(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن علقمة بن مرثد , عن سعد بن عبيدة , عن البراء بن عازب , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت سورة إبراهيم آية 27 , قال: نزلت في عذاب القبر , يقال له: من ربك؟ فيقول: ربي الله , ونبيي محمد , فذلك قوله: يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة إبراهيم آية 27". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ , عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ سورة إبراهيم آية 27 , قَالَ: نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ , يُقَالُ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ , وَنَبِيِّي مُحَمَّدٌ , فَذَلِكَ قَوْلُهُ: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة إبراهيم آية 27".
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آیت: «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت» عذاب قبر کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، اس (مردے) سے پوچھا جائے گا کہ تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہے گا کہ میرا رب اللہ ہے، اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، یہی مراد ہے اس آیت: «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة»”اللہ ایمان والوں کو مضبوط قول پر ثابت رکھتا ہے دنیوی زندگی میں بھی آخرت میں بھی ”(سورة ابراهيم: 72) سے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4269
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) پکی بات سے مراد کلمہ توحید ہے۔ مومن اللہ کی توفیق سے دنیا کی زندگی میں اس پر قائم رہتا ہے جس کے نتیجے میں قبر میں وہ سوال جواب کے مرحلے میں ثابت قدم رہتا ہے۔ منافق دنیا کی زندگی میں اس پر قائم نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایمان متزلزل ہوتا ہے۔ اور وہ شکوک وشبہات میں مبتلا رہتا ہے۔ لہٰذا آخرت کی اس پہلی منزل (قبر) میں بھی وہ جواب نہیں دے سکتا۔
(2) قبر میں عذاب نفاق اعتقادی سے کم تر گناہوں پر بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ پیشاب سے جسم اور لباس کوبچانے کی کوشش نہ کرنا ایک کی بات دوسرے کو بتا کرلڑائی کرادینا وغیرہ۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4269
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2058
´قبر کے عذاب کا بیان۔` براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں آیت کریمہ «يثبت اللہ الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة»”اللہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت میں ٹھیک بات پر قائم رکھے گا“(ابراہیم: ۲۷)۔ عذاب قبر کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2058]
اردو حاشہ: عذاب قبر سے دو مختلف معانی مراد ہیں: (1) قبر میں سوال و جواب، اسے فتنہ قبر بھی کہا جاتا ہے۔ (2) گناہوں کی وجہ سے قبر میں پہنچنے والی تکالیف، کسی حدیث میں پہلے معنیٰ مراد ہوتے ہیں کسی میں دوسرے۔ مندرجہ بالا آیت میں قبر کا سوال و جواب مراد ہے۔ اسی طرح شہید، طاعون، ہیضہ اور حادثاتی موت وغیرہ سے مرنے والوں سے عذاب قبر کی نفی سے مراد بھی سوال و جواب کی نفی ہے جبکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ والی روایت میں دوسرے معنیٰ مراد ہیں اور یہ بھینچے جانے کی حد تک تو سب کو ہوتا ہے (علاوہ انبیاء علیہم السلام کے۔) اس سے زائد اپنے اپنے گناہوں کے مطابق حتیٰ کہ بعض کو قیامت تک ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2058
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7220
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ"جو لوگ ایمان لائے انہیں اللہ قول ثابت (کلمہ شہادت) سے دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھے گا۔" قبر کے عذاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7220]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قرآن و سنت کی نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عذاب قبر کا تعلق بدن اور روح دونوں سے ہے، لیکن بقول حاٖفظ ابن حجر، عذاب کا تعلق، روح اور جسد دونوں سے ہے، لیکن اصلی اور حقیقی تعلق روح سے ہے اور تبعا جسد بھی اس کے ساتھ دکھ، درد اور لذت و نعمت سے متاثر ہوتا ہے، لیکن اہل دنیا کو اس کا پتہ نہیں چلتا، اگر قبر کھود کر مردہ کو دیکھ بھی لیا جائے تو پھر ابھی احساس نہیں ہوتا، (تکملہ ج 6 ص 241) جس طرح خواب میں لذت یا تکلیف براہ راست دراصل روح کے لیے ہوتی ہے اور جسم تبعا اس سے متاثر ہوتا ہے، اس طرح خواب میں جو لذت یا تکلیف خواب دیکھنے والے کو ہوتی ہے، اس کے ساتھ لیٹنے والا، اس کو محسوس نہیں کرتا، جمہور اہل سنت کا موقف یہی ہے، مزید اقوال مندرجہ ذیل ہیں۔ (1) خوراج اور بعض معتزلہ کے نزدیک، قبر میں عذاب نہیں ہوتا ہے، یہ قول صریح نصوص کے خلاف ہے۔ (2) قبر کا عذاب صرف کافروں کو ہوتا ہے، لیکن یہ قول جو بعض معتزلہ کا ہے، احادیث کے خلاف ہے۔ (3) سوال و عذاب کا تعلق صرف روح سے ہے، یہ ابن حزم کا نظریہ ہے، جا صحیح نہیں ہے، کیونکہ فرشتے سوال بٹھا کر کرتے ہیں اور اس کاتعلق جسد سے ہے۔ (4) عذاب صرف بدن کو ہوتا ہے، ابن جریر اور بعض علماء کا یہی نظریہ ہے، لیکن جب اطاعت و معصیت بدن اور روح دونوں نے مل کر کی ہے تو عذاب و ثواب صرف ایک کو کیوں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7220
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7220
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ"جو لوگ ایمان لائے انہیں اللہ قول ثابت (کلمہ شہادت) سے دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھے گا۔" قبر کے عذاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7220]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قرآن و سنت کی نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عذاب قبر کا تعلق بدن اور روح دونوں سے ہے، لیکن بقول حاٖفظ ابن حجر، عذاب کا تعلق، روح اور جسد دونوں سے ہے، لیکن اصلی اور حقیقی تعلق روح سے ہے اور تبعا جسد بھی اس کے ساتھ دکھ، درد اور لذت و نعمت سے متاثر ہوتا ہے، لیکن اہل دنیا کو اس کا پتہ نہیں چلتا، اگر قبر کھود کر مردہ کو دیکھ بھی لیا جائے تو پھر ابھی احساس نہیں ہوتا، (تکملہ ج 6 ص 241) جس طرح خواب میں لذت یا تکلیف براہ راست دراصل روح کے لیے ہوتی ہے اور جسم تبعا اس سے متاثر ہوتا ہے، اس طرح خواب میں جو لذت یا تکلیف خواب دیکھنے والے کو ہوتی ہے، اس کے ساتھ لیٹنے والا، اس کو محسوس نہیں کرتا، جمہور اہل سنت کا موقف یہی ہے، مزید اقوال مندرجہ ذیل ہیں۔ (1) خوراج اور بعض معتزلہ کے نزدیک، قبر میں عذاب نہیں ہوتا ہے، یہ قول صریح نصوص کے خلاف ہے۔ (2) قبر کا عذاب صرف کافروں کو ہوتا ہے، لیکن یہ قول جو بعض معتزلہ کا ہے، احادیث کے خلاف ہے۔ (3) سوال و عذاب کا تعلق صرف روح سے ہے، یہ ابن حزم کا نظریہ ہے، جا صحیح نہیں ہے، کیونکہ فرشتے سوال بٹھا کر کرتے ہیں اور اس کاتعلق جسد سے ہے۔ (4) عذاب صرف بدن کو ہوتا ہے، ابن جریر اور بعض علماء کا یہی نظریہ ہے، لیکن جب اطاعت و معصیت بدن اور روح دونوں نے مل کر کی ہے تو عذاب و ثواب صرف ایک کو کیوں۔