمل کا حوالہ آرہا ہے، اس لیے اس کے استحباب میں کوئی شک نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 350