خارجہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اپنے والد سے اس شخص کے بارے میں سوال کرتے دیکھا، جو جہاد کرنے جائے اور وہاں خرید و فروخت کرے اور تجارت کرے، تو میرے والد نے اسے جواب دیا: ہم جنگ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ ہمیں خرید و فروخت کرتے دیکھتے لیکن منع نہ فرماتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3713، ومصباح الزجاجة: 997)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/440) (ضعیف جدا) (علی بن عروہ البارقی متروک اور سنید بن داود ضعیف را وی ہے)۔»
وضاحت: ۱؎: پس معلوم ہوا کہ جہاد کے سفر میں خرید و فروخت اور تجارتی لین دین منع نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا علي بن عروة: متروك انوار الصحيفه، صفحه نمبر 481
معاذ بن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے شخص کو صبح یا شام رخصت کروں، اور اسے سواری پر بٹھاؤں، یہ میرے نزدیک دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11296، ومصباح الزجاجة: 998) (ضعیف)» (ابن لہیعہ اور زبان بن فائد دونوں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1189)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف زبان: ضعيف (د 1287) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 481
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رخصت کیا تو یہ دعا فرمائی: «أستودعك الله الذي لا تضيع ودائعه»”میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں جس کی امانتیں ضائع نہیں ہوتیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14626، ومصباح الزجاجة: 999)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/358، 403) (صحیح)» (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 16 و 2547)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو جانے والے کے لیے اس طرح دعا کرتے، «أستودع الله دينك وأمانتك وخواتيم عملك»”میں تیرے دین، تیری امانت، اور تیرے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8427، ومصباح الزجاجة: 1000)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد 80 (2600)، سنن الترمذی/الدعوات 44 (3438) (صحیح)» (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 16)
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا عبد الملك محمد الصنعاني ، حدثنا ابو سلمة العاملي ، عن ابن شهاب ، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لاكثم بن الجون الخزاعي:" يا اكثم، اغز مع غير قومك، يحسن خلقك وتكرم على رفقائك، يا اكثم، خير الرفقاء اربعة، وخير السرايا اربع مائة، وخير الجيوش اربعة آلاف، ولن يغلب اثنا عشر الفا من قلة". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ مُحَمَّدٌ الصَّنْعَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْعَامِلِيُّ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَكْثَمَ بْنِ الْجَوْنِ الْخُزَاعِيِّ:" يَا أَكْثَمُ، اغْزُ مَعَ غَيْرِ قَوْمِكَ، يَحْسُنْ خُلُقُكَ وَتَكْرُمْ عَلَى رُفَقَائِكَ، يَا أَكْثَمُ، خَيْرُ الرُّفَقَاءِ أَرْبَعَةٌ، وَخَيْرُ السَّرَايَا أَرْبَعُ مِائَةٍ، وَخَيْرُ الْجُيُوشِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ، وَلَنْ يُغْلَبَ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّةٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثم بن جون خزاعی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اکثم! اپنی قوم کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ہمراہ جہاد کرو، تمہارے اخلاق اچھے ہو جائیں گے، اور تمہارے ساتھیوں میں تمہاری عزت ہو گی، اکثم! چار ساتھی بہتر ہیں، بہترین دستہ چار سو سپاہیوں کا ہے، اور بہترین لشکر چار ہزار کا ہے، نیز بارہ ہزار کا لشکر کبھی کم تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1571، ومصباح الزجاجة: 1001) (ضعیف جداً)» (عبدالملک بن محمد الصنعانی لین الحدیث اور ابو سلمہ العاملی متروک ہے، بلکہ ابو حاتم نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے، آخری فقرہ: «خير الرفقاء» دوسرے طریق سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 986)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا لكن شطره الثاني خير صحيح من وجه آخر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا أبو سلمة العاملي الأزدي: متروك ورماه أبو حاتم بالكذب وعبدالملك بن محمد الصنعاني البرسمي لين الحديث (تقريب:8145،4211) وللحديث طريق آخر عند البيهقي (157/9) وإسناده ضعيف مظلم والشطر الأخير: ’’خيرالصحابة“ إلخ في ضعيف سنن أبي داود (2611) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 481
(موقوف) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو عامر ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن البراء بن عازب ، قال:" كنا نتحدث ان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا يوم بدر ثلاث مائة وبضعة عشر على عدة اصحاب طالوت، من جاز معه النهر وما جاز معه إلا مؤمن". (موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ:" كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا يَوْمَ بَدْرٍ ثَلَاثَ مِائَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَرَ عَلَى عِدَّةِ أَصْحَابِ طَالُوتَ، مَنْ جَازَ مَعَهُ النَّهَرَ وَمَا جَازَ مَعَهُ إِلَّا مُؤْمِنٌ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم برابر گفتگو کرتے رہتے تھے کہ غزوہ بدر میں صحابہ کی تعداد تین سو دس سے کچھ اوپر تھی، اور یہی تعداد طالوت کے ان ساتھیوں کی بھی تھی جنہوں نے ان کے ساتھ نہر پار کی (یاد رہے کہ) ان کے ساتھ صرف اسی شخص نے نہر پار کی تھی جو ایمان والا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوالورد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس فوجی دستے میں شرکت سے بچو جس کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو وہ بھاگ کھڑا ہو، اور اگر مال غنیمت حاصل ہو تو اس میں خیانت کرے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15518، ومصباح الزجاجة: 1002) (ضعیف الإسناد)» (سند میں لہیعہ بن عقبہ ضعیف راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف لهيعةبن عقبة مستور (تقريب: 5682) وقال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف موقوف‘‘ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 481
ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نصاریٰ کے کھانے کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کھانے سے متعلق تمہارے دل میں وسوسہ نہ آنا چاہیئے، ورنہ یہ نصاریٰ کی مشابہت ہو جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 24 (3784)، سنن الترمذی/السیر 16 (1565)، (تحفة الأشراف: 11734)، وقد مسند احمد (5/226) (حسن)» (سند میں قبیصہ بن ہلب مجہول العین ہیں، ان سے صرف سماک نے روایت کی ہے، لیکن حدیث کے شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: جلباب المرأة المسلة: 182)
وضاحت: ۱؎: وہ اپنے مذہب والوں کے سوا دوسرے لوگوں کا کھانا نہیں کھاتے، یہ حال نصاریٰ کا شاید نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہو گا اب تو نصاریٰ ہر مذہب والے کا کھانا یہاں تک کہ مشرکین کا بھی کھا لیتے ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب کا پکایا ہوا کھانا مسلمان کو کھانا جائز ہے اور اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے: «وطعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم»(سورة المائدة: 5)”اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے“ اور نبی کریم ﷺ نے یہود کا کھانا خیبر میں کھایا، لیکن یہ شرط ہے کہ اس کھانے میں شراب اور سور نہ ہو، اور نہ وہ جانور ہو جو مردار ہو مثلاً گلا گھونٹا ہوا یا اللہ کے سوا اور کسی کے نام پر ذبح کیا ہوا، ورنہ وہ کھانا بالاجماع حرام ہو گا۔
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو میں نے سوال کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم مشرکین کی ہانڈیوں میں کھانا پکا سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں نہ پکاؤ“ میں نے کہا: اگر اس کی ضرورت پیش آ جائے اور ہمارے لیے کوئی چارہ کار ہی نہ ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب تم انہیں اچھی طرح دھو لو، پھر پکاؤ اور کھاؤ“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11869، ومصباح الزجاجة: 1003) (صحیح) (سند میں ابو فروہ یزید بن سنان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد و متابعات کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 37 - 3207، نیز یہ حدیث آگے آرہی ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے برتنوں میں نجاستوں کا استعمال کرتے ہیں جیسے مردار کھانے والے اور شراب پینے والے، اگرچہ مسلمان ہی ہوں تو ان کے برتنوں کا استعمال بغیر دھوئے جائز نہیں، اور جو کھانا ان کے برتنوں میں پکا ہو اس کا بھی کھانا درست نہیں ہے۔