سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
17. بَابُ : الاِجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ
باب: ایک ساتھ کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3286
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَدَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , قَالُوا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا وَحْشِيُّ بْنُ حَرْبِ بْنِ وَحْشِيِّ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ وَحْشِيٍّ ، أنهم قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَأْكُلُ وَلَا نَشْبَعُ، قَالَ:" فَلَعَلَّكُمْ تَأْكُلُونَ مُتَفَرِّقِينَ"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَاجْتَمِعُوا عَلَى طَعَامِكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ يُبَارَكْ لَكُمْ فِيهِ".
وحشی بن حرب حبشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید الگ الگ متفرق ہو کر کھاتے ہو“، لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھانا مل جل کر ایک ساتھ کھاؤ، اور اللہ کا نام لیا کرو، تو اس میں تمہارے لیے برکت ہو گی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 15 (3764)، (تحفة الأشراف: 1179)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/501) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: 97)۔»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا اجتماعی کھانا شکم سیری اور حصول برکت کا سبب ہے اور اس سے گریز بے برکتی کا باعث ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (3764)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 494
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3286 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3286
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 25 /486، والصحيحة للألبانى رقم: 664)
بنابریں مل کر کھانا برکت کا باعث ہے تاہم الگ الگ کھانا بھی جائز ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَأكُلوا جَميعًا أَو أَشتاتًا﴾ (النور: 24: 61)
، ”تم پر اس میں بھی کوئی گناه نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ“۔
(2)
بسم اللہ پڑھنا برکت کا باعث ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3286
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3764
´ایک ساتھ مل کر کھانے کا بیان۔`
وحشی بن حرب حبشی حمصی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کھانا کھاتے ہیں لیکن پیٹ نہیں بھرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ مل کر اور بسم اللہ کر کے (اللہ کا نام لے کر) کھاؤ، تمہارے کھانے میں برکت ہو گی۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: جب تم کسی ولیمہ میں ہو اور کھانا رکھ دیا جائے تو گھر کے مالک (میزبان) کی اجازت کے بغیر کھانا نہ کھاؤ۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3764]
فوائد ومسائل:
1۔
شفعہ شفع سے ماخوز ہے اور لغت میں اس کے معنی جوڑا ہونا۔
اضافہ کرنا۔
اور اعانت کرنا آتے ہیں۔
شرعاً یہ ہے کہ مشترک یا ملحق زمین ومکان کو فروخت کرتے وقت شریک ساتھی کو جو حق خریداری کا اولین حق رکھتا تھا۔
بتائے بغیر کسی اور کو منتقل کردیا گیا ہو۔
تو اسے واپس لوٹانا۔
شفعہ کہلاتا ہے۔
بشرط یہ ہے کہ قیمت وہی ہو جو اجنبی نے دی ہو۔
2۔
حدیث۔
1516۔
3515۔
میں ہمسائے سے مراد شریک ہے۔
جیسا کہ متعدد روایات میں صراحت ہے۔
اسی کی تایئد حدیث 3518 سے بھی ہوتی ہے۔
اس میں وضاحت ہے کہ جس ہمسائے کا راستہ ایک ہو وہی ہمسایہ شفعہ کا حقدار ہوگا۔
اگر راستہ مشترک نہ ہو۔
بلکہ الگ الگ ہو ایک دوسرے کی حدود متعین ہوں تو پھر محض ہمسایہ ہونے کی بنا پردہ شفعہ کا حق دار نہیں ہوگا۔
شفعہ کا حق دارصرف وہی ہوگا جو زمین یا باغ میں شریک ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3764