ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچی کھجور اور خشک کھجور کو ملا کر کھاؤ، اور پرانی کو نئی کے ساتھ ملا کر کھاؤ، اس لیے کہ شیطان کو غصہ آتا ہے اور کہتا ہے: آدم کا بیٹا زندہ ہے یہاں تک کہ اس نے پرانی اور نئی دونوں چیزیں کھا لیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17334، ومصباح الزجاجة: 1148) (موضوع)» (یحییٰ بن محمد بن قیس کی احادیث ٹھیک ہیں، صرف چار احادیث صحیح نہیں ہیں، ایک یہ حدیث بھی ان موضوع احادیث میں سے ہے، اس حدیث کو ابن جوزی نے موضوعات میں شامل کیا ہے، نیز ملاحظہ: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 231)
قال الشيخ الألباني: موضوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد فيه أبو زكير يحيي بن محمد بن قيس وھو ضعيف“ وھو: ضعيف يعتبر به (التحرير: 7639) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 496
جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ آدمی دو دو کھجوریں ملا کر کھائے، یہاں تک کہ وہ اپنے ساتھیوں سے اجازت لے لے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا ابو داود , حدثنا ابو عامر الخزاز , عن الحسن , عن سعد مولى ابي بكر , وكان سعد يخدم النبي صلى الله عليه وسلم , وكان يعجبه حديثه , ان النبي صلى الله عليه وسلم:" نهى عن الإقران , يعني: في التمر". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ , حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْخَزَّازُ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ سَعْدٍ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ , وَكَانَ سَعْدٌ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكَانَ يُعْجِبُهُ حَدِيثُهُ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنِ الْإِقْرَانِ , يَعْنِي: فِي التَّمْرِ".
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام سعد رضی اللہ عنہ (جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے، اور آپ کو ان کی گفتگو اچھی لگتی تھی) سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا، یعنی کھجوروں کو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4452، ومصباح الزجاجة: 1149)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/199) (صحیح)»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کے پاس پرانی کھجوریں لائی گئیں، تو آپ اس میں سے اچھی کھجوریں چھانٹنے لگے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس میں سے اچھی اچھی کھجوریں نکال کر کھاتے تھے، ابوداود کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ ﷺ اس میں سے کیڑے سسریاں نکالتے تھے، دوسری روایت میں کھجور چھانٹنے سے منع فرمایا، اور یہ محمول ہے اس حالت پر جب نئی کھجور ہو تو اس وقت چھانٹنے کی ضرورت نہیں۔
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا صدقة بن خالد , حدثني ابن جابر , حدثني سليم بن عامر , عن ابني بسر السلميين , قالا:" دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فوضعنا تحته قطيفة , لنا صببناها له صبا , فجلس عليها، فانزل الله عز وجل عليه الوحي في بيتنا، وقدمنا له زبدا وتمرا , وكان يحب الزبد صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ , حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ , عَنْ ابْنَيْ بُسْرٍ السُّلَمِيَّيْنِ , قَالَا:" دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْنَا تَحْتَهُ قَطِيفَةً , لَنَا صَبَبْنَاهَا لَهُ صَبًّا , فَجَلَسَ عَلَيْهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ الْوَحْيَ فِي بَيْتِنَا، وَقَدَّمْنَا لَهُ زُبْدًا وَتَمْرًا , وَكَانَ يُحِبُّ الزُّبْدَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
بسر سلمی کے دو بیٹے (رضی اللہ عنہما) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم نے آپ کے نیچے اپنی ایک چادر بچھائی جسے ہم نے پانی ڈال کر ٹھنڈا کر رکھا تھا، آپ اس پر بیٹھ گئے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھر میں آپ پر وحی نازل فرمائی، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکھن اور کھجور پیش کیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکھن پسند فرماتے تھے۔
(موقوف) حدثنا محمد بن الصباح , وسويد بن سعيد , قالا: حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم , حدثني ابي , قال: سالت سهل بن سعد هل رايت النقي؟ قال:" ما رايت النقي حتى قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم" , فقلت: فهل كان لهم مناخل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال:" ما رايت منخلا , حتى قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم" , قلت: فكيف كنتم تاكلون الشعير غير منخول؟ قال:" نعم , كنا ننفخه فيطير منه ما طار , وما بقي ثريناه". (موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ , حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: سَأَلْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ هَلْ رَأَيْتَ النَّقِيَّ؟ قَالَ:" مَا رَأَيْتُ النَّقِيَّ حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" , فَقُلْتُ: فَهَلْ كَانَ لَهُمْ مَنَاخِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:" مَا رَأَيْتُ مُنْخُلًا , حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" , قُلْتُ: فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَأْكُلُونَ الشَّعِيرَ غَيْرَ مَنْخُولٍ؟ قَالَ:" نَعَمْ , كُنَّا نَنْفُخُهُ فَيَطِيرُ مِنْهُ مَا طَارَ , وَمَا بَقِيَ ثَرَّيْنَاهُ".
ابوحازم کہتے ہیں کہ میں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے میدہ دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک میدہ نہیں دیکھا تھا، تو میں نے پوچھا: کیا لوگوں کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چھلنیاں نہ تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے کوئی چھلنی نہیں دیکھی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی، میں نے عرض کیا: آخر کیسے آپ لوگ بلا چھنا جو کھاتے تھے؟ فرمایا: ہاں! ہم اسے پھونک لیتے تو اس میں اڑنے کے لائق چیز اڑ جاتی اور جو باقی رہ جاتا اسے ہم گوندھ لیتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4731، ومصباح الزجاجة: 1151)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة 22 (5410)، سنن الترمذی/الزہد 38 (2364)، مسند احمد (5/332، 6/71) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور گوندھ کر روٹی پکا لیتے، غرض رسول اکرم ﷺ کے وقت میں آٹا چھاننے کی اور میدہ کھانے کی رسم نہ تھی، یہ بعد کے زمانے کی ایجاد ہے، اور اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے، آٹا جب چھانا جائے، اور اس کا بھوسی بالکل نکل جائے، تو وہ ثقیل اور دیر ہضم ہو جاتا ہے، اور پیٹ میں سدہ اور قبض پیدا کرتا ہے، آخر یہ چھاننے والے لوگ اتنا غور نہیں کرتے کہ رب العالمین نے جو حکیم الحکماء ہے گیہوں میں بھوسی بیکار نہیں پیدا فرمائی، پس بہتر یہی ہے کہ بے چھنا ہوا آٹا کھائے، اور اگر چھانے بھی تو تھوڑی سی موٹی بھوسی نکال ڈالے لیکن میدہ کھانا بالکل خطرناک اور باعث امراض شدیدہ ہے۔
ام ایمن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے آٹا چھانا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کی روٹی بنائی، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ وہ کھانا ہے جو ہم اپنے علاقہ میں بناتے ہیں، میں نے چاہا کہ اس سے آپ کے لیے بھی روٹی تیار کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے (چھان کر نکالی گئی بھوسی) اس میں ڈال دو، پھر اسے گوندھو“۔
عطا کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کی زیارت کی یعنی راوی کا خیال ہے کہ ینانامی بستی میں تشریف لے گئے، وہ لوگ آپ کی خدمت میں پہلی بار کی پکی ہوئی چپاتیوں میں سے کچھ باریک چپاتیاں لے کر آئے، تو وہ رو پڑے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روٹی اپنی آنکھ سے کبھی نہیں دیکھی (چہ جائے کہ کھاتے)۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14205، ومصباح الزجاجة: 1153) (ضعیف)» (ابن عطاء یہ عثمان بن عطاء ہیں اور ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ نے باریک روٹی نہیں دیکھی یعنی چپاتی کیونکہ یہ روٹی موٹے آٹے کی نہیں پک سکتی بلکہ اکثر میدے کی پکاتے ہیں، بلکہ آپ ہمیشہ موٹی روٹی وہ بھی اکثر جو کی کھایا کرتے، اور بے چھنے آٹے کی وہ بھی روز پیٹ بھر کر نہ ملتی تھی، ایک دن کھایا، تو ایک دن فاقہ «سبحان اللہ» ہمارے رسول ﷺ کا تو یہ حال تھا، اور ہم روز کیسے کیسے عمدہ کھانے خوش ذائقہ اور نئی ترکیب کے جن کو اگلے لوگوں نے نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا کھاتے ہیں، اور وہ بھی ناکوں ناک پیٹ بھر کر وہ بھی اسی طرح سے کہ حلال حرام کا کچھ خیال نہیں، مشتبہ کا تو کیا ذکر ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ضعفه البوصيري من أجل عثمان بن عطاء بن أبي مسلم الخراساني انوار الصحيفه، صفحه نمبر 496
قتادہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تھے (اسحاق کی روایت میں یہ اضافہ ہے: اس وقت ان کا نان بائی کھڑا ہوتا تھا، اور دارمی نے اس اضافے کے ساتھ روایت کی ہے کہ ان کا دستر خوان لگا ہوتا تھا یعنی تازہ روٹیوں کا کوئی اہتمام نہ ہوتا)، ایک دن انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: کھاؤ، مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی آنکھ سے باریک چپاتی دیکھی بھی ہو، یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے، اور نہ ہی آپ نے کبھی مسلّم بھنی بکری دیکھی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 26 (5385)، (تحفة الأشراف: 1406)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/128، 134، 250) (صحیح)»