سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Medicine
حدیث نمبر: 3493
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عمرو بن رافع , حدثنا محمد بن عبيد الطنافسي , عن الاعمش , عن ابي سفيان , عن جابر , قال: مرض ابي بن كعب مرضا ," فارسل إليه النبي صلى الله عليه وسلم طبيبا , فكواه على اكحله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: مَرِضَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ مَرَضًا ," فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَبِيبًا , فَكَوَاهُ عَلَى أَكْحَلِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ایک بار بیمار پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ایک طبیب بھیجا، اس نے ان کے ہاتھ کی رگ پر داغ دیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 26 (2207)، سنن ابی داود/الطب 6 (3864)، (تحفة الأشراف: 2296)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/303، 304، 315، 371) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 3494
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن ابي الخصيب , حدثنا وكيع , عن سفيان , عن ابي الزبير , عن جابر بن عبد الله , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كوى سعد بن معاذ في اكحله مرتين".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي الْخَصِيبِ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَوَى سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فِي أَكْحَلِهِ مَرَّتَيْنِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ والی رگ میں دو مرتبہ داغا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2762، ومصباح الزجاجة: 1218)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/السلام 26 (2208)، سنن ابی داود/الطب 7 (3866)، سنن الترمذی/السیر 29 (1582)، مسند احمد (3/363)، سنن الدارمی/السیر 66 (2551) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: رسول اکرم ﷺ سے علاج و معالجہ کے لئے اعضاء بدن کو داغنے کے سلسلہ میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جو بظاہر باہم متعارض نظر آتی ہیں، جس کی وجہ سے اس مسئلہ میں علماء کے مابین اختلافات ہیں۔ ۱۔ بعض احادیث سے اعضاء جسم کو داغنا ثابت ہے جیسے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے زخم کو داغنے کا واقعہ۔ ۲۔ بعض میں اس سلسلہ میں آپ کی ناپسندیدگی کا ذکر ہے۔ ۳۔ بعض میں اس کے چھوڑ دینے کی تعریف کی گئی ہے۔ ۴۔ بعض احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ واضح رہے کہ جن احادیث میں اعضاء جسم کو داغنے سے علاج اور شفاء کی بات آئی ہے اس سے اس کے جواز و مشروعیت کا ثبوت ملتا ہے، اور رسول اکرم ﷺ کے اس کو ناپسند کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کام ممنوع ہے، بلکہ اس کا معاملہ «ضب» کے ناپسند ہونے کی طرح ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اسے نہ کھایا، لیکن یہ آپ ﷺ کے دسترخوان پر کھائی گئی، اور آپ نے اس پر سکوت اختیار کیا، اور اس کی حلت کا اقرار فرمایا، اور آپ کے «ضب» نہ کھانے کا تعلق آپ کی ذاتی ناپسندیدگی سے ہے جس کا «ضب» کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس کے ترک کر دینے پر پسندیدگی سے پتہ چلتا ہے کہ اعضاء جسم کو داغ کر علاج نہ کرنا زیادہ بہتر بات ہے۔ اور ممانعت کی احادیث کراہت کے قبیل سے ہیں، یا ایسی صورت سے ممانعت کی بات ہے جس کی ضرورت و حاجت نہ ہو، بلکہ بیماری کے لاحق ہونے کے خوف کی بنا پر ہو۔ اس تفصیل سے پتہ چلا کہ اعضاء جسم کے داغنے کے ذریعہ علاج بلا کراہت دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے، ایک یہ کہ اس علاج کے علاوہ اور کوئی صورت علاج کی باقی نہ ہو، بلکہ متعین طور پر اس علاج ہی کی تشخیص کی گئی ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اعضاء جسم کا داغنا شفا اور علاج کا مستقل سبب نہیں ہے، بلکہ اس کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ ہے جو شفا دینے والا ہے، جب دوسری صورتیں علاج کی موجود ہوں تو آگ سے داغنے کا علاج مکروہ ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ علمائے دین نے اعضاء جسم کو داغ کر اس سے علاج کے جواز کی بات کہی ہے کہ یہ بھی علاج و معالجہ کا ایک مجرب طریقہ ہے، بعض علماء نے اس اعتقاد سے صحت مند آدمی کو داغنے سے منع کیا ہے کہ وہ اس کے بعد دوبارہ بیمار نہ ہو، تو ایسی صورت حرام اور ممنوع ہے، اور دوسری علاج کی صورتیں جن میں زخم کے فساد کا علاج یا اعضاء جسم کے کٹنے کے بعد اس کے علاج کا مسئلہ ہو جائز ہے۔ یہ واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں (اور آج بھی لوگوں میں یہ رواج ہے) لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ صحت مند آدمی کو اس واسطے داغتے تھے کہ وہ اس کے بعد بیمار نہ ہو، اگر یہ صورت ہو تو احادیث نہی اس طرح کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں، اسلام نے اس اعتقاد کو باطل قرار دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ ہی شافی و کافی ہے۔ «إذا مرضت فهو يشفين» اوپر کی وضاحت کا خلاصہ یہ ہوا کہ اعضاء جسم کے داغنے کا طریقہ علاج مختلف صورتوں میں مختلف احکام رکھتا ہے، نہ تو ہمیشہ اس کا ترک صحیح ہے، اور نہ اس علاج کا ہمیشہ اختیار کرنا ہی صحیح ہے، کبھی کراہت کے ساتھ یہ جائز ہے، کبھی یہ علاج مکروہ ہے، اور کبھی یہ حرمت کے دائرہ میں آ جاتا ہے، جواز کی صورت اس کی ضرورت کے پیش نظر ہے، بایں طور کہ علاج کی دوسری صورت باقی نہ ہو بلکہ متعین طور پر کسی بیماری میں یہی علاج موثر ہو جیسے تیزی سے جسم سے خون کے نکلنے میں داغنے کے علاوہ کوئی اس کو روکنے کی ترکیب نہ ہو، ورنہ بیمار کے مر جانے کا خدشہ ہو، اس صورت میں اس علاج کو اپنانا ضروری ہے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے جسم سے خون نہ رکنے کی صورت میں ان کی ہلاکت کے خوف سے ان کے جسم کو داغا۔ یہ واضح رہے کہ اس علاج میں یہ اعتقاد بھی ہونا چاہئے کہ یہ ایک سبب علاج ہے، اصل شافی اللہ تعالیٰ ہے۔ کراہت کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ دوسرے علاج کی موجودگی میں یہ علاج کیا جائے، اس لئے کہ اس علاج میں مریض کو سخت درد بلکہ اصل مرض سے زیادہ سخت درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراہت کی ایک صورت یہ ہے کہ بیماری آنے سے پہلے حفظان صحت کے لئے یہ طریقہ علاج اپنایا جائے، اس لئے کہ اس میں اللہ پر توکل و اعتماد میں کمی اور کمزوری آ جاتی ہے، اور مرض کے واقع ہونے سے پہلے ہی داغنے کے درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صرف اس خدشہ سے کہ ایسا مستقبل میں ممکن ہے، آگ کا عذاب اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اس لئے اس صورت میں اس پر حرمت کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے، داغنے کے علاج میں شفا ڈھونڈھنے میں غلو اور مبالغہ کی صورت میں آدمی حقیقی مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو بھول جاتا ہے، اور دنیاوی اسباب کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اور یہ معلوم ہے کہ اسباب کی طرف توجہ و التفات توحید میں شرک ہے۔ امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ صحیح احادیث میں علاج کا حکم ہے، جو توکل کے منافی نہیں ہے، جیسے بھوک، پیاس، سردی اور گرمی کو اس کے اضداد کے ذریعہ دور کیا جائے، بلکہ توحید کی حقیقت کا اتمام اسی وقت ہو گا جب آدمی اللہ تعالیٰ کی شریعت میں اور سنن کونیہ (کائناتی نظام) میں نتائج تک پہنچنے کے لئے جو اسباب فراہم کئے ہیں ان کو استعمال کرے، اور ان شرعی اور کونی اسباب کو معطل کر دینا دراصل نفس توکل میں قدح ہے۔ اور ایسے ہی امر الٰہی اور حکمت ربانی کا قادح اور اس میں کمزوری پیدا کرنے والا ہے کیونکہ ان اسباب کو معطل کرنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ ان کا ترک توکل کے باب میں زیادہ قوی اور مضبوط ہے۔ پس ان اسباب کا ترک عاجزی ہے، جو اس توکل کے منافی ہے جس کی حقیقت ہی یہ ہے کہ بندہ کا دل اللہ تعالیٰ پر اپنے دینی اور دنیاوی فوائد کے حصول میں اور دینی و دنیاوی نقصانات سے دور رہنے میں اعتماد کرے۔ اس اعتماد و توکل کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، ورنہ آدمی حکمت الٰہی اور شریعت کے اوامر کو معطل کرنے والا ہو گا، لہذا آدمی اپنی عاجزی کو توکل نہ بنائے، اور نہ ہی توکل کو عاجزی کا عنوان دے۔ (زاد المعاد: ۴؍۱۵) (حررہ الفریوائی)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
25. بَابُ: الْكُحْلِ بِالإِثْمِدِ
25. باب: اثمد کا سرمہ لگانے کا بیان۔
Chapter: Kohl with antimony
حدیث نمبر: 3495
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف , حدثنا ابو عاصم , حدثني عثمان بن عبد الملك , قال: سمعت سالم بن عبد الله يحدث , عن ابيه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عليكم بالإثمد , فإنه يجلو البصر وينبت الشعر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ , حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ , حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ , قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَيْكُمْ بِالْإِثْمِدِ , فَإِنَّهُ يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعَرَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنے اوپر «اثمد» ۲؎ کو لازم کر لو، اس لیے کہ وہ بینائی تیز کرتا ہے اور بال اگاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6771، ومصباح الزجاجة: 1219) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں عثمان بن عبدالملک لین الحدیث ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، جب کہ باب کی احادیث میں ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 724)

وضاحت:
۱؎: ثرمد: ایک پتھر ہے جو اصفہان (ایران) میں پایا جاتا ہے۔ اس سے تیار کردہ سرمہ بہترین اور مفید ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 3496
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبد الرحيم بن سليمان , عن إسماعيل بن مسلم , عن محمد بن المنكدر , عن جابر , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" عليكم بالإثمد عند النوم , فإنه يجلو البصر وينبت الشعر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" عَلَيْكُمْ بِالْإِثْمِدِ عِنْدَ النَّوْمِ , فَإِنَّهُ يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعَرَ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: سوتے وقت اثمد کا سرمہ ضرور لگاؤ، کیونکہ اس سے نظر (نگاہ) تیز ہوتی ہے اور بال اگتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3008، ومصباح الزجاجة: 1220) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند اسماعیل بن مسلم ضعیف راوی ہے، لیکن متابعت کثیرہ کی وجہ سے حدیث صحیح ہے کما تقدم)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
إسماعيل بن مسلم ضعيف
و للحديث شواھد قوية دون قوله: ”عند النوم“ انظر الحديث الآتي (الأصل: 3497)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 503
حدیث نمبر: 3497
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يحيى بن آدم , عن سفيان , عن ابن خثيم , عن سعيد بن جبير , عن ابن عباس , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خير اكحالكم الإثمد , يجلو البصر وينبت الشع".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ أَكْحَالِكُمُ الْإِثْمِدُ , يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہتر سرمہ اثمد کا ہے، وہ نظر (بینائی) تیز کرتا، اور بالوں کو اگاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/ الجنائز 18 (994)، الشمائل 51، سنن ابی داود/الطب 14 (3878)، سنن النسائی/الزینة 28 (5116)، (تحفة الأشراف: 5535)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/231، 247، 274، 328، 355، 63 3) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
26. بَابُ: مَنِ اكْتَحَلَ وِتْرًا
26. باب: سرمہ طاق لگانے کا بیان۔
Chapter: One who applies Kohl an odd number of times
حدیث نمبر: 3498
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن عمر , حدثنا عبد الملك بن الصباح , عن ثور بن يزيد , عن حصين الحميري , عن ابي سعد الخير , عن ابي هريرة , ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" من اكتحل فليوتر , من فعل فقد احسن , ومن لا فلا حرج".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ , عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ , عَنْ حُصَيْنٍ الْحِمْيَرِيِّ , عَنْ أَبِي سَعْدِ الْخَيْرِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنِ اكْتَحَلَ فَلْيُوتِرْ , مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ , وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سرمہ لگائے تو طاق لگائے، اگر ایسا کرے گا تو بہتر ہو گا، اور اگر نہ کیا تو حرج کی بات نہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 23 (35)، (تحفة الأشراف: 14938)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 1 (2)، مسند احمد (2/371، سنن الدارمی/الطہارة 5 (689) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (حصین حمیری اور ابوسعد الخیر دونوں مجہول ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
انظر الحديث السابق (337)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 503
حدیث نمبر: 3499
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يزيد بن هارون , عن عباد بن منصور , عن عكرمة , عن ابن عباس , قال:" كانت للنبي صلى الله عليه وسلم مكحلة , يكتحل منها ثلاثا في كل عين".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُكْحُلَةٌ , يَكْتَحِلُ مِنْهَا ثَلَاثًا فِي كُلِّ عَيْنٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی، آپ اس میں سے ہر آنکھ میں تین بار سرمہ لگاتے۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/اللباس 23 (1757)، الطب 9 (2048)، (تحفة الأشراف: 6137)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/354) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں عباد بن منصور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1757)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 503
27. بَابُ: النَّهْيِ أَنْ يُتَدَاوَى بِالْخَمْرِ
27. باب: شراب سے علاج منع ہے۔
Chapter: Prohibition of treating disease with wine
حدیث نمبر: 3500
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عفان , حدثنا حماد بن سلمة , انبانا سماك بن حرب , عن علقمة بن وائل الحضرمي , عن طارق بن سويد الحضرمي , قال: قلت: يا رسول الله , إن بارضنا اعنابا نعتصرها فنشرب منها , قال:" لا" , فراجعته , قلت: إنا نستشفي به للمريض , قال:" إن ذلك ليس بشفاء ولكنه داء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , أَنْبَأَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ , عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ , عَنْ طَارِقِ بْنِ سُوَيْدٍ الْحَضْرَمِيِّ , قَالَ: قُلْتُ: يَا َرَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ بِأَرْضِنَا أَعْنَابًا نَعْتَصِرُهَا فَنَشْرَبُ مِنْهَا , قَالَ:" لَا" , فَرَاجَعْتُهُ , قُلْتُ: إِنَّا نَسْتَشْفِي بِهِ لِلْمَرِيضِ , قَالَ:" إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِشِفَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ".
طارق بن سوید حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے ملک میں انگور ہیں، کیا ہم انہیں نچوڑ کر پی لیا کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے دوبارہ عرض کیا کہ ہم اس سے مریض کا علاج کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دوا نہیں بلکہ خود بیماری ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 11 (3873)، (تحفة الأشراف: 4980)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/311، 5/293) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: بیماری کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ ہے کہ ہر گناہ بیماری ہے، دوسرے یہ کہ شراب سے بیماری پیدا ہو تی ہے شفا نہیں ہوتی، دونوں سچ ہیں، شراب سے مسلمان کو سوائے ضرر کے کبھی فائدہ حاصل نہ ہو گا، اور بادی النظر میں جو کسی کو شراب پینے سے پہلے پہل کچھ فائدہ نظر آتا ہے، یہ فائدہ نہیں بلکہ مقدمہ ہے اس بڑے نقصان کا جو آگے چل کر پیدا ہو گا، اب تمام اطباء اتفاق کرتے جاتے ہیں کہ شراب میں نقصان ہی نقصان ہے، فائدہ موہوم ہے، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اوپر گزری کہ رسول اکرم ﷺ نے خبیث دوا سے منع کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
28. بَابُ: الاِسْتِشْفَاءِ بِالْقُرْآنِ
28. باب: قرآن سے شفاء حاصل کرنے کا بیان۔
Chapter: Seeking a cure with the Qur’an
حدیث نمبر: 3501
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد بن عتبة بن عبد الرحمن الكندي , حدثنا علي بن ثابت , حدثنا سعاد بن سليمان , عن ابي إسحاق /a> , عن الحارث , عن علي رضي الله عنه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خير الدواء القرآن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ , حَدَّثَنَا سَعَّادُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ أَبِي إِسْحَاق /a> , عَنْ الْحَارِثِ , عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ الدَّوَاءِ الْقُرْآنُ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین دوا قرآن ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10056، ومصباح الزجاجة: 1221) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حارث اعور ضعیف راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
انظر الحديث الآتي (3533)
في الحديث علل منها ضعف الحارث الأعور: ضعيف
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 503
29. بَابُ: الْحِنَّاءِ
29. باب: مہندی کا بیان۔
Chapter: Henna
حدیث نمبر: 3502
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا زيد بن الحباب , حدثنا فائد مولى عبيد الله بن علي بن ابي رافع , حدثني مولاي عبيد الله , حدثتني جدتي سلمى ام رافع مولاة رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: كان لا يصيب النبي صلى الله عليه وسلم قرحة , ولا شوكة , إلا" وضع عليه الحناء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ , حَدَّثَنَا فَائِدٌ مَوْلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ , حَدَّثَنِي مَوْلَايَ عُبَيْدُ اللَّهِ , حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي سَلْمَى أُمُّ رَافِعٍ مَوْلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: كَانَ لَا يُصِيبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرْحَةٌ , وَلَا شَوْكَةٌ , إِلَّا" وَضَعَ عَلَيْهِ الْحِنَّاءَ".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی سلمیٰ ام رافع رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی زخم لگتا، یا کانٹا چبھتا تو آپ اس پر مہندی لگاتے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 3 (3858)، سنن الترمذی/الطب 13 (2054)، (تحفة الأشراف: 15893)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/462) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عبیداللہ لین الحدیث ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث حسن ہے)

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3858) ترمذي (2054)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 503

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.