(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا شبابة , عن ابن ابي ذئب , عن محمد بن عمرو بن عطاء , عن سعيد بن يسار , عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إن الميت يصير إلى القبر , فيجلس الرجل الصالح في قبره غير فزع , ولا مشعوف , ثم يقال له: فيم كنت؟ فيقول: كنت في الإسلام , فيقال له: ما هذا الرجل؟ فيقول: محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم , جاءنا بالبينات من عند الله فصدقناه , فيقال له: هل رايت الله؟ فيقول: ما ينبغي لاحد ان يرى الله , فيفرج له فرجة قبل النار , فينظر إليها يحطم بعضها بعضا , فيقال له: انظر إلى ما وقاك الله , ثم يفرج له قبل الجنة , فينظر إلى زهرتها وما فيها , فيقال له: هذا مقعدك , ويقال له على اليقين كنت , وعليه مت , وعليه تبعث إن شاء الله , ويجلس الرجل السوء في قبره فزعا , مشعوفا , فيقال له: فيم كنت , فيقول: لا ادري , فيقال له: ما هذا الرجل؟ فيقول: سمعت الناس يقولون قولا فقلته , فيفرج له قبل الجنة , فينظر إلى زهرتها وما فيها , فيقال له: انظر إلى ما صرف الله عنك , ثم يفرج له فرجة قبل النار , فينظر إليها يحطم بعضها بعضا , فيقال له: هذا مقعدك , على الشك كنت , وعليه مت , وعليه تبعث إن شاء الله تعالى". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا شَبَابَةُ , عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ , فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَزِعٍ , وَلَا مَشْعُوفٍ , ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ , فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ , فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ؟ فَيَقُولُ: مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ , فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ , فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا , فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ , ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ , فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا , فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ , وَيُقَالُ لَهُ عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ , وَعَلَيْهِ مُتَّ , وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ , وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ فَزِعًا , مَشْعُوفًا , فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ , فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي , فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا فَقُلْتُهُ , فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ , فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا , فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ , ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ , فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا , فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ , عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ , وَعَلَيْهِ مُتَّ , وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مرنے والا قبر میں جاتا ہے، نیک آدمی تو اپنی قبر میں بیٹھ جاتا ہے، نہ کوئی خوف ہوتا ہے نہ دل پریشان ہوتا ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو کس دین پر تھا؟ تو وہ کہتا ہے: میں اسلام پر تھا، پھر پوچھا جاتا ہے کہ یہ شخص کون ہیں؟ وہ کہتا ہے: یہ محمد اللہ کے رسول ہیں، یہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کی تصدیق کی، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ جواب دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بھلا کون دیکھ سکتا ہے؟ پھر اس کے لیے ایک کھڑکی جہنم کی جانب کھولی جاتی ہے، وہ اس کی شدت اشتعال کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے: دیکھ، اللہ تعالیٰ نے تجھ کو اس سے بچا لیا ہے، پھر ایک دوسرا دریچہ جنت کی طرف کھولا جاتا ہے، وہ اس کی تازگی اور لطافت کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا ٹھکانا ہے، اور اس سے کہا جاتا ہے کہ تو یقین پر تھا، یقین پر ہی مرا، اور یقین پر ہی اٹھے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور برا آدمی اپنی قبر میں پریشان اور گھبرایا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ تو کس دین پر تھا؟ تو وہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا، پھر پوچھا جاتا ہے کہ یہ شخص کون ہیں؟ جواب دیتا ہے کہ میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا تو میں نے بھی وہی کہا، اس کے لیے جنت کا ایک دریچہ کھولا جاتا ہے، وہ اس کی لطافت و تازگی کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ دیکھ! اس سے اللہ تعالیٰ نے تجھے محروم کیا، پھر جہنم کا دریچہ کھولا جاتا ہے، وہ اس کی شدت اور ہولناکی کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا ٹھکانا ہے، تو شک پر تھا، شک پر ہی مرا اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13387، ومصباح الزجاجة: 1527)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/140، 364، 6/139) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن علقمة بن مرثد , عن سعد بن عبيدة , عن البراء بن عازب , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت سورة إبراهيم آية 27 , قال: نزلت في عذاب القبر , يقال له: من ربك؟ فيقول: ربي الله , ونبيي محمد , فذلك قوله: يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة إبراهيم آية 27". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ , عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ سورة إبراهيم آية 27 , قَالَ: نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ , يُقَالُ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ , وَنَبِيِّي مُحَمَّدٌ , فَذَلِكَ قَوْلُهُ: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة إبراهيم آية 27".
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آیت: «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت» عذاب قبر کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، اس (مردے) سے پوچھا جائے گا کہ تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہے گا کہ میرا رب اللہ ہے، اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، یہی مراد ہے اس آیت: «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة»”اللہ ایمان والوں کو مضبوط قول پر ثابت رکھتا ہے دنیوی زندگی میں بھی آخرت میں بھی ”(سورة ابراهيم: 72) سے۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبد الله بن نمير , حدثنا عبيد الله بن عمر , عن نافع , عن ابن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إذا مات احدكم عرض على مقعده بالغداة والعشي , إن كان من اهل الجنة , فمن اهل الجنة , وإن كان من اهل النار , فمن اهل النار , يقال: هذا مقعدك , حتى تبعث يوم القيامة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ عُرِضَ عَلَى مَقْعَدِهِ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ , إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ , فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ , وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ , فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ , يُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ , حَتَّى تُبْعَثَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے، تو اس کے سامنے اس کا ٹھکانا صبح و شام پیش کیا جاتا ہے، اگر اہل جنت میں سے تھا تو اہل جنت کا ٹھکانا، اور اگر جہنمی تھا تو جہنمیوں کا ٹھکانا، اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8015)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز 89 (1379)، بدء الخلق 8 (3240)، الرقاق 42 (6515)، صحیح مسلم/الجنة 17 (2866)، سنن الترمذی/الجنائز 70 (1072)، سنن النسائی/الجنائز 116 (2072)، موطا امام مالک/الجنائز 16 (47)، مسند احمد (2/16، 51، 113، 123) (صحیح)»
کعب رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درخت میں لٹکتی رہے گی، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اپنے اصلی بدن میں لوٹ جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل الجہاد 13 (1641)، سنن النسائی/الجنائز 117 (2075)، (تحفة الأشراف: 1148)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز 16 (49)، مسند احمد (3/455، 456، 460) (صحیح)»
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مردہ قبر میں جاتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ سورج ڈوبنے کا وقت قریب ہے، وہ بیٹھتا ہے اپنی دونوں آنکھوں کو ملتے ہوئے، اور کہتا ہے: مجھے نماز پڑھنے کے لیے چھوڑ دو“۔
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف سليمان الأعمش عنعن (تقدم:94) وللحديث شواهد عند ابن حبان (781) والحاكم (379/1-380) وغيرهما دون قوله: ”يمسع عينيه“ فهو ضعيف۔
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک «صور» والے دونوں فرشتے اپنے ہاتھوں میں «صور»۱؎ لیے برابر دیکھتے رہتے ہیں کہ کب پھونکنے کا حکم ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4193، ومصباح الزجاجة: 1529) (منکر)» (سند میں حجاج بن ارطاہ وعطیہ العوفی ضعیف ہیں، اور حجاج نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اس لئے یہ لفظ منکر ہے، محفوظ حدیث «صاحب القرن» ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1079)
وضاحت: ۱؎: «صور» کی جمع «اصوار» یعنی نرسنگا، اور بگل۔
قال الشيخ الألباني: منكر والمحفوظ بلفظ صاحب القرن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف حجاج بن أرطاة وعطية العوفي: ضعيفان (تقدما:496، 576)
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا علي بن مسهر , عن محمد بن عمرو , عن ابي سلمة , عن ابي هريرة , قال: قال رجل من اليهود بسوق المدينة: والذي اصطفى موسى على البشر , فرفع رجل من الانصار يده فلطمه , قال: تقول هذا وفينا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال:" قال الله عز وجل: ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الارض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه اخرى فإذا هم قيام ينظرون سورة الزمر آية 68 , فاكون اول من رفع راسه , فإذا انا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش , فلا ادري ارفع راسه قبلي , او كان ممن استثنى الله عز وجل , ومن قال انا خير من يونس بن متى , فقد كذب". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ بِسُوقِ الْمَدِينَةِ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ , فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَدَهُ فَلَطَمَهُ , قَالَ: تَقُولُ هَذَا وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ سورة الزمر آية 68 , فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ , فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ , فَلَا أَدْرِي أَرَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلِي , أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , وَمَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى , فَقَدْ كَذَبَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام لوگوں سے برگزیدہ بنایا، یہ سن کر ایک انصاری نے اس کو ایک طمانچہ مارا، اور کہا: تم ایسا کہتے ہو جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون»”اور صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان والے سب بیہوش ہو جائیں گے، سوائے اس کے جس کو اللہ چاہے، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تب وہ سب کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے“(سورۃ الزمر: ۶۸)، میں سب سے پہلے اپنا سر اٹھاؤں گا، تو دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں، میں نہیں جانتا کہ انہوں نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا، یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ کر دیا ہے، اور جس نے یہ کہا: میں یونس بن متی سے بہتر ہوں تو اس نے غلط کہا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یونس علیہ السلام سے غلطی ہوئی تھی، لیکن اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا تھا، رسول اکرم ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کی شان بڑی ہے اور نبوت اور رسالت کا مرتبہ سب کو حاصل ہے لہذا اپنی رائے سے ایک کو دوسرے پر فضیلت مت دو، بعضوں نے کہا کہ یہ حدیث پہلے کی ہے، جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ آپ تمام انبیاء کے سردار ہیں اور انجیل مقدس میں مذکور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ اس جہاں کا سردار آتا ہے، یا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک نبی کو دوسرے نبی پر اس طرح فضیلت مت دو کہ دوسرے نبی کی تحقیر یا توہین نکلے کیونکہ کسی نبی کی تحقیر یا توہین کفر ہے۔
(قدسي) حدثنا هشام بن عمار , ومحمد بن الصباح , قالا: حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم , حدثني ابي , عن عبيد الله بن مقسم , عن عبد الله بن عمر , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر , يقول:" ياخذ الجبار سماواته وارضيه بيده , وقبض يده فجعل يقبضها ويبسطها , ثم يقول: انا الجبار , انا الملك , اين الجبارون؟ اين المتكبرون؟" , قال: ويتمايل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن يمينه وعن شماله , حتى نظرت إلى المنبر يتحرك من اسفل شيء منه , حتى إني لاقول , اساقط هو برسول الله صلى الله عليه وسلم. (قدسي) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ , يَقُولُ:" يَأْخُذُ الْجَبَّارُ سَمَاوَاتِهِ وَأَرَضِيهِ بِيَدِهِ , وَقَبَضَ يَدَهُ فَجَعَلَ يَقْبِضُهَا وَيَبْسُطُهَا , ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْجَبَّارُ , أَنَا الْمَلِكُ , أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟" , قَالَ: وَيَتَمَايَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ , حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ يَتَحَرَّكُ مِنْ أَسْفَلِ شَيْءٍ مِنْهُ , حَتَّى إِنِّي لَأَقُولُ , أَسَاقِطٌ هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا: ”جبار (اللہ) آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا، (آپ نے مٹھی بند کی پھر اس کو بند کرنے اور کھولنے لگے) پھر فرمائے گا: میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں دوسرے جبار؟ کہاں ہیں دوسرے متکبر؟ یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں جھک رہے تھے، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ منبر کچھ نیچے سے ہل رہا تھا، حتیٰ کہ میں کہنے لگا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گر نہ پڑے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/صفة القیامة نحوہ (2788)، (تحفة الأشراف: 7315)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/72، 87) (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگ قیامت کے دن کیسے اٹھائے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ننگے پاؤں، ننگے بدن“، میں نے کہا: عورتیں بھی اسی طرح؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتیں بھی“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! پھر شرم نہیں آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! معاملہ اتنا سخت ہو گا کہ (کوئی) ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھے گا“۱؎۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی، دوبار کی پیشی میں بحث و تکرار اور عذر و بہانے ہوں گے اور تیسری بار میں اعمال نامے ہاتھوں میں اڑ رہے ہوں گے، تو کوئی اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں اور کوئی بائیں ہاتھ میں پکڑے ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8986، ومصباح الزجاجة: 1532)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/414) (ضعیف)» (حسن بصری کا سماع ابوموسیٰ سے ثابت نہیں ہے، اس لئے انقطاع کی وجہ سے سند ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف الحسن عنعن (تقدم:243) وللحديث لون آخر عند الترمذي (2425)