جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جذامی شخص کا ہاتھ پکڑا، اور اپنے ساتھ اس کے ہاتھ کو پیالے میں داخل کر دیا، پھر اس سے کہا: ”کھاؤ، میں اللہ پر اعتماد اور اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں“۔
(مرفوع) حدثنا عمرو بن رافع , حدثنا هشيم , عن يعلى بن عطاء , عن رجل من آل الشريد يقال له عمرو , عن ابيه , قال: كان في وفد ثقيف رجل مجذوم , فارسل إليه النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجع فقد بايعناك". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ , حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ الشَّرِيدِ يُقَالُ لَهُ عَمْرٌو , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ , فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ فَقَدْ بَايَعْنَاكَ".
شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وفد ثقیف میں ایک جذامی شخص تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہلا بھیجا: ”تم لوٹ جاؤ ہم نے تمہاری بیعت لے لی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ زیادہ دیکھنے سے دل میں وسوسہ اور اندیشہ پیدا ہو گا، اگر کبھی ایسے مصیبت زدہ پر نظر پڑ جائے تو یوں کہے: «الحمد لله الذى عافانى مما ابتلاك به وفضلنى على كثير ممن خلق تفضيلا» ۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبد الله بن نمير , عن هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت: سحر النبي صلى الله عليه وسلم يهودي من يهود بني زريق يقال له لبيد بن الاعصم , حتى كان النبي صلى الله عليه وسلم يخيل إليه انه يفعل الشيء ولا يفعله , قالت: حتى إذا كان ذات يوم او كان ذات ليلة دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم دعا , ثم دعا , ثم قال:" يا عائشة، اشعرت ان الله قد افتاني فيما استفتيته فيه , جاءني رجلان، فجلس احدهما عند راسي , والآخر عند رجلي , فقال الذي عند راسي للذي عند رجلي , او الذي عند رجلي للذي عند راسي: ما وجع الرجل؟ قال: مطبوب , قال: من طبه؟ قال: لبيد بن الاعصم , قال: في اي شيء , قال: في مشط , ومشاطة , وجف طلعة ذكر , قال: واين هو؟ قال: في بئر ذي اروان" , قالت: فاتاها النبي صلى الله عليه وسلم في اناس من اصحابه , ثم جاء , فقال:" والله يا عائشة لكان ماءها نقاعة الحناء , ولكان نخلها رءوس الشياطين" , قالت: قلت: يا رسول الله , افلا احرقته , قال:" لا , اما انا فقد عافاني الله , وكرهت ان اثير على الناس منه شرا" , فامر بها فدفنت. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: سَحَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودِيٌّ مِنْ يَهُودِ بَنِي زُرَيْقٍ يُقَالُ لَهُ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ , حَتَّى كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَلَا يَفْعَلُهُ , قَالَتْ: حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ دَعَا , ثُمَّ دَعَا , ثُمَّ قَالَ:" يَا عَائِشَةُ، أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ , جَاءَنِي رَجُلَانِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي , وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلِي , فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رَأْسِي لِلَّذِي عِنْدَ رِجْلِي , أَوِ الَّذِي عِنْدَ رِجْلِي لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِي: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ , قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ , قَالَ: فِي أَيِّ شَيْءٍ , قَالَ: فِي مُشْطٍ , وَمُشَاطَةٍ , وَجُفِّ طَلْعَةِ ذَكَرٍ , قَالَ: وَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذِي أَرْوَانَ" , قَالَتْ: فَأَتَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ , ثُمَّ جَاءَ , فَقَالَ:" وَاللَّهِ يَا عَائِشَةُ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ , وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَفَلَا أَحْرَقْتَهُ , قَالَ:" لَا , أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِي اللَّهُ , وَكَرِهْتُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا" , فَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی زریق کے یہودیوں میں سے لبید بن اعصم نامی ایک یہودی نے جادو کر دیا، تو آپ کو ایسا لگتا کہ آپ کچھ کر رہے ہیں حالانکہ آپ کچھ بھی نہیں کر رہے ہوتے تھے، یہی صورت حال تھی کہ ایک دن یا ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی اور پھر دعا فرمائی، پھر کہا: ”عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی جو میں نے اس سے پوچھی تھی، میرے پاس دو شخص آئے، ایک میرے سرہانے اور دوسرا پائتانے بیٹھ گیا، سرہانے والے نے پائتانے والے سے کہا، یا پائتانے والے نے سرہانے والے سے کہا: اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے، اس نے سوال کیا: کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم نے، اس نے پوچھا: کس چیز میں جادو کیا ہے؟ جواب دیا: کنگھی میں اور ان بالوں میں جو کنگھی کرتے وقت گرتے ہیں، اور نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں، پہلے نے پوچھا: یہ چیزیں کہاں ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا: ذی اروان کے کنوئیں میں“۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ اس کنوئیں پر تشریف لائے، پھر واپس آئے تو فرمایا: ”اے عائشہ! اللہ تعالیٰ کی قسم! اس کا پانی مہندی کے پانی کی طرح (رنگین) تھا، اور وہاں کے کھجور کے درخت گویا شیطانوں کے سر تھے“۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اسے جلایا نہیں؟ فرمایا: ”نہیں، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے تندرست کر دیا ہے، اب میں نے ناپسند کیا کہ میں لوگوں پر اس کے شر کو پھیلاؤں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ سب چیزیں دفن کر دی گئیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 17 (2189)، (تحفة الأشراف: 16985)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجزیة 14 (3175)، الطب 50 (5766)، مسند احمد (6/57) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! آپ کو ہر سال اس زہریلی بکری کی وجہ سے جو آپ نے کھائی تھی، تکلیف ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس کی وجہ سے کچھ بھی ہوا وہ میرے مقدر میں اسی وقت لکھ دیا گیا تھا جب آدم مٹی کے پتلے تھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8443، 8532، ومصباح الزجاجة: 1237) (ضعیف)» (سند میں ابوبکر عنسی مجہول الحال راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبوبكر العنسي: مجهول كما قال ابن عدي وضعفه البوصيري (!) وقال صاحب التقريب: ”وأنا أحسب أنه (أبو بكر) ابن أبي مريم الذي تقدم:7998“ وأبو بكر بن أبي مريم: ضعيف مشهور (انظر ضعيف سنن أبي داود: 4295) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 504
خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کسی مقام پر اترے تو وہ اس وقت یہ دعا پڑھے: «أعوذ بكلمات الله التامة من شر ما خلق- لم يضره في ذلك المنزل شيء حتى يرتحل منه»”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کے تمام کلمات کی ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کیا“ تو اس مقام پر کوئی چیز اسے ضرر نہیں پہنچا سکتی یہاں تک کہ وہ وہاں سے روانہ ہو جائے“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري , حدثني عيينة بن عبد الرحمن , حدثني ابي , عن عثمان بن ابي العاص , قال: لما استعملني رسول الله صلى الله عليه وسلم على الطائف , جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما ادري ما اصلي , فلما رايت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال:" ابن ابي العاص" , قلت: نعم يا رسول الله , قال:" ما جاء بك" , قلت: يا رسول الله , عرض لي شيء في صلواتي حتى ما ادري ما اصلي , قال:" ذاك الشيطان ادنه" , فدنوت منه , فجلست على صدور قدمي , قال: فضرب صدري بيده , وتفل في فمي , وقال:" اخرج عدو الله" , ففعل ذلك ثلاث مرات، ثم قال:" الحق بعملك" , قال: فقال عثمان: فلعمري ما احسبه خالطني بعد. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ , حَدَّثَنِي عُيَيْنَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ , قَالَ: لَمَّا اسْتَعْمَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الطَّائِفِ , جَعَلَ يَعْرِضُ لِي شَيْءٌ فِي صَلَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي , فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ رَحَلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" ابْنُ أَبِي الْعَاصِ" , قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" مَا جَاءَ بِكَ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , عَرَضَ لِي شَيْءٌ فِي صَلَوَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي , قَالَ:" ذَاكَ الشَّيْطَانُ ادْنُهْ" , فَدَنَوْتُ مِنْهُ , فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيَّ , قَالَ: فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ , وَتَفَلَ فِي فَمِي , وَقَالَ:" اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّهِ" , فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ:" الْحَقْ بِعَمَلِكَ" , قَالَ: فَقَالَ عُثْمَانُ: فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ.
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله»”اللہ کے دشمن! نکل جا“؟ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔
(مرفوع) حدثنا هارون بن حيان , حدثنا إبراهيم بن موسى , انبانا عبدة بن سليمان , حدثنا ابو جناب , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن ابيه ابي ليلى , قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاءه اعرابي , فقال: إن لي اخا وجعا , قال:" ما وجع اخيك؟" , قال: به لمم , قال:" اذهب فاتني به" , قال: فذهب فجاء به , فاجلسه بين يديه , فسمعته:" عوذه بفاتحة الكتاب , واربع آيات من اول البقرة , وآيتين من وسطها وإلهكم إله واحد سورة البقرة آية 163 , وآية الكرسي , وثلاث آيات من خاتمتها , وآية من آل عمران" , احسبه قال:" شهد الله انه لا إله إلا هو سورة آل عمران آية 18 , وآية من الاعراف إن ربكم الله الذي خلق سورة الاعراف آية 54 , وآية من المؤمنين ومن يدع مع الله إلها آخر لا برهان له به سورة المؤمنون آية 117 , وآية من الجن: وانه تعالى جد ربنا ما اتخذ صاحبة ولا ولدا سورة الجن آية 3 , وعشر آيات من اول الصافات، وثلاث آيات من آخر الحشر , وقل هو الله احد والمعوذتين" , فقام الاعرابي , قد برا ليس به باس. (مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ حَيَّانَ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى , أَنْبَأَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ , حَدَّثَنَا أَبُو جَنَابٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ أَبِيهِ أَبِي لَيْلَى , قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ , فَقَالَ: إِنَّ لِي أَخًا وَجِعًا , قَالَ:" مَا وَجَعُ أَخِيكَ؟" , قَالَ: بِهِ لَمَمٌ , قَالَ:" اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهِ" , قَالَ: فَذَهَبَ فَجَاءَ بِهِ , فَأَجْلَسَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ , فَسَمِعْتُهُ:" عَوَّذَهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ , وَأَرْبَعِ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ الْبَقَرَةِ , وَآيَتَيْنِ مِنْ وَسَطِهَا وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ سورة البقرة آية 163 , وَآيَةِ الْكُرْسِيِّ , وَثَلَاثِ آيَاتٍ مِنْ خَاتِمَتِهَا , وَآيَةٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ" , أَحْسِبُهُ قَالَ:" شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ سورة آل عمران آية 18 , وَآيَةٍ مِنْ الْأَعْرَافِ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سورة الأعراف آية 54 , وَآيَةٍ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ سورة المؤمنون آية 117 , وَآيَةٍ مِنْ الْجِنِّ: وَأَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلا وَلَدًا سورة الجن آية 3 , وَعَشْرِ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ الصَّافَّاتِ، وَثَلَاثِ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ الْحَشْرِ , وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ والمعوذتين" , فَقَامَ الْأَعْرَابِيُّ , قَدْ بَرَأَ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.
ابولیلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ایک اعرابی نے آ کر کہا: میرا ایک بیمار بھائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا: ”تمہارے بھائی کو کیا بیماری ہے“؟ وہ بولا: اسے آسیب ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اسے لے کر آؤ“، ابولیلیٰ کہتے ہیں کہ وہ (اعرابی) گیا اور اسے لے آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے سامنے بیٹھایا، میں نے آپ کو سنا کہ آپ نے اسے دم کیا، سورۃ فاتحہ، سورۃ البقرہ کی ابتدائی چار آیات اور درمیان کی دو آیتیں، اور «وإلهكم إله واحد» والی آیت، آیت الکرسی، پھر سورۃ البقرہ کی آخری تین آیات، آل عمران کی آیت (جو میرے خیال میں) «شهد الله أنه لا إله إلا هو» ہے، سورۃ الاعراف کی آیت «إن ربكم الله الذي خلق»، سورۃ مومنون کی آیت «ومن يدع مع الله إلها آخر لا برهان له به»، سورۃ الجن کی آیت «وأنه تعالى جد ربنا ما اتخذ صاحبة ولا ولدا» اور سورۃ الصافات کے شروع کی دس آیات، اور سورۃ الحشر کی آخری تین آیات، سورۃ «قل هو الله أحد» اور معوذتین کے ذریعے، تو اعرابی شفایاب ہو کر کھڑا ہو گیا، اور ایسا لگ رہا تھا کہ اسے کوئی تکلیف نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12154، ومصباح الزجاجة: 1239) (منکر)» (سند میں ابو جناب الکلبی کثرت تدلیس کی وجہ سے ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو جناب بن أبي حية: ضعيف مدلس كما قال البوصيري (انظر ضعيف سنن أبي داود: 551) ولأبي جناب لون آخر في زوائد المسند لأحمد (128/5) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 505