جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مردہ قبر میں جاتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ سورج ڈوبنے کا وقت قریب ہے، وہ بیٹھتا ہے اپنی دونوں آنکھوں کو ملتے ہوئے، اور کہتا ہے: مجھے نماز پڑھنے کے لیے چھوڑ دو“۔
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف سليمان الأعمش عنعن (تقدم:94) وللحديث شواهد عند ابن حبان (781) والحاكم (379/1-380) وغيرهما دون قوله: ”يمسع عينيه“ فهو ضعيف۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4272
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قبر میں سورج غروب ہونے کا منظر بھی ایک آزمائش ہے جس سے سچے مومن کی اور نام نہاد مسلمان کی پہچان ہوجاتی ہے۔
(2) زندگی میں پابندی کے ساتھ نماز پڑھنا نہایت ضروری ہے ورنہ قبر کے امتحان میں کامیاب ہونا مشکل ہے۔
(3) آنکھیں ملنے کی وجہ یہ ہے کہ اسے محسوس ہوتا ہے۔ کہ وہ غافل ہوکر سویا رہا جس کی وجہ سے عصر کی نماز میں دیر ہوگئی اس لئے وہ چاہتا ہے کہ فورا نماز پڑھ لے تاکہ مزید تاخیر نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4272
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 138
´قبر کے اندرونی مناظر` «. . . وَعَنْ جَابِرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا أُدْخِلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مَثَلَتْ لَهُ الشَّمْسُ عِنْدَ غُرُوبِهَا فَيَجْلِسُ يَمْسَحُ عَيْنَيْهِ وَيَقُولُ: دَعونِي أُصَلِّي ". رَوَاهُ ابْن مَاجَه . . .» ”. . . سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مردے کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو اس کے سامنے آفتاب کے غروب ہونے کا وقت پیش کیا جاتا ہے یعنی اسے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سورج ڈوبنے والا ہے۔ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے اگر وہ مومن ہے تو منکر، نکیر سے کہتا ہے مجھے چھوڑ دو تاکہ میں نماز پڑھ لوں۔“ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے (یہ شخص پکا نمازی ہو گا وہ ممکن ہے یہ سمجھتا ہو کہ میں دنیا میں ہوں، اس کے بعد فرشتے اس سے سوال و جواب کریں گے)۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 138]
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ◄ ابن ماجہ وغیرہ کی سند میں سلیمان بن مہران الاعمش مشہور ثقہ مدلس ہے۔ حافظ ابن حجر العسقلانی نے انہیں مدلسین کے طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا ہے۔ [طبقات المدلسين مع الفتح المبين 2/55 ص43٬42] ◄ لیکن دوسری طرف حافظ ابن حجر نے بذات خود اعمش کو طبقہ ثالثہ میں ذکر کر کے کثیر التدلیس قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [النكت عليٰ ابن الصلاح 640/2] ◄ ایک روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ”اور میرے نزدیک ابن القطان (الفاسی) کی صحیح کردہ روایت معلول (ضعیف) ہے کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں ہوتا، چونکہ اعمش مدلس ہیں اور انہوں نے عطاء سے (اس روایت میں) اپنا سماع ذکر نہیں کیا۔“[التلخيص الحبير 19/3 ص 1181، الفتح المبين ص 43] ◄ حافظ ابن حبان فرماتے ہیں: «وأما المدلسون الذين هم ثقات و عدول لا نحتج بأخبارهم إلا ما بيونا السماع فيما رووا مثل الثوري والأعمش وأبي إسحاق وأضرابهم من الأئمة المتقين (المتقنين) وأهل الورع فى الدين .» ”رہے وہ مدلسین جو ثقہ و عادل ہیں تو ہم (محدثین کرام) ان کی روایات سے حجت نہیں پکڑتے اِلا یہ کہ وہ اپنی روایتوں میں سماع کی تصریح کریں، جیسے (سفیان) ثوری، (سلیمان) الاعمش اور ابواسحاق (السبیعی) اور ان جیسے دوسرے متقی (متقن ثقہ) اور نیک دیندار امام۔۔۔“[صحيح ابن حبان، الاحسان ج1ص 161] ◄ ابن حبان کے اس قول سے معلوم ہوا کہ سفیان ثوری، اعمش اور ابواسحاق السبیعی تینوں مدلسین کے طبقہ ثالثہ میں سے ہیں اور ان کی «عن» والی روایت بغیر تصریح سماع کے حجت نہیں ہے۔ ◄ حافظ ابن حبان سے پہلے امام شعبہ بن الحجاج البصری رحمہ اللہ (متوفی 160ھ) فرماتے ہیں: «كفيتكم تدليس ثلاثة: الأعمش وأبي إسحاق وقتادة» ”تین آدمیوں کی تدلیس کے لئے میں کافی ہوں: اعمش، ابواسحاق اور قتادہ۔“[جزء مسألة التسميه لمحمد بن طاهر المقدسي ص47 وسنده صحيح] اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ➊ اول یہ کہ اعمش، ابواسحاق اور قتادہ سے شعبہ کی روایت سماع پر محمول ہے۔ ➋ دوم ان تینوں کی معنعن روایت حجت نہیں ہے۔ علامہ نووی فرماتے ہیں: «والاعمش مدلس لا يحتج بعنعنته إلا إذا صح سماعه . . .» اور اعمش مدلس ہیں، ان کی «عن» والی روایت حجت نہیں ہے اِلا یہ کہ وہ تصریح سماع کریں۔ [شرح صحيح مسلم، درسي نسخه ج1 ص72 تحت ح 109] ↰ معلوم ہوا کہ امام نووی کے نزدیک بھی اعمش طبقہ ثالثہ میں سے ہیں۔ ↰ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [الفتح المبين ص43] جدید دور کے بعض محقیقین کا تحقیق میں عجیب طرز عمل ہے۔ ابوالزبیر، حسن بصری اور بعض مدلسین کی معنعن روایات کو یہ لوگ ضعیف کہتے ہیں چاہے بعض روایت صحیحین میں سے کیوں نہ ہوں! اور سفیان ثوری اور سلیمان الاعمش اور قتادہ وغیرہ مدلسین کی روایت کو علانیہ صحیح قرار دیتے ہیں۔ اس دوغلی پالیسی کی اصل بنیاد کیا ہے؟ یہ ہمیں معلوم نہیں تاہم ان محققین کا یہ طرز عمل باطل ہے۔ ↰ یاد رہے کہ طبقات المدلسین کے طبقات کی تقسیم جدید و قدیم محققین میں سے کسی کو بھی من و عن قابل قبول نہیں ہے چاہے یہ محققین اہل حدیث ہوں یا غیر اہل حدیث میں سے۔ ◄ تدلیس لے سلسلے میں اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ مذکورہ بالا روایت کا ایک حسن لذاتہ شاہد صحیح ابن حبان میں موجود ہے جس میں آیا ہے کہ «إن الميت أذا وضع فى قبره . . . فيجلس قد مثلت له الشمس وقد آذنت للغروب . . . فيقول: دعوني حتي أصلي .»[الاحسان 3103 دوسرا نسخه: 3113، الموارد: 781 وسنده حسن] ◄ اس شاہد کے ساتھ روایت مذکورہ حسن ہے لیکن «يمسح عينيه» پھر وہ آنکھیں ملتا ہوا (اٹھ بیٹھتا ہے) کا کوئی صحیح شاہد نہیں ہے لہٰذا یہ الفاظ ثابت نہیں ہیں۔ «والله اعلم»