ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کی ایک لونڈی کو صدقہ کی ایک بکری ملی تھی جو مری پڑی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر اس بکری کے پاس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں نے اس کی کھال کیوں نہیں اتار لی کہ اسے دباغت دے کر کام میں لے آتے“؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو مردار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف اس کا کھانا حرام ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مرے ہوئے ماکول اللحم جانور کا گوشت کھانا حرام ہے، لیکن اس کے چمڑے سے دباغت کے بعد ہر طرح کا فائدہ اٹھانا جائز ہے، وہ بیچ کر ہو یا ذاتی استعمال میں لا کر۔
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امہات المؤمنین میں سے کسی ایک کے پاس ایک بکری تھی جو مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر گزر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ اس کی کھال کو کام میں لے آتے تو اس کے مالکوں کو کوئی نقصان نہ ہوتا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4492، ومصباح الزجاجة: 1259) (صحیح)» (سند میں لیث بن ابی سلیم اور شہر بن حوشب دونوں ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ليث بن أبي سليم ضعيف و للحديث شاھد ضعيف عند الطبراني في الكبير (212/7 ح 576) و الحديث السابق (الأصل: 3610) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 507
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: ”جب مردہ جانوروں کی کھال کو دباغت دے دی جائے، تو لوگ ا سے فائدہ اٹھائیں“۔
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح: 509 أم محمد بن عبد الرحمٰن بن ثوبان: وثقھا ابن حبان و ابن عبد البر و يعقوب بن سفيان الفارسي (المعرفة والتاريخ 349/1۔ 350، 425) فالسند حسن
وضاحت: ۱ ؎: حدیث میں «إِهَاب» کا لفظ آیا ہے، اور نضر بن شمیل کہتے ہیں کہ «إِهَاب» اسی کھال کو کہا جاتا جس کی دباغت نہ ہوئی ہو، اور جس کی دباغت ہو جائے اسے «إِهَاب» نہیں کہتے، بلکہ اسے «شن» یا «قربہ» کہا جاتا ہے، لہذا اس حدیث میں «إِهَاب» یعنی بغیر دباغت والے چمڑے کا ذکر ہے، اس «إِهَاب» یعنی کچے چمڑے سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں،لیکن دوسری صحیح حدیثوں میں مشروط طریقے سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، وہ یہ کہ حلال مردہ جانوروں کے چمڑے کو پہلے دباغت دے دیں، پھر اس سے فائدہ اٹھائیں لفظ «إِهَاب» کی وضاحت کے بعد حدیث میں کسی طرح کا نہ کوئی تعارض ہے اور نہ ہی اشکال۔
وضاحت: ۱؎: آپ ﷺ چپل پہنتے تھے اور تسموں سے مراد یہ کہ ہر جوتی میں سامنے دو دو حلقے چمڑے کے تھے ایک میں انگوٹھا اور بیچ کی انگلی ڈالتے، اور دوسرے میں باقی انگلیاں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (في الشمائل: 75) سفيان الثوري عنعن و الحديث الآتي (الأصل: 3615) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 507
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں پیر سے شروع کرے، اور اتارے تو پہلے بائیں پیر سے اتارے“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھی شخص ایک جوتا یا ایک موزہ پہن کر نہ چلے، یا تو دونوں جوتے اور موزے اتار دے یا پھر دونوں جوتے اور موزے پہن لے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ حکم ادب کے طور پر ہے اگر کوئی عذر ہو مثلا ایک پاؤں میں پھوڑا یا درد ہو تو جوتا اس میں نہ پہنا جائے، تو بہتر یہ ہے کہ دوسرے پاؤں کا جوتا بھی اتار کر چلے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفةالأشراف: 12546) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو معاوية والأعمش مدلسان و عنعنا وللحديث طرق ضعيفة عند الترمذي (1775،1776) وغيره انوار الصحيفه، صفحه نمبر 507