ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں میں بہت سے لوگ کامل ہوئے لیکن عورتوں میں سوائے مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے کوئی کامل نہیں ہوئی، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی باقی تمام کھانوں پر“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ثرید بلا دقت بن جاتا ہے، اور اس کے ساتھ جلدی ہضم ہونے والا، خوش ذائقہ، مقوی، اور بے حد نفع بخش ہے، ایسے ہی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسلمانوں کو بہت فوائد حاصل ہوئے، اور سیکڑوں مسئلے معلوم ہوئے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسے ثرید کی باقی تمام کھانوں پر“۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں کھانا کم ہی میسر ہوتا تھا، اور جب ہمیں کھانا میسر ہو جاتا تو ہمارے پاس رومال اور تولیے نہیں ہوتے تھے، سوائے اپنی ہتھیلیوں، بازوؤں اور پاؤں کے، پھر ہم نماز پڑھتے، اور دوبارہ وضو نہیں کرتے۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، یہ صرف محمد بن سلمہ سے مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 53 (5457)، (تحفة الأشراف: 2251)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة 75 (191)، سنن الترمذی/الطہارة 59 (80) (صحیح)» (ابن ماجہ کے سند کی البانی صاحب نے تضعیف کی ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابن ماجہ، و سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 5675، اور ابن حجر نے محمد بن ابی یحییٰ کی تعیین فرمائی ہے کہ وہ ابن فلیح ہیں، اور ان فلیح کی کنیت ابو یحییٰ ہے، کیونکہ دونوں روایتوں کا سیاق ایک ہی ہے، فتح الباری 9/579)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھا لیتے تو یہ دعا پڑھتے: «الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمين» یعنی ”حمد و ثناء ہے اس اللہ کی جس نے ہمیں کھلایا پلایا اور مسلمان بنایا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 57 (3457)، (تحفة الأشراف: 4442)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأطعمة 53 (3850)، مسند احمد (3/32، 98) (ضعیف)» (سند میں حجاج بن أرطاہ ضعیف اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز مولی ابو سعید مبہم ہیں ملاحظہ ہو: المشکاة: 4304)
وضاحت: ۱؎: یہ بڑی نعمت ہے کہ دین حق کی توفیق بخشی، اگر دنیا بہت ہو اور دین تباہ ہو تو بڑی مصیبت کی بات ہے، چند روز میں یہاں سے جانا ہے، ساری دنیا پڑی رہ جا ئے گی ہم چل دیں گے، ہمارے ساتھ جو جائے گا، وہ ہمارا دین ہے، یا اللہ! تو اپنے فضل سے سچے دین پر ہمیشہ قائم رکھ اور خاتمہ بالخیر فرما، «آمین یارب العالمین» ۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3457) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 494
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کھانا یا جو کچھ سامنے ہوتا اٹھا لیا جاتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا غير مكفي ولا مودع ولا مستغنى عنه ربنا»”اللہ تعالیٰ کی بہت بہت حمد و ثناء ہے، وہ نہایت پاکیزہ اور برکت والا ہے، وہ سب کو کافی ہے اس کے لیے کوئی کافی نہیں، اسے نہ چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی بے نیاز ہوسکتا ہے، اے ہمارے رب! (ہماری دعا سن لے)“۔
معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کھانا کھا کر یہ دعا پڑھے: «الحمد لله الذي أطعمني هذا ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة غفر له ما تقدم من ذنبه»”حمد و ثناء اور تعریف ہے اس اللہ کی جس نے مجھے یہ کھلایا، اور بغیر میری کسی طاقت اور زور کے اسے مجھے عطا کیا“ تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا“۔
وحشی بن حرب حبشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید الگ الگ متفرق ہو کر کھاتے ہو“، لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھانا مل جل کر ایک ساتھ کھاؤ، اور اللہ کا نام لیا کرو، تو اس میں تمہارے لیے برکت ہو گی“۱؎۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سب مل کر کھانا کھاؤ، اور الگ الگ ہو کر مت کھاؤ، اس لیے کہ برکت سب کے ساتھ مل کر کھانے میں ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10535، ومصباح الزجاجة: 1127) (ضعیف جدا)» (عمرو بن دینار قہرمان آل الزبیر نے سالم سے منکر احادیث روایت کی ہے، اس لئے حدیث ضعیف ہے، لیکن پہلا جملہ «كلوا جميعا ولا تفرقوا» ثابت ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2691، تراجع الألبانی: رقم: 361)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا والجملة الأولى ثابتة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (3255) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 494
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے پینے کی چیزوں میں نہ پھونک مارتے تھے، اور نہ ہی برتن کے اندر سانس لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأشربة 20 (3728)، سنن الترمذی/الأشربة 15 (1888)، (تحفة الأشراف: 6149)، وقد أخرجہ: حم1/220، 309ھ 357)، سنن الدارمی/الأشربة 27 (2180) (ضعیف)» (سند میں شریک القاضی سئی الحفظ ہیں، جنہوں نے حدیث کو فعل رسول بنا دیا، جب کہ یہ قول رسول سے ثابت ہے کہ آپ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے، جب کہ مؤلف کے یہاں: (3429) نمبر پر آ رہا ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف وقد صح من قوله صلى الله عليه وسلم
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف شريك بن عبد اللّٰه القاضي عنعن و رواه أبو داود (3728) والحميدي (526) من طريق آخر عن عبدالكريم الجزري به بلفظ: ”نھي رسول اللّٰه ﷺ أن يتنفس في الإناء أو ينفخ فيه“ و سنده صحيح وھو يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 494
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے پاس اس کا خادم کھانا لے کر آئے تو اسے چاہیئے کہ وہ خادم کو اپنے ساتھ بیٹھائے اور اس کے ساتھ کھائے، اور اگر اپنے ساتھ کھلانا پسند نہ کرے تو اسے چاہیئے کہ وہ کھانے میں سے اسے بھی دے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ مروت اور احسان ہے اگرچہ اس خادم کے لئے کھانا مقرر نہ ہو، نقد ہو یا اس کا کھانا الگ ہو خادم سے عام مراد ہے لونڈی ہو یا غلام مزدور یا نوکر یا خدمت کرنے والا وغیرہ، سبحان اللہ، اسلام کے اور مسلمانوں کے مثل کس شریعت اور کس قوم میں اخلاق ہیں کہ مالک اور غلام دونوں ایک ساتھ مل کر کھائیں، اور دونوں ایک سا کپڑا پہنیں اگرچہ اب بعض مغرور متکبر مسلمان ان پر عمل نہ کرتے ہوں۔