(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وهشام بن عمار ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عبدة بن ابي لبابة ، قال: سمعت ابا وائل شقيق بن سلمة ، يقول: سمعت الصبي بن معبد ، يقول:" كنت رجلا نصرانيا فاسلمت، فاهللت بالحج والعمرة، فسمعني سلمان بن ربيعة، وزيد بن صوحان، وانا اهل بهما جميعا بالفارسية، فقالا: لهذا اضل من بعيره، فكانما حملا علي جبلا بكلمتهما فقدمت على عمر بن الخطاب فذكرت ذلك له، فاقبل عليهما فلامهما، ثم اقبل علي، فقال: هديت لسنة النبي صلى الله عليه وسلم، هديت لسنة النبي صلى الله عليه وسلم"، قال هشام في حديثه: قال شقيق: فكثيرا ما ذهبت انا ومسروق نساله عنه. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الصُّبَيَّ بْنَ مَعْبَدٍ ، يَقُولُ:" كُنْتُ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ، فَأَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَسَمِعَنِي سَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ، وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا جَمِيعًا بِالْفَارِسِيَّةِ، فَقَالَا: لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِهِ، فَكَأَنَّمَا حَمَلَا عَلَيَّ جَبَلًا بِكَلِمَتِهِمَا فَقَدِمْتُ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمَا فَلَامَهُمَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: هُدِيتَ لِسُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هُدِيتَ لِسُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ هِشَامٌ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ شَقِيقٌ: فَكَثِيرًا مَا ذَهَبْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ نَسْأَلُهُ عَنْهُ.
صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں نصرانی تھا، پھر اسلام لے آیا اور حج و عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا، سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان نے مجھے قادسیہ میں عمرہ اور حج دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارتے ہوئے سنا، تو دونوں نے کہا: یہ تو اپنے اونٹ سے بھی زیادہ نادان ہے، ان دونوں کے اس کہنے نے گویا میرے اوپر کوئی پہاڑ لاد دیا، میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا ذکر کیا، وہ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ملامت کی، پھر میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پایا، تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پایا ۱؎۔ ہشام اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ شقیق کہتے ہیں: میں اور مسروق دونوں صبی بن معبد کے پاس اس حدیث کے متعلق پوچھنے باربار گئے۔
صبی بن معبد نے کہا: مجھے نصرانیت سے اسلام قبول کیے ہوئے تھوڑی ہی مدت گزری تھی، میں نے عبادت کو بجا لانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، میں نے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا، پھر انہوں نے یہ حدیث اسی طرح بیان کی ہے جیسے اوپر گزری۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو ملایا یعنی قران کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3780، ومصباح الزجاجة: 1042)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/28، 29) (صحیح)» (سند میں حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 1575، 1576)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس و الحديث السابق (الأصل: 2968) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 484
جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ جب مکہ آئے تو انہوں نے حج اور عمرہ دونوں کے لیے ایک ہی طواف کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2479، ومصباح الزجاجة: 1043) (صحیح)» (سند میں میں لیث بن أبی سلیم ضعیف اور مدلس ہیں، لیکن آگے کی حدیثوں سے یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یہاں طواف سے مراد سعی ہے، متمتع پر صفا و مروہ کی دو سعی واجب ہیں جب کہ قارن کے لیے صرف ایک سعی کافی ہے خواہ طواف قدوم (زیارت) کے بعد کرے یہی مسئلہ مفرد حاجی کے لیے بھی ہے، واضح رہے کہ بعض حدیثوں میں سعی کے لیے بھی طواف کا لفظ وارد ہوا ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ حج قران کا احرام باندھ کر آئے، اور خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے، پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی اور کہا: اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مسلم بن خالد الزنجي ضعيف و حديث البخاري (1640) و مسلم (1230) و النسائي (5/ 225۔226ح 2935) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 484
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تو ان دونوں کے لیے اسے ایک ہی سعی کافی ہے، اور وہ احرام نہ کھولے جب تک حج کو پورا نہ کر لے، اور اس وقت ان دونوں سے ایک ساتھ احرام کھولے گا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 102 (948)، (تحفة الأشراف: 8029)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/67)، سنن الدارمی/النسک 29 (1886) (صحیح)»
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی عقیق ۱؎ میں فرماتے سنا: ”میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: یہ عمرہ ہے حج میں“(یہ الفاظ دحیم کے ہیں)۔
وضاحت: ۱؎: عقیق: مسجد نبوی سے چار میل (تقریباً ساڑھے چھ کلو) کی دوری پر ایک وادی ہے اور اب شہر کا ایک حصہ ہے۔ یہ جملہ «وقل: عمرة في حجة» احادیث میں تین طرح سے وارد ہے، مسکین کی روایت میں جسے انہوں نے اوزاعی سے روایت کیا ہے «قال: عمرة في حجة» ماضی کے صیغے کے ساتھ ہے اور ولید بن مسلم اور عبدالواحد کی روایت میں «وقل: عمرة في حجة» امر کے صیغے کے ساتھ ہے اور بخاری کی روایت میں «وقل: عمرة و حجة» ہے «عمرة» اور «حجة» کے درمیان واو عاطفہ کے ساتھ۔
سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وادی میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”آگاہ رہو، عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو گیا“۔