سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امہات المؤمنین میں سے کسی ایک کے پاس ایک بکری تھی جو مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر گزر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ اس کی کھال کو کام میں لے آتے تو اس کے مالکوں کو کوئی نقصان نہ ہوتا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4492، ومصباح الزجاجة: 1259) (صحیح)» (سند میں لیث بن ابی سلیم اور شہر بن حوشب دونوں ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ليث بن أبي سليم ضعيف و للحديث شاھد ضعيف عند الطبراني في الكبير (212/7 ح 576) و الحديث السابق (الأصل: 3610) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 507
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3611
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہے وہ مر جائے تو اس کا چمڑا اتار کر رنگ لیا جائے پھر استعمال کی کوئی بھی چیز بنا لی جائے تو یہ جائز ہے۔
(2) بعض علماءگزشتہ حدیث: 3609 کی روشنی میں بیان کرتے ہیں کہ جس جانور کا گوشت کھانا جائز نہیں اس کا چمڑا بھی دبا غت سے پاک ہو جاتا ہے۔ اور بعض علماء کے نزدیک جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کا چمڑا دباغت سے پاک نہیں ہوتا۔ تاہم صحیح اور راجح موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ ماکول اللحم جانوروں ہی کا چمڑا دباغت سے پاک ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3611