ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا جائے، پھر واپس آئے تو وہ اپنی جگہ (پر بیٹھنے) کا زیادہ حقدار ہے“۔
جوذان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا محصول (ٹیکس) وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3271، ومصباح الزجاجة: 1299) (ضعیف)» (سند میں جوذان کو شرف صحبت حاصل نہیں، بلکہ مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف السند مرسل وابن جريج عنعن وللحديث شواهد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 510
(مرفوع) حدثنا ابو بكر , حدثنا وكيع , عن زمعة بن صالح , عن الزهري , عن وهب بن عبد بن زمعة , عن ام سلمة . ح حدثنا علي بن محمد , حدثنا وكيع , حدثنا زمعة بن صالح , عن الزهري , عن عبد الله بن وهب بن زمعة , عن ام سلمة , قالت:" خرج ابو بكر في تجارة إلى بصرى قبل موت النبي صلى الله عليه وسلم بعام , ومعه نعيمان , وسويبط بن حرملة , وكانا شهدا بدرا , وكان نعيمان على الزاد , وكان سويبط رجلا مزاحا , فقال لنعيمان: اطعمني , قال: حتى يجيء ابو بكر , قال: فلاغيظنك , قال: فمروا بقوم , فقال لهم سويبط: تشترون مني عبدا لي , قالوا: نعم , قال: إنه عبد له كلام وهو قائل لكم إني حر , فإن كنتم إذا قال لكم هذه المقالة , تركتموه فلا تفسدوا علي عبدي , قالوا: لا , بل نشتريه منك , فاشتروه منه بعشر قلائص , ثم اتوه فوضعوا في عنقه عمامة او حبلا , فقال نعيمان: إن هذا يستهزئ بكم وإني حر لست بعبد , فقالوا: قد اخبرنا خبرك , فانطلقوا به فجاء ابو بكر فاخبروه بذلك , قال: فاتبع القوم ورد عليهم القلائص , واخذ نعيمان , قال: فلما قدموا على النبي صلى الله عليه وسلم واخبروه , قال: فضحك النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه منه حولا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ زَمْعَةَ بْنِ صَالِحٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ , عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ . ح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبِ بْنِ زَمْعَةَ , عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , قَالَتْ:" خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فِي تِجَارَةٍ إِلَى بُصْرَى قَبْلَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَامٍ , وَمَعَهُ نُعَيْمَانُ , وَسُوَيْبِطُ بْنُ حَرْمَلَةَ , وَكَانَا شَهِدَا بَدْرًا , وَكَانَ نُعَيْمَانُ عَلَى الزَّادِ , وَكَانَ سُوَيْبِطُ رَجُلًا مَزَّاحًا , فَقَالَ لِنُعَيْمَانَ: أَطْعِمْنِي , قَالَ: حَتَّى يَجِيءَ أَبُو بَكْرٍ , قَالَ: فَلَأُغِيظَنَّكَ , قَالَ: فَمَرُّوا بِقَوْمٍ , فَقَالَ لَهُمْ سُوَيْبِطٌ: تَشْتَرُونَ مِنِّي عَبْدًا لِي , قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ: إِنَّهُ عَبْدٌ لَهُ كَلَامٌ وَهُوَ قَائِلٌ لَكُمْ إِنِّي حُرٌّ , فَإِنْ كُنْتُمْ إِذَا قَالَ لَكُمْ هَذِهِ الْمَقَالَةَ , تَرَكْتُمُوهُ فَلَا تُفْسِدُوا عَلَيَّ عَبْدِي , قَالُوا: لَا , بَلْ نَشْتَرِيهِ مِنْكَ , فَاشْتَرَوْهُ مِنْهُ بِعَشْرِ قَلَائِصَ , ثُمَّ أَتَوْهُ فَوَضَعُوا فِي عُنُقِهِ عِمَامَةً أَوْ حَبْلًا , فَقَالَ نُعَيْمَانُ: إِنَّ هَذَا يَسْتَهْزِئُ بِكُمْ وَإِنِّي حُرٌّ لَسْتُ بِعَبْدٍ , فَقَالُوا: قَدْ أَخْبَرَنَا خَبَرَكَ , فَانْطَلَقُوا بِهِ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخْبَرُوهُ بِذَلِكَ , قَالَ: فَاتَّبَعَ الْقَوْمَ وَرَدَّ عَلَيْهِمُ الْقَلَائِصَ , وَأَخَذَ نُعَيْمَانَ , قَالَ: فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ , قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنْهُ حَوْلًا".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال پہلے بصریٰ تجارت کے لیے گئے، ان کے ساتھ نعیمان اور سویبط بن حرملہ (رضی اللہ عنہما) بھی تھے، یہ دونوں بدری صحابی ہیں، نعیمان رضی اللہ عنہ کھانے پینے کی چیزوں پر متعین تھے، سویبط رضی اللہ عنہ ایک پر مذاق آدمی تھے، انہوں نے نعیمان رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے کھانا کھلاؤ، نعیمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آنے دیجئیے، سویبط رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمہیں غصہ دلا کر پریشان کروں گا، پھر وہ لوگ ایک قوم کے پاس سے گزرے تو سویبط رضی اللہ عنہ نے اس قوم کے لوگوں سے کہا: تم مجھ سے میرے ایک غلام کو خریدو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، سویبط رضی اللہ عنہ کہنے لگے: وہ ایک باتونی غلام ہے وہ یہی کہتا رہے گا کہ میں آزاد ہوں، تم اس کی باتوں میں آ کر اسے چھوڑ نہ دینا، ورنہ میرا غلام خراب ہو جائے گا، انہوں نے جواب دیا: وہ غلام ہم تم سے خرید لیں گے، الغرض ان لوگوں نے دس اونٹنیوں کے عوض وہ غلام خرید لیا، پھر وہ لوگ نعیمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان کی گردن میں عمامہ باندھا یا رسی ڈالی تو نعیمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اس نے (یعنی سویبط نے) تم سے مذاق کیا ہے، میں تو آزاد ہوں، غلام نہیں ہوں، لوگوں نے کہا: یہ تمہاری عادت ہے، وہ پہلے ہی بتا چکا ہے (کہ تم باتونی ہو)، الغرض وہ انہیں پکڑ کر لے گئے، اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، تو لوگوں نے انہیں اس واقعے کی اطلاع دی، وہ اس قوم کے پاس گئے اور ان کے اونٹ دے کر نعیمان کو چھڑا لائے، پھر جب یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مدینہ) آئے تو آپ اور آپ کے صحابہ سال بھر اس واقعے پر ہنستے رہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18189، ومصباح الزجاجة: 1301)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/316) (ضعیف)» (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف ہیں، اور اس کے دوسرے طریق میں نعیمان، سویبط کی جگہ ہے، اور سوبیط، نعیمان کی جگہ پر اور یہ بھی ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف زمعة: ضعيف ومن أجله ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 510
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا وكيع , عن شعبة , عن ابي التياح , قال: سمعت انس بن مالك ، يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخالطنا , حتى يقول لاخ لي صغير:" يا ابا عمير , ما فعل النغي؟" , قال وكيع: يعني طيرا كان يلعب به. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَالِطُنَا , حَتَّى يَقُول لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ:" يَا أَبَا عُمَيْرٍ , مَا فَعَلَ النُّغَيْ؟" , قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي طَيْرًا كَانَ يَلْعَبُ بِهِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں سے (یعنی بچوں سے) میل جول رکھتے تھے، یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے: ” «يا أبا عمير ما فعل النغير» اے ابوعمیر! تمہارا وہ «نغیر»(پرندہ) کیا ہوا؟“ وکیع نے کہا «نغیر» سے مراد وہ پرندہ ہے جس سے ابوعمیر کھیلا کرتے تھے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس طرح بیٹھنے سے کہ بدن کا ایک حصہ دھوپ میں رہے، اور ایک حصے پر سایہ، اس لئے کہ یہ امر طبی طور پر مضر ہے اور بیماری پیدا کرتا ہے، اور یہ ممانعت بھی تنزیہی ہے، نہ کہ تحریمی۔
طخفہ غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مسجد میں پیٹ کے بل (اوندھے منہ) سویا ہوا پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں سے مجھے ہلا کر فرمایا: ”تم اس طرح کیوں سو رہے ہو؟ یہ سونا اللہ کو ناپسند ہے“۔
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اس حال میں کہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیر سے ہلا کر فرمایا: ” «جنيدب» ! (یہ ابوذر کا نام ہے) سونے کا یہ انداز تو جہنمیوں کا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11926، ومصباح الزجاجة: 1303) (صحیح)» (سند میں محمد بن نعیم میں کلام ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: پیٹ کے بل سونے میں جہنمیوں کی مشابہت ہے، قرآن میں ہے: «يوم يسحبون في النار على وجوههم ذوقوا مس سقر»(سورة القمر: 48) یعنی اوندھے منہ جہنم میں کھینچے جائیں گے، یہ بھی ایک ممانعت کی وجہ ہے۔
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس ہوا جو اوندھے منہ مسجد میں سو رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیر سے ہلا کر فرمایا: ”اٹھ کر بیٹھو، اس طرح سونا جہنمیوں کا سونا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4913، ومصباح الزجاجة: 1304) (ضعیف)» (سند میں یعقوب، سلمہ اور ولید سب ضعیف ہیں)