ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک (غصہ) ہوتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے مالک سے مانگے، نہ مانگنے سے غرور و تکبر اور بے نیازی ظاہر ہوتی ہے، آدمی کو چاہئے کہ اپنی ہر ضرورت کو اپنے مالک سے مانگے اور جب کوئی تکلیف ہو تو اپنے مالک سے دعا کرے، ہم تو اس کے در کے بھیک مانگنے والے ہیں، رات دن اس سے مانگا ہی کرتے ہیں، اور ذرا سا صدمہ ہوتا ہے تو ہم سے صبر نہیں ہو سکتا اپنے مالک سے اسی وقت دعا کرنے لگتے ہیں ہم تو ہر وقت اس کے محتاج ہیں، اور اس کے در دولت کے فقیر ہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3373) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 513
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «وقال ربكم ادعوني أستجب لكم»”اور تمہارے رب نے کہا: دعا کرو (مجھے پکارو) میں تمہاری دعا قبول کروں گا (سورة الغافر: 60)“۔
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد سنة إحدى وثلاثين ومائتين , حدثنا وكيع في سنة خمس وتسعين ومائة , قال: حدثنا سفيان في مجلس الاعمش منذ خمسين سنة , حدثنا عمرو بن مرة الجملي في زمن خالد , عن عبد الله بن الحارث المكتب , عن طليق بن قيس الحنفي , عن ابن عباس , ان النبي صلى الله عليه وسلم , كان يقول في دعائه:" رب اعني ولا تعن علي , وانصرني ولا تنصر علي , وامكر لي ولا تمكر علي , واهدني ويسر الهدى لي , وانصرني على من بغى علي , رب اجعلني لك شكارا , لك ذكارا , لك رهابا , لك مطيعا , إليك مخبتا إليك اواها منيبا , رب تقبل توبتي , واغسل حوبتي , واجب دعوتي , واهد قلبي , وسدد لساني , وثبت حجتي , واسلل سخيمة قلبي" , قال ابو الحسن الطنافسي: قلت لوكيع: اقوله في قنوت الوتر؟ قال: نعم. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ سَنَةَ إِحْدَى وَثَلَاثِينَ وَمِائَتَيْنِ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ فِي سَنَةِ خَمْسٍ وَتِسْعِينَ وَمِائَةٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ فِي مَجْلِسِ الْأَعْمَشِ مُنْذُ خَمْسِينَ سَنَةً , حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ الْجَمَلِيُّ فِي زَمَنِ خَالِدٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُكَتِّبِ , عَنْ طَليْقٍ بْنِ قَيْسِ الْحَنَفِيِّ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ:" رَبِّ أَعِنِّي وَلَا تُعِنْ عَلَيَّ , وَانْصُرْنِي وَلَا تَنْصُرْ عَلَيَّ , وَامْكُرْ لِي وَلَا تَمْكُرْ عَلَيَّ , وَاهْدِنِي وَيَسِّرِ الْهُدَى لِي , وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ بَغَى عَلَيَّ , رَبِّ اجْعَلْنِي لَكَ شَكَّارًا , لَكَ ذَكَّارًا , لَكَ رَهَّابًا , لَكَ مُطِيعًا , إِلَيْكَ مُخْبِتًا إِلَيْكَ أَوَّاهًا مُنِيبًا , رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِي , وَاغْسِلْ حَوْبَتِي , وَأَجِبْ دَعْوَتِي , وَاهْدِ قَلْبِي , وَسَدِّدْ لِسَانِي , وَثَبِّتْ حُجَّتِي , وَاسْلُلْ سَخِيمَةَ قَلْبِي" , قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الطَّنَافِسِيُّ: قُلْتُ لِوَكِيعٍ: أَقُولُهُ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں یہ پڑھا کرتے تھے: «رب أعني ولا تعن علي وانصرني ولا تنصر علي وامكر لي ولا تمكر علي واهدني ويسر الهدى لي وانصرني على من بغى علي رب اجعلني لك شكارا لك ذكارا لك رهابا لك مطيعا إليك مخبتا إليك أواها منيبا رب تقبل توبتي واغسل حوبتي وأجب دعوتي واهد قلبي وسدد لساني وثبت حجتي واسلل سخيمة قلبي»”اے میرے رب! میری مدد فرما، اور میرے مخالف کی مدد مت کر، اور میری تائید فرما، اور میرے مخالف کی تائید مت کر، اور میرے لیے تدبیر فرما، میرے خلاف کسی کی سازش کامیاب نہ ہونے دے، اور مجھے ہدایت فرما، اور ہدایت کو میرے لیے آسان کر دے، اور اس شخص کے مقابلہ میں میری مدد فرما جو مجھ پر ظلم کرے، اے اللہ! مجھے اپنا شکر گزار اور ذکر کرنے والا، ڈرنے والا، اور اپنا مطیع فرماں بردار، رونے اور گڑگڑانے والا، رجوع کرنے والا بندہ بنا لے، اے اللہ میری توبہ قبول فرما، میرے گناہ دھو دے، میری دعا قبول فرما، میرے دل کو صحیح راستے پر لگا، میری زبان کو مضبوط اور درست کر دے، میری دلیل و حجت کو مضبوط فرما، اور میرے دل سے بغض و عناد ختم کر دے“۔ ابوالحسن طنافسی کہتے ہیں کہ میں نے وکیع سے کہا: کیا میں یہ دعا قنوت وتر میں پڑھ لیا کروں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں پڑھ لیا کرو۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا محمد بن ابي عبيدة , حدثنا ابي , عن الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي هريرة , قال: اتت فاطمة النبي صلى الله عليه وسلم تساله خادما , فقال لها:" ما عندي ما اعطيك" , فرجعت فاتاها بعد ذلك , فقال:" الذي سالت احب إليك او ما هو خير منه؟" , فقال لها علي: قولي: لا , بل ما هو خير منه , فقالت: فقال:" قولي: اللهم رب السماوات السبع , ورب العرش العظيم , ربنا ورب كل شيء , منزل التوراة والإنجيل والقرآن العظيم , انت الاول فليس قبلك شيء , وانت الآخر فليس بعدك شيء , وانت الظاهر فليس فوقك شيء , وانت الباطن فليس دونك شيء , اقض عنا الدين , واغننا من الفقر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: أَتَتْ فَاطِمَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا , فَقَالَ لَهَا:" مَا عِنْدِي مَا أُعْطِيكِ" , فَرَجَعَتْ فَأَتَاهَا بَعْدَ ذَلِكَ , فَقَالَ:" الَّذِي سَأَلْتِ أَحَبُّ إِلَيْكِ أَوْ مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ؟" , فَقَالَ لَهَا عَلِيٌّ: قُولِي: لَا , بَلْ مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ , فَقَالَتْ: فَقَالَ:" قُولِي: اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ , وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ , رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ , مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ الْعَظِيمِ , أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ , وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ , وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ , وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ , اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ , وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خادم طلب کرنے کے لیے آئیں، تو آپ نے ان سے فرمایا: ”میرے پاس تو خادم نہیں ہے جو میں تجھے دوں“، (یہ سن کر) وہ واپس چلی گئیں، اس کے بعد آپ خود ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”جو چیز تم نے طلب کی تھی وہ تمہیں زیادہ پسند ہے یا اس سے بہتر چیز تمہیں بتاؤں“؟ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: تم کہو کہ نہیں، بلکہ مجھے وہ چیز زیادہ پسند ہے جو خادم سے بہتر ہو، چنانچہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہی کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یہ کہا کرو «اللهم رب السموات السبع ورب العرش العظيم ربنا ورب كل شيء منزل التوراة والإنجيل والقرآن العظيم أنت الأول فليس قبلك شيء وأنت الآخر فليس بعدك شيء وأنت الظاهر فليس فوقك شيء وأنت الباطن فليس دونك شيء اقض عنا الدين وأغننا من الفقر» اے اللہ! ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کے رب! اور ہمارے رب اور ہر چیز کے رب، تورات، انجیل اور قرآن عظیم کو نازل کرنے والے! تو ہی اول ہے تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی، تو ہی آخر ہے، تیرے بعد کوئی چیز نہیں ہو گی، تو ہی ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی چیز نہیں، تو ہی باطن ہے تیرے ورے کوئی چیز نہیں، ہم سے ہمارا قرض ادا کر دے، اور محتاجی دور کر کے ہمیں غنی کر دے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکروالدعاء 17 (2713)، (تحفة الأشراف: 12499)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب 107 (5051)، سنن الترمذی/الدعوات 19 (3400)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/404) (صحیح)»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: «اللهم إني أسألك الهدى والتقى والعفاف والغنى»”اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاکدامنی اور دل کی مالدرای چاہتا ہوں“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: «اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وزدني علما والحمد لله على كل حال وأعوذ بالله من عذاب النار»”اے اللہ! مجھے اس علم سے فائدہ پہنچا جو تو نے مجھے سکھایا، اور مجھے وہ علم سکھا جو میرے لیے نفع بخش ہو، اور میرے علم میں زیادتی عطا فرما، اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ہے، میں جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 129 (3599)، (تحفة الأشراف: 14356) (صحیح)» (آخری فقرہ «والحمد للہ......» کے علاوہ حدیث صحیح ہے، اور یہ مکرر ہے، ملاحظہ ہو: 251، سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح دون والحمد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 513
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير , حدثنا ابي , حدثنا الاعمش , عن يزيد الرقاشي , عن انس بن مالك , قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم , يكثر ان يقول:" اللهم ثبت قلبي على دينك" , فقال رجل: يا رسول الله , تخاف علينا وقد آمنا بك وصدقناك بما جئت به , فقال:" إن القلوب بين إصبعين من اصابع الرحمن عز وجل يقلبها" , واشار الاعمش بإصبعيه. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ:" اللَّهُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ" , فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , تَخَافُ عَلَيْنَا وَقَدْ آمَنَّا بِكَ وَصَدَّقْنَاكَ بِمَا جِئْتَ بِهِ , فَقَالَ:" إِنَّ الْقُلُوبَ بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ يُقَلِّبُهَا" , وَأَشَارَ الْأَعْمَشُ بِإِصْبَعَيْهِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے: «اللهم ثبت قلبي على دينك»”اے اللہ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ“، ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہم پر خوف کرتے ہیں (ہمارے حال سے کہ ہم پھر گمراہ ہو جائیں گے)، حالانکہ ہم تو آپ پر ایمان لا چکے، اور ان تعلیمات کی تصدیق کر چکے ہیں جو آپ لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک لوگوں کے دل رحمن کی دونوں انگلیوں کے درمیان ہیں، انہیں وہ الٹتا پلٹتا ہے“، اور اعمش نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1673، ومصباح الزجاجة: 1343)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القد ر 7 (2140) (صحیح)» (سند میں یزید الرقاشی ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱ ؎: اور اعمش حدیث کے بڑے امام اور بڑے حافظ تھے، مجسمہ اور مشبہہ میں سے نہ تھے، بلکہ سچے اہل سنت میں سے تھے جو جمہیہ اور معتزلہ کی طرح اللہ کی انگلیوں کی تاویل نہیں کرتے تھے، اور انگلی سے انگلی ہی مراد لیتے ہیں، لیکن رب نہ خود کسی مخلوق کے مشابہ ہے، نہ اس کی کوئی چیز جیسے آنکھ اور ساق (پنڈلی) اور انگلی کے اور اگر کوئی ہم سے سوال کرے کہ اللہ کی انگلی کیسی ہے تو ہم کہیں گے اس کی ذات کیسی ہے اگر اس کا جواب وہ دے تو ہم بھی اس کے سوال کا جواب دیں گے، دوسری روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی چھنگلیا طور پہاڑ پر رکھ دی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی انگلیاں ہیں، اور مجازی معنی مراد نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يزيد بن أبان الرقاشي ضعيف وانظر ضعيف سنن الترمذي (2140) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 513
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا: ”تم یہ دعا پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم»”اے اللہ! میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کا بخشنے والا صرف تو ہی ہے، تو اپنی عنایت سے میرے گناہ بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو غفور و رحیم (بخشنے والا مہربان) ہے“۔
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا وكيع , عن مسعر , عن ابي مرزوق , عن ابي وائل , عن ابي امامة الباهلي , قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو متكئ على عصا , فلما رايناه قمنا , فقال:" لا تفعلوا كما يفعل اهل فارس بعظمائها" , قلنا يا رسول الله: لو دعوت الله لنا , قال:" اللهم اغفر لنا وارحمنا , وارض عنا , وتقبل منا , وادخلنا الجنة , ونجنا من النار , واصلح لنا شاننا كله" , قال فكانما احببنا ان يزيدنا , فقال:" اوليس قد جمعت لكم الامر". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ مِسْعَرٍ , عَنْ أَبِي مَرْزُوقٍ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ , قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَصًا , فَلَمَّا رَأَيْنَاهُ قُمْنَا , فَقَالَ:" لَا تَفْعَلُوا كَمَا يَفْعَلُ أَهْلُ فَارِسَ بِعُظَمَائِهَا" , قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ: لَوْ دَعَوْتَ اللَّهَ لَنَا , قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا , وَارْضَ عَنَّا , وَتَقَبَّلْ مِنَّا , وَأَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ , وَنَجِّنَا مِنَ النَّارِ , وَأَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا كُلَّهُ" , قَالَ فَكَأَنَّمَا أَحْبَبْنَا أَنْ يَزِيدَنَا , فَقَالَ:" أَوَلَيْسَ قَدْ جَمَعْتُ لَكُمُ الْأَمْرَ".
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصا (چھڑی) پر ٹیک لگائے ہمارے پاس باہر تشریف لائے، جب ہم نے آپ کو دیکھا تو ہم کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسے کھڑے نہ ہوا کرو جیسے فارس کے لوگ اپنے بڑوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: «اللهم اغفر لنا وارحمنا وارض عنا وتقبل منا وأدخلنا الجنة ونجنا من النار وأصلح لنا شأننا كله»”اے اللہ! ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، اور ہم سے راضی ہو جا، ہماری عبادت قبول فرما، ہمیں جنت میں داخل فرما، اور جہنم سے بچا، اور ہمارے سارے کام درست فرما دے“، ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تو گویا ہماری خواہش ہوئی کہ آپ اور کچھ دعا فرمائیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے تمہارے لیے جامع دعا نہیں کر دی“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 165 (5230)، (تحفة الأشراف: 4934)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/253، 256) (ضعیف)» (ابو مرزوق لین الحدیث ہیں، اور سند میں کافی اضطراب ہے، لیکن فعل فارس سے ممانعت صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 346)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (5230) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 514