ہلال اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھیڑ کے ایک سالہ بچے کی قربانی جائز ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11737، ومصباح الزجاجة: 1088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/368) (ضعیف)» (ام محمد بن أبی یحییٰ اور ام بلال دونوں مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 65)
وضاحت: ۱؎: جذعہ: بھیڑ کا بچہ جو ایک سال کا ہو جائے، ایک قول یہ ہے کہ جذعہ وہ بچہ ہے جو ایک سال سے کم ہو۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أم محمد والدة محمد بن أبي يحيي: مقبولة (أي مستورة۔مجھولة الحال) كما في التقريب (7869) والحديث الآتي (الأصل: 3140) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 489
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا الثوري ، عن عاصم بن كليب ، عن ابيه ، قال: كنا مع رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقال له: مجاشع من بني سليم، فعزت الغنم فامر مناديا، فنادى ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول:" إن الجذع يوفي مما توفي منه الثنية". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ: مُجَاشِعٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، فَعَزَّتِ الْغَنَمُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا، فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" إِنَّ الْجَذَعَ يُوفِي مِمَّا تُوفِي مِنْهُ الثَّنِيَّةُ".
کلیب کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بنی سلیم کے مجاشع نامی ایک شخص کے ساتھ تھے، بکریوں کی قلت ہو گئی، تو انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا، جس نے پکار کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”(قربانی کے لیے) بھیڑ کا ایک سالہ بچہ دانتی بکری کی جگہ پر کافی ہے“۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف مسنہ (دانتا جانور) ذبح کرو، البتہ جب وہ تم پر دشوار ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سالہ بچہ) ذبح کرو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأضاحي 2 (1962)، سنن ابی داود/الأضاحي 5 (2797)، سنن النسائی/الضحایا 12 (4383)، (تحفة الأشراف: 2715)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/312، 327) (صحیح)» (اس سند میں ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے اس لئے البانی صاحب نے اس پر کلام کیا ہے، مزید بحث کے، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: 2/374 و سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 65 و الإرواء: 2145، وفتح الباری: 10/ 15)
وضاحت: ۱؎: مسنہ: وہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں، یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ برس پورے کر کے چھٹے میں داخل ہو گیا ہو، گائے بیل اور بھینس جب وہ دو برس پورے کر کے تیسرے میں داخل ہو جائیں، بکری اور بھیڑ میں جب ایک برس پورا کر کے دوسرے میں داخل ہو جائیں، جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو چکا ہو، اہل لغت اور شارحین حدیث میں محققین کا یہی قول صحیح ہے، (دیکھئے مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح) ۲؎: جمہوکے نزدیک ایک سالہ بھیڑ کی قربانی جائز ہے، اور سلف کے ایک جماعت کے نزدیک جائز نہیں ہے، ابن حزم نے اس کو جائز کہنے والوں کی خوب تردید کی ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے، جمہور نے جابر کی اس حدیث کو فضل و استحباب پر محمول کیا ہے، مگر یہ بہتر ہے کہ مسنہ نہ ملنے کی صورت میں ذبح کرے، ورنہ نہیں علامہ البانی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں فرماتے ہیں کہ ایک سال کی بکری کی قربانی جائز نہیں، اس کے برخلاف ایک سال کی بھیڑ کی قربانی صحیح احادیث کی وجہ سے کافی ہے (۶/۴۶۳) الأختیارات الفقہیۃ للإمام الألبانی (۱۶۲)۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کا کان آگے سے یا پیچھے سے کٹا ہو، یا وہ پھٹا ہو یا اس میں گول سوراخ ہو، یا ناک کان اور ہونٹ میں سے کوئی عضو کٹا ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأضاحي 6 (2804)، سنن الترمذی/الاضاحي 6 (1498)، سنن النسائی/الضحایا 7 (4377)، 8 (4378)، 9 (4379)، (تحفة الأشراف: 10125)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/80، 108، 128، 9 14)، سنن الدارمی/الأضاحي 3 (1995) (ضعیف)» (اس کے راوی ابواسحاق مختلط اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ان کے شیخ شریح سے ان کا سماع نہیں ہے اس لئے سند میں انقطاع بھی ہے، اور شریح شبیہ المجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2804) ترمذي (1498) نسائي (4377۔4380) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 489
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور) کی آنکھ اور کان غور سے دیکھ لیں (آیا وہ سلامت ہیں یا نہیں)۔
عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: مجھ سے قربانی کے ان جانوروں کو بیان کیجئیے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا، یا منع کیا ہے؟ تو براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہوئے (جب کہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے چھوٹا ہے) فرمایا: ”چار قسم کے جانوروں کی قربانی درست نہیں: ایک کانا جس کا کانا پن واضح ہو، دوسرے بیمار جس کی بیماری عیاں اور ظاہر ہو، تیسرے لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو، چوتھا ایسا لاغر اور دبلا پتلا جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو“۱؎۔ عبید نے کہا: میں اس جانور کو بھی مکروہ جانتا ہوں جس کے کان میں نقص ہو تو براء رضی اللہ عنہ نے کہا: ”جسے تم ناپسند کرو اسے چھوڑ دو، لیکن دوسروں پر اسے حرام نہ کرو“۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ ٹوٹے اور کن کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأضاحي 6 (2805)، سنن الترمذی/الأضاحي 9 (1504)، سنن النسائی/الضحایا 11 (4382)، (تحفة الأشراف: 10031)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/83، 101، 109، 127، 129، 150) (ضعیف)» (جری بن کلیب کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1149)
وضاحت: ۱؎: لیکن منڈا یعنی جس جانور کی سینگ اگی نہ ہو اس کی قربانی جائز ہے، اسی طرح اگر کان آدھا سے کم کٹا ہو تو امام ابوحنیفہ نے اس کو جائز کہا ہے، لیکن حدیث مطلق ہے، اور حدیث کی اتباع بہتر ہے، اور احمد، ابوداود، حاکم اور بخاری نے تاریخ میں تخریج کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا «مصفرہ»(جس کا کان کاٹا گیا ہو) سے اور «مستاصلہ»(جس کی سینگ ٹوٹی ہو) سے اور «بخقاء» سے (جس کی آنکھ میں نقش ہو) اور «مشعیہ» سے (جو اور بکریوں کے ساتھ چل نہ سکے کمزوری اور لاغری سے) اور «کسیرہ» سے (جس کی ہڈیوں میں مغز نہ رہا ہو)۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے قربانی کے لیے ایک مینڈھا خریدا، پھر بھیڑئیے نے اس کے سرین یا کان کو زخمی کر دیا، ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس سلسلے میں) سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اسی کی قربانی کریں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4298، ومصباح الزجاجة: 1089)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/32، 86) (ضعیف جدا)» (سند میں جابر بن یزید الجعفی کذاب، اور اس کے شیخ محمد بن قرظہ الانصاری غیر معروف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا وفي رواية أحمد (78/3،86) ”سمعه من أبي سعيد،محمد؟ قال: لا“ وجابر الجعفي: ضعيف مشهور انوار الصحيفه، صفحه نمبر 489
عطا بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ لوگوں کی قربانیاں کیسی ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا تو اسے سارے گھر والے کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے، پھر لوگ فخر و مباہات کرنے لگے، تو معاملہ ایسا ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو۔
ابوسریحہ کہتے ہیں کہ سنت کا طریقہ معلوم ہو جانے کے بعد بھی ہمارے اہل نے ہمیں زیادتی پر مجبور کیا، حال یہ تھا کہ ایک گھر والے ایک یا دو بکریوں کی قربانی کرتے تھے، اور اب (اگر ہم ایسا کرتے ہیں) تو ہمارے ہمسائے ہمیں بخیل کہتے ہیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: تو ان کے طعنہ کے ڈر سے خلاف سنت بہت سی بکریاں قربانی کرنا پڑتی ہیں، لیکن اللہ تعالی کے خاص بندے کسی کے طعن و تشنیع سے نہیں ڈرتے، اور سنت کے موافق فی گھر ایک بکری ذبح کرتے ہیں۔