مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2969
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مدینہ منورہ سے روانگی کے بعد رسول اللہ ﷺ کا ارادہ حج مفرود کا تھا۔ ذوالحليفه میں جب احرام باندھا توحج قران کی نیت کرلی۔
(2) عبادات کی نیت دل سے ہوتی ہے لیکن حج اور عمرے میں دل کی نیت کا زبان سے اظہار مسنون ہے۔ نماز اور روزہ وغیرہ میں زبان سے نیت کا اظہار سنت سے ثابت نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2969
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1795
´حج قران کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے انہیں کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حج و عمرہ دونوں کا تلبیہ پڑھتے سنا آپ فرما رہے تھے: «لبيك عمرة وحجا لبيك عمرة وحجا» ۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1795]
1795. اردو حاشیہ: عبادات میں سے حج اور عمرہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کی نیت پکار کر کہی جاتی ہے۔ باقی کسی عبادت میں لفظی نیت ثابت نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1795
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2730
´حج قِران کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك عمرة وحجا لبيك عمرة وحجا» کہتے سنا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2730]
اردو حاشہ: معلوم ہوا آپ نے قران کیا تھا اور یہی صحیح ہے۔ آپ اس وقت یہی کر سکتے تھے۔ صرف حج، ابتدا میں تھا۔ تمتع کی ترغیب دی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2730
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2732
´حج قِران کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حج و عمرہ دونوں کا ایک ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے سنا ہے تو میں نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کا تلبیہ پکارا تھا، پھر میری ملاقات انس سے ہوئی تو میں نے ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بات بیان کی، اس پر انس رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگ ہمیں بچہ ہی سمجھتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ساتھ «لبيك عمرة وحجا» کہتے ہوئے سنا [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2732]
اردو حاشہ: (1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ابتدائی حالت بیان کرتے ہیں اور حضرت انس رضی اللہ عنہ آخری۔ ظاہر ہے آخری بات ہی معتبر ہوتی ہے۔ (2)”تم ہمیں بچے ہی سمجھتے ہو۔“ یعنی گویا ہم نے بچوں کی طرح معاملہ ضبط نہیں کیا۔ ویسے حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت انس رضی اللہ عنہ بیس سال کے تھے۔ تقریباً یہی عمر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ اور بیس سال کی عمر والے کو بچہ نہیں کہتے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2732
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2917
´احرام باندھنے اور (تلبیہ پکارنے) کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مقام شجرہ (ذو الحلیفہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے پاؤں کے پاس تھا، جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے کہا: «لبيك بعمرة وحجة معا»”میں عمرہ و حج دونوں کی ایک ساتھ نیت کرتے ہوئے حاضر ہوں“، یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2917]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رسول اللہ ﷺ طہر کی نماز پڑھ کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے۔ عصر کی نماز ذوالحليفه میں ادا کی پھر صبح تک یہیں قیام فرمایا۔ (سنن أابي داؤد، المناسك، باب وقت الاحرام، حديث: 1773)
(2) رسول اللہﷺ نے کب لبیک پکارنا شروع کیا اس کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مختلف اقوال ہیں۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئےحضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا: رسول اللہﷺ حج کے لیے روانہ ہوئے تو جب آپﷺ نے ذوالحليفه کی مسجد میں نماز پڑھی اسی مقام پر احرام کی نیت کرلی چنانچہ جب دو رکعتوں سے فارغ ہوئے تو حج کا تلبیہ پکارا۔ کچھ لوگوں نے آپ سے یہ لبیک سنا اور یاد رکھا (کہ نبی ﷺ نے مسجد میں لبیک کی ابتداء کی) پھر آپ ﷺ سوار ہوئے چنانچہ جب اپ کی اونٹنی آپ کو لیکر کھڑی ہوئی، تو آپ نے لبیک پکارا۔ کچھ لوگوں نے آپ کو اسی وقت (لبیک پکارتے) دیکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جماعت در جماعت آتے تھے انھوں نے اونٹنی کے کھڑے ہونے پرنبیﷺ کو لبیک پکارتے سنا۔ تو (بعد میں) کہا کہ رسول اللہﷺ نے تو اس وقت لبیک پکارنا شروع کیا تھا جب آپ کی اونٹنى آپﷺ کو لیکر کھڑی ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ روانہ ہوگئے۔ آپﷺ بيداء کی بلند سطح پر چڑھے تو لبیک پکارا۔ کچھ لوگوں نے اس وقت آپ کو (لبیک پکارتے) دیکھا تو انھوں نے (بعد میں روایت کرتے ہوئے) کہا کہ نبیﷺ نے تو اسوقت لبیک پکارنا شروع کیا تھا جب آپﷺ بيداء کی بلند سطح پر پہنچے۔ قسم ہے اللہ کی! آپﷺ نے اپنی نماز کی جگہ (لبیک پکار کر) نیت کرلی تھی پھر جب آپﷺ کی اونٹنی آپﷺ کو لیکے کھڑی ہوئی تو (پھر بلند آواز سے) لبیک پکارا پھر جب بيداء کی بلند سطح پر پہنچے تب بھی (بلند آواز سے) لبیک پکارا۔ (سنن أابي داؤد، المناسك، باب في وقت الاحرام، حديث: 1770)
(3) رسول اللہ ﷺ کی نیت حج قران کی تھی اس لیے آپ نے حج و عمرہ دونوں کا نام لےکر تلبیہ شروع کیا۔ جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہیں تھی انھیں رسول اللہ ﷺ نے عمرے کے بعد احرام کھولنے کا حکم دے دیا تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2917
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 821
´حج اور عمرہ کے ایک ساتھ کرنے کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 821]
اردو حاشہ: 1؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا۔ انس رضی اللہ عنہ کا بیان اس بنیاد پر ہے کہ جب آپ کو حکم دیا گیا کہ حج میں عمرہ بھی شامل کر لیں تو آپ سے کہا گیا ((قُلْ عُمرَۃٌ فِی حَجَّۃِِ)) اس بناء کے انس نے یہ روایت بیان کی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 821
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2996
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو جمع کیا، بکر کہتے ہیں، میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے کہا، ہم نے حج کا احرام باندھا، تو میں حضرت انس رضی اللہ تاعلیٰ عنہ کے پاس لوٹا، اور انہیں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے آ گاہ کیا، انہوں نے کہا، ہم تو گویا بچے ہی تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2996]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ذوالحلیفہ سے احرام سب نے حج افراد کا باندھا تھا بعد میں جب وادی عقیق میں حج کے ساتھ عمرہ کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ عمرہ کو بھی ملا لیا، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابتدائی کیفیت بیان کی ہے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد والی، اس لیے دونوں روایات میں تضاد نہیں ہے، کیونکہ حدیث نمبر174 میں خود حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کو ملایا تھا۔