(مرفوع) حدثنا ابو كريب , حدثنا ابو معاوية , عن الاعمش , عن ابي السفر , عن عبد الله بن عمرو , قال: مر علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نعالج خصا لنا , فقال:" ما هذا؟" , فقلت: خص لنا وهى , نحن نصلحه , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما ارى الامر إلا اعجل من ذلك". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي السَّفَرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ: مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُعَالِجُ خُصًّا لَنَا , فَقَالَ:" مَا هَذَا؟" , فَقُلْتُ: خُصٌّ لَنَا وَهَى , نَحْنُ نُصْلِحُهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أُرَى الْأَمْرَ إِلَّا أَعْجَلَ مِنْ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے اس وقت ہم اپنی ایک جھونپڑی درست کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا: ”یہ کیا ہے“؟ میں نے کہا: یہ ہماری جھونپڑی ہے، ہم اس کو درست کر رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے خیال میں موت اس سے بھی جلد آ سکتی ہے“۔
(مرفوع) حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي , حدثنا الوليد بن مسلم , حدثنا عيسى بن عبد الاعلى بن ابي فروة , حدثني إسحاق بن ابي طلحة , عن انس , قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبة على باب رجل من الانصار , فقال:" ما هذه؟" , قالوا: قبة بناها فلان , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كل مال يكون هكذا , فهو وبال على صاحبه يوم القيامة" , فبلغ الانصاري ذلك فوضعها , فمر النبي صلى الله عليه وسلم بعد , فلم يرها , فسال عنها , فاخبر انه وضعها لما بلغه عنك , فقال:" يرحمه الله! يرحمه الله". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ أَبِي فَرْوَةَ , حَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ أَبِي طَلْحَةَ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبَّةٍ عَلَى بَابِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ , فَقَالَ:" مَا هَذِهِ؟" , قَالُوا: قُبَّةٌ بَنَاهَا فُلَانٌ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُّ مَالٍ يَكُونُ هَكَذَا , فَهُوَ وَبَالٌ عَلَى صَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" , فَبَلَغَ الْأَنْصَارِيَّ ذَلِكَ فَوَضَعَهَا , فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ , فَلَمْ يَرَهَا , فَسَأَلَ عَنْهَا , فَأُخْبِرَ أَنَّهُ وَضَعَهَا لِمَا بَلَغَهُ عَنْكَ , فَقَالَ:" يَرْحَمُهُ اللَّهُ! يَرْحَمُهُ اللَّهُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے دروازے پر بنے گنبد پر سے گزرے، تو سوال کیا: ”یہ کیا ہے“؟ لوگوں نے کہا: یہ گول گھر ہے، اس کو فلاں نے بنایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مال اس طرح خرچ ہو گا، وہ اپنے مالک کے لیے روز قیامت وبال ہو گا، انصاری کو اس کی خبر پہنچی، تو اس نے اس گھر کو ڈھا دیا، جب دوبارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے، تو دیکھا کہ وہاں وہ بنگلہ نہیں ہے، تو اس کے بارے میں سوال فرمایا تو بتایا گیا کہ جب اس کو آپ کی کہی ہوئی بات کی خبر پہنچی، تو اس نے اسے ڈھا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے، اللہ اس پر رحم کرے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 196، ومصباح الزجاجة: 1476)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب 169 (5237) مطولاً (صحیح)» (سند میں عیسیٰ بن عبد الاعلی مجہول ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2830، سنن ابی داود: میں «يرحمه الله» کا لفظ نہیں ہے اس کی جگہ پر یہ الفاظ ہیں: «كل بناء وبال على صاحبه إلا مالاً» یعنی «إلا ما لا بد منه» )
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الوليد بن مسلم لم يصرح بالسماع المسلسل و حديث أبي داود (5237) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 527
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھا کہ میں نے ایک گھر بنایا جو مجھے بارش اور دھوپ سے بچائے، اور اللہ کی مخلوق نے میری اس میں (گھر بنانے میں) کوئی مدد نہیں کی تھی۔
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى , حدثنا شريك , عن ابي إسحاق , عن حارثة بن مضرب , قال: اتينا خبابا نعوده , فقال: لقد طال سقمي ولولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" لا تتمنوا الموت لتمنيته , وقال:" إن العبد ليؤجر في نفقته كلها إلا في التراب , او قال:" في البناء". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ أَبِي إِسْحَاق , عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ , قَالَ: أَتَيْنَا خَبَّابًا نَعُودُهُ , فَقَالَ: لَقَدْ طَالَ سَقْمِي وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" لَا تَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ لَتَمَنَّيْتُهُ , وَقَالَ:" إِنَّ الْعَبْدَ لَيُؤْجَرُ فِي نَفَقَتِهِ كُلِّهَا إِلَّا فِي التُّرَابِ , أَوْ قَالَ:" فِي الْبِنَاءِ".
حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ ہم خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے آئے، تو آپ کہنے لگے کہ میرا مرض طویل ہو گیا ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ ”تم موت کی تمنا نہ کرو“ تو میں ضرور اس کی آرزو کرتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے کو ہر خرچ میں ثواب ملتا ہے سوائے مٹی میں خرچ کرنے کے“، یا فرمایا: ”عمارت میں خرچ کرنے کا ثواب نہیں ملتا ہے“۔
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسے ہی توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے، تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزھد 33 (2344)، (تحفة الأشراف: 10586)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/30، 52) (صحیح)»
ابنائے خالد حبہ اور سواء رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ کچھ مرمت کا کام کر رہے تھے تو ہم نے اس میں آپ کی مدد کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم روزی کی طرف سے مایوس نہ ہونا جب تک تمہارے سر ہلتے رہیں، بیشک انسان کی ماں اس کو لال جنتی ہے، اس پر کھال نہیں ہوتی پھر اللہ تعالیٰ اس کو رزق دیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3292، ومصباح الزجاجة: 1477)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/469) (ضعیف)» (سلام بن شرحبیل لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الأعمش عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 527
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کے دل میں دنیا کی ہر چیز کی خواہش ہوتی ہے، جس نے اپنا دل تمام خواہشات کے پیچھے لگا دیا، تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پروا نہیں کہ وہ اس کو کس وادی میں ہلاک کرے، اور جس نے اللہ پر بھروسہ کر لیا تو ہر طرح کی خواہش کی فکر اس سے جاتی رہے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10741، ومصباح الزجاجة: 1478) (ضعیف)» (سند میں صالح بن زریق مجہول ہیں، اور ان کی حدیث منکر ہے، قالہ الذہبی، اور سعید بن عبدالرحمن ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف صالح بن رزيق:مجهول (تقريب: 2859) وقال الذهبي: ”وعنه الكوسج فقط بحديث منكر“ (ميزان الإعتدال 2/ 294) والسند ضعفه البوصيري من أجل صالح ھذا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 527
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان (حسن ظن) رکھتا ہو“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح , انبانا سفيان بن عيينة , عن ابن عجلان , عن الاعرج , عن ابي هريرة , يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" المؤمن القوي , خير واحب إلى الله من المؤمن الضعيف , وفي كل خير احرص على ما ينفعك , ولا تعجز , فإن غلبك امر فقل قدر الله وما شاء فعل , وإياك واللو , فإن اللو تفتح عمل الشيطان". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ الْأَعْرَجِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ , خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ , وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ , وَلَا تَعْجِزْ , فَإِنْ غَلَبَكَ أَمْرٌ فَقُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ , وَإِيَّاكَ وَاللَّوْ , فَإِنَّ اللَّوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور و ناتواں مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے، اور ہر ایک میں بھلائی ہے، تم اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں فائدہ پہنچائے، اور عاجز نہ بنو، اگر مغلوب ہو جاؤ تو کہو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے، جو اس نے چاہا کیا، اور لفظ ”اگر مگر“ سے گریز کرو، کیونکہ ”اگر مگر“ شیطان کے کام کا دروازہ کھولتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13952)، قد أخرجہ: صحیح مسلم/القدر 8 (2664)، مسند احمد (2/366، 370) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/العلم 19 (3687)، (تحفة الأشراف: 12940) (ضعیف جدا)» (سند میں ابراہیم بن الفضل ضعیف اور منکر الحدیث راوی ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی بہ نسبت کافر کے مسلمان کو حکمت حاصل کرنے کا زیادہ شوق ہونا چاہئے، افسوس ہے کہ ایک مدت دراز سے مسلمانوں کو حکمت کا شوق جاتا رہا نہ دنیا کی حکمت سیکھتے ہیں نہ دین کی، اور کفار حکمت یعنی دنیاوی علوم اور سائنس وغیرہ سیکھ کر ان پر غالب ہو گئے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا ترمذي (2687) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 527