عطا بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ لوگوں کی قربانیاں کیسی ہوتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا تو اسے سارے گھر والے کھاتے اور لوگوں کو کھلاتے، پھر لوگ فخر و مباہات کرنے لگے، تو معاملہ ایسا ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3147
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جن لوگوں کا کھانا پینا اور خرچ وغیرہ مشترک ہو وہ ایک گھر کے افراد ہیں۔ ان کی طرف سے ایک ہی قربانی دینا یا گائے یا اونٹ کا ایک حصہ قربانی دینا کافی ہے۔
(2) ایک سے زیادہ قربانیاں کرنا جائز ہیں لیکن تفاخر اور مقابلہ بازی کے انداز سےزیادہ جانور یا قیمتی جانور قربان کرنا قربانی کے اصل مقصد کو ختم کردیتا ہے اس صورت میں کوئی ثواب نہیں ہوتا۔
(3) کسی بھی نیکی میں نیت کا صحیح ہونا اور دل کا خلوص لازمی شرط ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3147
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1505
´ایک بکری کی قربانی گھر کے سارے افراد کی طرف سے کافی ہے۔` عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرت قربانی پر) فخر کرنے لگے، اور اب یہ صورت حال ہو گئی جو دیکھ رہے ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1505]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی لوگ قربانی کرنے میں فخر ومباہات سے کام لینے لگے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1505