جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ جب مکہ آئے تو انہوں نے حج اور عمرہ دونوں کے لیے ایک ہی طواف کیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہاں طواف سے مراد سعی ہے، متمتع پر صفا و مروہ کی دو سعی واجب ہیں جب کہ قارن کے لیے صرف ایک سعی کافی ہے خواہ طواف قدوم (زیارت) کے بعد کرے یہی مسئلہ مفرد حاجی کے لیے بھی ہے، واضح رہے کہ بعض حدیثوں میں سعی کے لیے بھی طواف کا لفظ وارد ہوا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2479، ومصباح الزجاجة: 1043) (صحیح)» (سند میں میں لیث بن أبی سلیم ضعیف اور مدلس ہیں، لیکن آگے کی حدیثوں سے یہ صحیح ہے)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2972
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ قارن (اور اسی طرح مفرد) کے لیے ایک ہی مرتبہ طواف کافی ہے جو وہ قدوم (آنے) کے وقت کرتا ہے اس کے بعد 10 ذی الحجہ کو اس کے لیے طواف افاضہ کرنا ضروری نہیں جیسے اس روز اس کے لیے سعی ضروری نہیں کیونکہ وہ سعی بھی پہلے طواف کے ساتھ کرچکا ہوتا ہے۔ لیکن شیخ ابن باز ؒ نے لکھا ہے کہ دیگر دلائل کی روشنی صحیح ترین قول یہ ہے کہ طواف افاضہ سب کے لیے ضروری ہے چاہے وہ متمتع ہو یا قارن یا مفرد البتہ دوبارہ سعی صرف متمتع کے لیے ہے۔ قارن اور مفرد کے لیے ایک ہی سعی کافی ہے جوکہ طواف قدوم کے وقت کرلی جاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2972