سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
Chapters on Hajj Rituals
58. بَابُ: الدَّفْعِ مِنْ عَرَفَةَ
58. باب: عرفات سے لوٹنے کا بیان۔
Chapter: Departing from `Arafat
حدیث نمبر: 3017
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، وعمرو بن عبد الله ، قالا: حدثنا وكيع ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن اسامة بن زيد انه سئل كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير حين دفع من عرفة؟، قال:" كان يسير العنق، فإذا وجد فجوة نص"، قال وكيع: والنص يعني: فوق العنق.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ سُئِلَ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ حِينَ دَفَعَ مِنْ عَرَفَةَ؟، قَالَ:" كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ"، قَالَ وَكِيعٌ: وَالنَّصُّ يَعْنِي: فَوْقَ الْعَنَقِ.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: عرفات سے لوٹتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے چلتے تھے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم «عنق» کی چال (تیز چال) چلتے، اور جب خالی جگہ پاتے تو «نص» کرتے یعنی دوڑتے۔ وکیع کہتے ہیں کہ «عنق» سے زیادہ تیز چال کو «نص» کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 93 (1666)، الجہاد 136 (2999)، المغازي 77 (4413)، صحیح مسلم/الحج 47 (1280، 1286)، سنن ابی داود/الحج 64 (1923)، سنن النسائی/الحج 205 (3026)، 214 (3054)، (تحفة الأشراف: 104)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج57 (176)، مسند احمد (5/205، 210)، سنن الدارمی/المناسک 51 (1922) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 3018
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا الثوري ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قالت قريش:" نحن قواطن البيت، لا نجاوز الحرم، فقال الله عز وجل: ثم افيضوا من حيث افاض الناس سورة البقرة آية 199".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَتْ قُرَيْشٌ:" نَحْنُ قَوَاطِنُ الْبَيْتِ، لَا نُجَاوِزُ الْحَرَمَ، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: قریش کہتے تھے کہ ہم بیت اللہ کے رہنے والے ہیں، حرم کے باہر نہیں جاتے ۱؎، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ: «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس» پھر تم بھی وہیں سے لوٹو جہاں سے اور لوگ لوٹتے ہیں (یعنی عرفات سے) اتاری۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16922، ومصباح الزجاجة: 1054) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اسی وجہ سے وہ عرفات میں وقوف نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ «حل» میں واقع ہے، یعنی حرم سے باہر۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
59. بَابُ: النُّزُولِ بَيْنَ عَرَفَاتٍ وَجَمْعٍ لِمَنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ
59. باب: ضرورت پڑنے پر عرفات اور مزدلفہ کے درمیان اترنے کا بیان۔
Chapter: Stopping between `Arafat and Muzdalifah for one who has a need
حدیث نمبر: 3019
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سفيان ، عن إبراهيم بن عقبة ، عن كريب ، عن اسامة بن زيد ، قال: افضت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما بلغ الشعب الذي ينزل عنده الامراء نزل، فبال وتوضا، قلت: الصلاة، قال:" الصلاة امامك"، فلما انتهى إلى جمع اذن واقام ثم صلى المغرب، ثم لم يحل احد من الناس، حتى قام فصلى العشاء.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: أَفَضْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا بَلَغَ الشِّعْبَ الَّذِي يَنْزِلُ عِنْدَهُ الْأُمَرَاءُ نَزَلَ، فَبَالَ وَتَوَضَّأَ، قُلْتُ: الصَّلَاةَ، قَالَ:" الصَّلَاةُ أَمَامُكَ"، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى جَمْعٍ أَذَّنَ وَأَقَامَ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ لَمْ يَحِلَّ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ، حَتَّى قَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات سے لوٹا، جب آپ اس گھاٹی پر آئے جہاں امراء اترتے ہیں، تو آپ نے اتر کر پیشاب کیا، پھر وضو کیا، تو میں نے عرض کیا: نماز (پڑھ لی جائے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز تمہارے آگے (پڑھی جائے گی) پھر جب مزدلفہ میں پہنچے تو اذان دی، اقامت کہی، اور مغرب پڑھی، پھر کسی نے اپنا کجاوہ بھی نہیں کھولا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور عشاء پڑھی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 64 (1921)، سنن النسائی/المواقیت 50 (610)، الحج 206 (3028)، (تحفة الأشراف: 116)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 35 (139)، الحج 95 (1666)، صحیح مسلم/الحج 47 (1280)، موطا امام مالک/الحج 65 (197)، مسند احمد (5/200، 202، 208، 210)، سنن الدارمی/المناسک 51 (1922) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
60. بَابُ: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِجَمْعٍ
60. باب: مزدلفہ میں مغرب اور عشاء جمع کر کے پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Joining two prayers at Jam` (Muzdalifah)
حدیث نمبر: 3020
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح ، انبانا الليث بن سعد ، عن يحيى بن سعيد ، عن عدي بن ثابت الانصاري ، عن عبد الله بن يزيد الخطمي ، انه سمع ابا ايوب الانصاري ، يقول:" صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم المغرب والعشاء، في حجة الوداع بالمزدلفة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ ، يَقُولُ:" صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْمُزْدَلِفَةِ".
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب اور عشاء مزدلفہ میں پڑھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 96 (1674)، المغازي 76 (4414)، صحیح مسلم/الحج 47 (1287)، سنن النسائی/المواقیت 48 (606)، (تحفة الأشراف: 3465)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 65 (198)، مسند احمد (5/418، 419، 420، 421)، سنن الدارمی/المناسک 52 (1925) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 3021
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محرز بن سلمة العدني ، حدثنا عبد العزيز بن محمد ، عن عبيد الله ، عن سالم ، عن ابيه " ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى المغرب بالمزدلفة، فلما انخنا، قال: الصلاة بإقامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الْمَغْرِبَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَلَمَّا أَنَخْنَا، قَالَ: الصَّلَاةُ بِإِقَامَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب مزدلفہ میں پڑھی، پھر جب ہم نے اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اقامت کہہ کر عشاء پڑھو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6770)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 96 (1674)، صحیح مسلم/الحج 47 (1286)، سنن ابی داود/المناسک 65 (1926)، موطا امام مالک/الحج 65 (196)، سنن الدارمی/المناسک 52 (6770) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
61. بَابُ: الْوُقُوفِ بِجَمْعٍ
61. باب: مزدلفہ میں ٹھہرنے کا بیان۔
Chapter: Stopping at Jam` (Muzdalifah)
حدیث نمبر: 3022
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو خالد الاحمر ، عن حجاج ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، قال: حججنا مع عمر بن الخطاب فلما اردنا ان نفيض من المزدلفة، قال:" إن المشركين كانوا يقولون: اشرق ثبير كيما نغير، وكانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، فخالفهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فافاض قبل طلوع الشمس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلَمَّا أَرَدْنَا أَنْ نُفِيضَ مِنْ الْمُزْدَلِفَةِ، قَالَ:" إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ، وَكَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَخَالَفَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَفَاضَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، تو جب ہم نے مزدلفہ سے لوٹنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا: مشرکین کہا کرتے تھے: اے کوہ ثبیر! روشن ہو جا، تاکہ ہم جلد چلے جائیں، اور جب تک سورج نکل نہیں آتا تھا وہ نہیں لوٹتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف کیا، آپ سورج نکلنے سے پہلے ہی مزدلفہ سے چل پڑے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 100 (1684)، مناقب الأنصار 26 (3838)، سنن ابی داود/الحج 65 (1938)، سنن الترمذی/الحج 60 (896)، سنن النسائی/الحج 213 (3050)، (تحفة الأشراف: 10616)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/14، 29، 39، 42، 50، 52) سنن الدارمی/المناسک 55 (1932) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: جب عرفات سے نویں تاریخ کو لوٹ کر چلے تو راستہ میں مغرب نہ پڑھے بلکہ مغرب اور عشاء دونوں ملا کر عشاء کے وقت میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ مزدلفہ میں آ کر پڑھے، پھر رات مزدلفہ ہی میں گزارے اور صبح ہوتے ہی نماز فجر پڑھ کر سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کے لیے روانہ ہو جائے گا، مزدلفہ میں رات کو رہنا سنت ہے، اور جو لوگ مزدلفہ میں رات بسر نہیں کرتے وہ بدعت کا کام کرتے ہیں، جس سے حاکم کو منع کرنا چاہیے اور جو کوئی رات کو مزدلفہ میں نہ رہے اس پر ایک دم لازم ہو گا، ابن خزیمہ اور ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مزدلفہ میں رات کو رہنا رکن ہے، اس صورت میں اس کے ترک سے ان کا حج باطل ہو جائے گا، اور اس کمی کو دم سے نہ دور کیا جا سکے گا، اور رات کو رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدھی رات کے بعد مزدلفہ میں ٹھہرے اگرچہ ایک گھڑی ہی سہی، اگر اس سے پہلے چل دے گا تو اس پر دم لازم ہو گا، لیکن فجر ہونے سے پہلے سے پھر وہاں لوٹ آئے تو دم ساقط ہو جائے گا، بہرحال رات کی نصف ثانی میں تھوڑی دیر فجر تک مزدلفہ میں ٹھہرنا ضروری ہے، (الروضۃ الندیۃ)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 3023
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، حدثنا عبد الله بن رجاء المكي ، عن الثوري ، قال: قال ابو الزبير : قال جابر : افاض النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وعليه السكينة، وامرهم بالسكينة وامرهم ان يرموا بمثل حصى الخذف، واوضع في وادي محسر، وقال:" لتاخذ امتي نسكها، فإني لا ادري لعلي لا القاهم بعد عامي هذا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ الْمَكِّيُّ ، عَنْ الثَّوْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : قَالَ جَابِرٌ : أَفَاضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ، وَأَمَرَهُمْ بِالسَّكِينَةِ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ، وَأَوْضَعَ فِي وَادِي مُحَسِّرٍ، وَقَالَ:" لِتَأْخُذْ أُمَّتِي نُسُكَهَا، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَلْقَاهُمْ بَعْدَ عَامِي هَذَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں مزدلفہ سے اطمینان کے ساتھ لوٹے، اور لوگوں کو بھی اطمینان کے ساتھ چلنے کا حکم دیا، اور حکم دیا کہ وہ ایسی کنکریاں ماریں جو دونوں انگلیوں کے درمیان آ سکیں، اور وادی محسر، میں آپ نے سواری کو تیز چلایا اور فرمایا: میری امت کے لوگ حج کے احکام سیکھ لیں، کیونکہ مجھے نہیں معلوم شاید اس سال کے بعد میں ان سے نہ مل سکوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 66 (1944)، سنن النسائی/الحج 204 (3024)، 215 (3055)، (تحفة الأشراف: 2747)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 55 (886)، مسند احمد (3/301، 332، 367، 391) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: وادی محسر: منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پر عذاب آیا تھا، جو یمن سے کعبہ کو ڈھانے اور اس کی بے حرمتی کے لیے آئے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 3024
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا علي بن محمد ، وعمرو بن عبد الله ، قالا: حدثنا وكيع حدثنا ابن ابي رواد ، عن ابي سلمة الحمصي ، عن بلال بن رباح ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال له:" غداة جمع يا بلال اسكت الناس او انصت الناس"، ثم قال:" إن الله تطول عليكم في جمعكم هذا، فوهب مسيئكم لمحسنكم، واعطى محسنكم ما سال ادفعوا باسم الله".
(قدسي) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي رَوَّادٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ الْحِمْصِيِّ ، عَنْ بِلَالِ بْنِ رَبَاحٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:" غَدَاةَ جَمْعٍ يَا بِلَالُ أَسْكِتِ النَّاسَ أَوْ أَنْصِتِ النَّاسَ"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ تَطَوَّلَ عَلَيْكُمْ فِي جَمْعِكُمْ هَذَا، فَوَهَبَ مُسِيئَكُمْ لِمُحْسِنِكُمْ، وَأَعْطَى مُحْسِنَكُمْ مَا سَأَلَ ادْفَعُوا بِاسْمِ اللَّهِ".
بلال بن رباح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ کی صبح کو ان سے فرمایا: بلال! لوگوں کو خاموش کرو، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر بہت فضل کیا، تمہارے اس مزدلفہ میں تم میں گنہگار کو نیکوکار کے بدلے بخش دیا، اور نیکوکار کو وہ دیا جو اس نے مانگا، اب اللہ کا نام لے کر لوٹ چلو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2048، ومصباح الزجاجة: 1055) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس سند میں ابوسلمہ الحمصی مجہول ہیں، لیکن انس، عبادہ اور عباس بن مرداس رضی اللہ عنہم کے شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1624)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،أبو سلمة ھذا لا يعرف اسمه وھو مجهول“ وللحديث شواهد كلها ضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 485
62. بَابُ: مَنْ تَقَدَّمَ مِنْ جَمْعٍ إِلَى مِنًى لِرَمْيِ الْجِمَارِ
62. باب: جمرہ عقبہ کو کنکری مارنے کے لیے مزدلفہ سے منیٰ (وقت سے) پہلے آنے کا بیان۔
Chapter: One who comes from Jam` to Mina to stone the pillars
حدیث نمبر: 3025
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا وكيع ، حدثنا مسعر ، وسفيان ، عن سلمة بن كهيل ، عن الحسن العرني ، عن ابن عباس ، قال: قدمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم اغيلمة بني عبد المطلب على حمرات لنا من جمع، فجعل يلطح افخاذنا، ويقول:" ابيني لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس، زاد سفيان فيه ولا إخال احدا يرميها حتى تطلع الشمس".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، وَسُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَدِمْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُغَيْلِمَةَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَلَى حُمُرَاتٍ لَنَا مِنْ جَمْعٍ، فَجَعَلَ يَلْطَحُ أَفْخَاذَنَا، وَيَقُولُ:" أُبَيْنِيَّ لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، زَادَ سُفْيَانُ فِيهِ وَلَا إِخَالُ أَحَدًا يَرْمِيهَا حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہم چھوٹے بچوں کو ہماری اپنی گدھیوں پر پہلے ہی روانہ کر دیا، آپ ہماری رانوں پر آہستہ سے مارتے تھے، اور فرماتے تھے: میرے بچو! سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ مارنا ۱؎۔ سفیان نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے: میں نہیں سمجھتا کہ سورج نکلنے سے پہلے کوئی کنکریاں مارتا ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 66 (1940)، سنن النسائی/الحج 222 (3066)، (تحفة الأشراف: 5396)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 58 (893)، مسند احمد (1/234، 311، 343) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ کو کنکری مارتے ہیں اور اس دن سورج نکلتے ہی کنکریاں ماری جاتی ہیں، البتہ گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو تینوں جمرات کو سورج ڈھلنے کے بعد سات سات کنکریاں مارتے ہیں، ان دونوں میں سورج ڈھلنے سے پہلے کنکری مارنا صحیح نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (1940) نسائي (3066)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 485
حدیث نمبر: 3026
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا سفيان ، حدثنا عمرو ، عن عطاء ، عن ابن عباس ، قال:" كنت فيمن قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، في ضعفة اهله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" كُنْتُ فِيمَنْ قَدِمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي ضَعَفَةِ أَهْلِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں میں جن کمزور لوگوں کو پہلے بھیج دیا تھا ان میں میں بھی تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 49 (1293)، سنن النسائی/الحج 208 (3036)، 214 (3051)، (تحفة الأشراف: 5944)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/221، 272) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

Previous    11    12    13    14    15    16    17    18    19    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.